شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (28ویں قسط ) ( پچھلی قسط کا بقیہ حصہ )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

مار تو اسلم آرائیں ، حسن عباس اور ان کے ساتھیوں نے کھالی لیکن ساتھ ساتھ مجھے بھی گھورتے رہے بلکہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے رہے کہ آدھی چھٹی ہونے دو ہم تم ست میں نمٹ لیں گے۔ اسی دوران میں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ حالات خاصے کشیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ دشمنوں کے عزائم اچھے نہیں دکھائی دے رہے۔ ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ چنانچہ ہم نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ آدھی چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی ہم ریلوے لائن کی دوسری جانب عتیق کے گھر پناہ لیں گے اور آدھی چھٹی ختم ہونے کے بعد سکول واپس آ جائیں گے جبکہ مانیٹر اسلم آرائیں اور اس کے ساتھی ہمیں پھینٹی لگانے کی تیاری میں مصروف تھے۔

ادھر آدھی چھٹی کی گھنٹی بجی‘ ادھر ہم نے دوڑ لگا دی اور پلک جھپکتے ہی ریلوے لائن کے اس پار عتیق کے گھر جا کر پناہ لے لی۔ ہم جتنی رفتار سے بھاگ رہے تھے، مخالفین بھی اس رفتار سے ہمارا پیچھا کررہے تھے لیکن ہم ان کے ہاتھ اس لئے نہ آ سکے کہ انہیں ہاتھوں میں پتھر اٹھانے کے لئے بھی وقت درکار تھا۔ بہرکیف وہ گھر کے باہر ریلوے لائن پر بیٹھ کر بے تابی سے ہمارا انتظار کرتے رہے۔ اتنے میں آدھی چھٹی ختم ہو گئی اور انہیں مجبوراً واپس کلاس میں جانا پڑا۔ میں نے ایک لڑکے کو ہدایت کی کہ وہ گھر سے باہر جا کر حالات کا جائزہ لے اور مجھے اطلاع دے۔ جب اطمینان ہو گیا کہ ہمارے دشمن سکول میں واپس جا چکے ہیں تو ہم باجماعت عتیق کے گھر سے نکل کر کلاس روم میں جا پہنچے۔ اس وقت تک ٹیچر بھی کلاس میں آچکا تھا اور ٹیچر کی موجودگی میں ہمیں کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا لیکن آنکھوں ہی آنکھوں میں مخالفین ہمیں گھور ضرور رہے تھے۔ ہم بھی پچھلے بینچوں پر بیٹھے ہوئے دفاعی حکمت عملی ترتیب دے رہے تھے کہ دشمن کے شر سے ہمیں کیسے محفوظ رہنا ہے۔ جب مکمل چھٹی ہوگئی تو ہم نے ایک بار پھر وہی حربہ آزمایا اور عتیق کے گھر جا کر پناہ لے لی۔ جب سب لوگ چلے گئے تو ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو واپس آ گئے۔ ہمارا ایک دوست مسلم شاہ پٹھان تھاوہ اپنی جیب میں ہر وقت چاقو رکھتا تھا ۔ چاقو کی وجہ سے لڑکے اس سے ڈرتے بھی تھے کہ کہیں مار ہی نہ دے۔ قصہ مختصر جب تیسرے دن راجہ اختر صاحب کا دوبارہ پیریڈ آیا تو دست بدستہ ان سے عرض کی کہ ہم مانیٹری سے باز آئے کیونکہ مانیٹری کی وجہ سے ہم عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ راجہ صاحب نے کہا کہ تم مانیٹر رہو اگر تمہیں کوئی لڑکا ہاتھ لگائے گا تو میں اسے دیکھ لوں گا۔ میں نے کہا کہ جناب جب آپ تک بات پہنچے گی تب تک ہماری درگت بن چکی ہو گی۔ وہ لڑکے زیادہ بھی ہیں اور طاقتور بھی ہیں۔ اس لئے ہماری طرف سے معذرت سمجھیں‘ میرے لئے ایک ہی دن کی مانیٹری کافی ہے۔

یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ ہم عموماً کلاس کے پچھلے بنچوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ ہمارے پاس دو قسم کے بینچ تھے۔ ایک کی اونچائی معیار کے مطابق تھی کہ دوسرے بینچ کی اونچائی نسبتا کم تھی۔ ان پر بیٹھ کر دن میں کئی بار ہم استاد کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے جس پیریڈ کا کام نہ کیا ہوتا، اس پیریڈ میں ہم چھوٹا بینچ استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوا‘ استاد ہمیں دیکھ نہیں پاتا تھا اور ہم ڈانٹ ڈپٹ سے وقتی طور پربچ جاتے تھے۔

’’مسلم شاہ‘‘ میرا بہت وفادار دوست تھا وہ میری ہر لڑائی میں مجھ سے زیادہ حصہ لیتا۔ میرے خلاف اگر کوئی بات کرتا اور مسلم شاہ کو خبر ہو جاتی تو وہ مجھ سے پوچھے بغیر ہی اس لڑکے کے گلے جا پڑتا۔ جب مجھے علم ہوتا تو میں اسے ڈانٹتا کہ لڑائی شروع کرنے سے پہلے مجھے تو اطلاع کر دیا کرو۔ خدانخواستہ اگر زیادہ لڑکے حملہ آور ہو جائیں تو اکیلے کیسے مقابلہ کر پاؤ گے۔ میرے کہنے کے باوجود بھی وہ باز نہ آتا تو میرے دفاع میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا۔ زندگی کے آنے والے دنوں میں اس نے مجھے اتنی اہمیت دی کہ میں حیران ہونے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات پریشان بھی ہو جاتا تھا‘ دیکھنے والے ہماری دوستی کو دیکھ کر رشک کیا کرتے تھے۔

ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ کے پلیٹ فارم کے شروع میں ہی سلور کلر کا ایک خوبصورت گیٹ ہوا کرتا تھا جس کو گورنر گیٹ کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ جب تک گورنر مغربی پاکستان کے عہدے پر ملک امیر محمد خان فائز رہے وہ جب بھی کسی اور شہرسے بذریعہ ریل لاہور چھاؤنی آتے تو گورنر گیٹ سے گزر کر اپنے لیے مخصوص گاڑیوں پر جا بیٹھتا ۔اس قریب ہی پیلی سی عمارت میں گودام آفس ہوا کرتا تھا۔ اس سے ملحقہ ایک بیری کا درخت تھا جس پر ڈھیروں بیر لگے ہوتے۔ سکول سے واپسی پر وہاں سے بیر توڑنا ہمارا روز کا معمول تھا کبھی کبھی کوئی روک دیتا تو اگلے دن ہم مزید ہوشیاری سے کام کرتے۔ ایک دن بیک وقت میں نے اور میرے دوست جاوید نے (جو ریلوے کوارٹروں ہی میں رہائش پذیر تھا) بیری کو پتھر مارے‘ پتھر لگنے سے جو بیر گرے ان پر اکیلا جاویددعویٰ کرنے لگا جبکہ میں نے کہا کہ ان بیروں میں میرا بھی حصہ شامل ہے۔کیونکہ میرا بھی پتھر بیروں کا لگا تھا لیکن وہ ماننے کو تیار نہ ہوا چنانچہ ہم دونوں کے درمیان ہاتھاپائی شروع ہوگئی۔ جاوید چونکہ مجھ سے چھوٹا تھا اس لئے اس کی قسمت میں زیادہ مار آئی۔ وہ مجھے گالیاں دیتا ہوا گھر کی جانب بھاگ کھڑا ہوا جبکہ میرا راستہ بھی وہی تھا۔ میں نے پیش آمدہ خطرے کو بھانپتے ہوئے گھر آتے ہی والد صاحب کو بڑی معصومیت سے تمام واقعے سے آگاہ کر دیا کہ جاوید نے مجھے گالی دی تھی جس سے مشتعل ہو کر میں نے اس کے منہ پر گھونسا دے مارا۔ مجھے خدشہ تھا کہ جاوید اپنے باپ کو لے کر میری شکایت لگانے کے لئے آئے گا۔ کچھ ہی دیر بعد جاوید اپنے والد کے ہمراہ ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا چونکہ میں نے اپنے والد صاحب کو پہلے ہی مطمئن کر رکھا تھا اس لئے مجھے کسی قسم کی فکر نہ تھی۔ والد صاحب گھر سے باہر نکلے‘ آمد کی وجہ پوچھی تو جاوید کے والد کا رویہ خاصا تلخ تھا جبکہ میرے والد بھی کسی سے کم نہ تھے۔ انہوں نے بھی اسی تلخ لہجے میں بات کی اور جاوید کے والد کو بتایا کہ تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کو گالی دی تھی جس کی سزا اس نے بھگت لی‘ یہاں آنے کی بجائے اپنے بیٹے کو تمیز دو۔ کچھ دیر کی گرمی سردی کے بعد بات رفع دفع ہو گئی اور دونوں باپ بیٹا اپنے گھر واپس ہوگئے لیکن اس جھگڑے کا نقصان یہ ہوا کہ ہم تمام دوست دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔

اے ایس ایم کے لئے مخصوص کوارٹروں میں چوہدری سردار محمد بھی ٹرانسفر ہو کر آئے۔ یوں تو ان کے کئی بچے تھے لیکن ہماری عمر کے دو ہی تھے ایک کا نام افضل اور دوسرا کا ظفر تھا۔ افضل میری کلاس میں پڑھتا تھا اور شروع ہی سے وہ مینڈکوں کا آپریشن کرنے کا شوقین تھا۔ اس کا رجحان میڈیکل کے شعبے کی طرف تھا جس دن بارش ہوتی برساتی مینڈک زمین سے نکل آتے اور افضل کی موج ہو جاتی وہ کئی مینڈکوں کو پکڑ کر گھر لے آتا اور ان کا جسم چیر پھاڑ دیتا ۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت حیرانی ہوتی کہ افضل آخر مینڈک کے جسم سے کیا تلاش کرتا ہے۔ پڑھائی میں وہ مجھ سے زیادہ تیز تھا۔ ایک چھوٹی سی بات نے ہمارے درمیان اتنی بڑی خلیج پیدا کر دی کہ دس بارہ سال تک ہماری بول چال بند رہی۔ پھر ان کے والد چودھری سردار محمد جو لاہور ریلوے اسٹیشن پر اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کے عہدے پر فائز تھے ،ریٹائر ہوگئے۔اس طرح انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ریلوے کوارٹر چھوڑنا پڑا۔

کبھی وہ وقت بھی تھا کہ ہم جہاں بھی جاتے اکٹھے جاتے، صبح سے شام تک ایک دوسرے کی رفاقت پر ہمیں ناز ہوتا لیکن افضل کو ’’چنی منی‘‘ کہنے سے بات بگڑ گئی اور وہ مجھ سے ناراض ہو گیا۔ میں نے اسے منانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ مانا‘ حتی کی مجھ پر بھی خفگی کا عنصر غالب آ گیا۔ پھر وہ مجھے مناتا رہا لیکن میں اس کی شکل دیکھنے سے بھی بیزار ہوگیا۔ کئی احباب نے مسجد میں بیٹھ کر ہماری صلح کروائی لیکن مسجد کی دہلیز پار کرتے ہی صلح کا معاہدہ ختم ہو جاتا اور پھر دونوں پر ایک ہیجانی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اب عرصہ دراز کے بعد افضل سے ملاقات ہوئی تو وہ صرف افضل نہیں‘ ڈاکٹر افضل بن چکا تھا لیکن ہماری دوستی پرانی نہج پر واپس نہ آ سکی۔ چونکہ میرے والدین کا گھر پہلے ریلوے کالونی میں تھا ، والد صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے کچی آبادی قربان لائن میں ہی ایک زمین کا قطعہ خرید کر اس پر پختہ مکان بنالیا اور اپنی مستقل رہائش اس گھر میں رکھ لی۔میں چونکہ
نومبر 1984ء کو والدین سے علیحدگی اختیار کرکے گلبرگ کے آخری حصے میں واقع مکہ کالونی میں چار مرلے کا ایک بوسیدہ سا مکان 28ہزار میں خرید لیا پھر اس کھنڈر نما مکان کو گھر بنانے میں دس سال لگ گئے ۔اس وقت ڈاکٹر افضل کی شہرت مکہ کالونی تک پہنچ چکی تھی ،بلکہ مکہ کالونی کے کئی لوگ ان کے پاس علاج کے لئے آتے ،ایک دوست سے جب ان کا تذکرہ سنا تو مجھے محسوس ہوا کہ ڈاکٹر افضل نام میں شاید میرا سکول فیلو چھپا ہوا جب میں نے مزید جستجو کی تو مجھے خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر افضل وہی تھا جو میرا بچپن کا دوست اور کلاس فیلو تھا۔اب ماشا اﷲ وہ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بناپر پورے علاقے میں مشہور ہوچکا ہے ۔میری رہائش مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ میں تھی جبکہ ڈاکٹر افضل کا کلینک مدینہ کالونی میں تھاگویا میرے اور اس کے درمیان صرف ریلوے لائن حائل تھی لیکن بالمشافہ ملاقاتوں کو بھی سالوں گزر جاتے ہیں۔ نہ اب اس کو مجھ سے ملنے کی خواہش تھی اور نہ ہی میری مصروفیات اس سے ملنے کی فرصت فراہم کر تی ہیں۔میں بھی پہلے پی آئی ڈی بی میں ملازمت کرتا تھا تو شام ہونے تک پارٹ ٹائم ملازمت کرتا ،گھر واپسی شام سات آٹھ بجے ہوتی ۔جب میں بنک آف پنجاب میں ملازمت کرنے لگا تو بنک کے اوقات کار ہی شام تک مصروف رکھتے تھے اس لئے ملاقات کی بہت کم نوبت آئی۔ لیکن اتنا احساس ہم دونوں کو تھا کہ ہم پرانے دونوں دوست ہیں۔
....................
بہرکیف گلبرگ ہائی سکول جس کی پڑھائی اور ڈسپلن کے پورے شہر میں چرچے تھے قومی تحویل میں آنے کے بعد اپنی ساکھ برقرار نہ رکھ سکا۔ قومی تحویل کے بعد سب سے پہلے ہیڈماسٹر رانا صاحب آئے جو گورنمنٹ ہائی سکول لاہور کینٹ میں ہیڈماسٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ رانا صاحب طبیعت اور مزاج کے بہت سخت تھے اور اپنی طبیعت کا استعمال اساتذہ کرام اور طلبہ دونوں پر برابر کرتے تھے۔ میں اس وقت نویں کلاس میں پہنچ چکا تھا اور مجھے اپنی ذہانت اور جسامت کے لحاظ سے نویں بی میں رکھا گیا تھا جبکہ ذہین لڑکوں کو اے گروپ میں شامل کیا گیا تھا۔ ویسے بھی آرٹس گروپ کے لڑکے ذہن کی بجائے جسامت کے بھاری ہوتیتھے۔

اس کلاس میں پہنچ کر آٹھویں جماعت کے مانیٹر‘ اسلم طوطا اور حسن عباس سے جان چھوٹ گئی۔ نویں کلاس میں بھاری بھر کم جسامت کے طلعت حسین مانیٹر اور زاہد شفیق سیکنڈ مانیٹر بن گئے۔ یہ دونوں نوجوان ہر لڑکے کے دل پر راج کرتے تھے۔ بے شک میں طلعت کا بھی بہت احترام کرتا تھا لیکن زاہد شفیق سے مجھے بے حد پیار اورمحبت تھی اگر یہ کہا جائے کہ وہ میرا آئیڈیل تھا تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور گلبرگ تھرڈ میں اس کی رہائش تھی وہ بھی مجھ سے خاصا لگاؤ رکھتا تھا۔ قدرت نے بیس بائیس سالوں بعد ہمیں ایک بار پھر اس وقت ملا دیا جب وہ کونسلر کے الیکشن میں ووٹ لینے کے لئے میرے گھر کی دہلیز پر کھڑا نظر آیا اسے دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ بچپن کی حسین یادیں ایک بار پھر تازہ ہو گئیں بلکہ فلم کی مانند آنکھوں کی سکرین پر چلنے لگیں۔ سیاسی اختلاف کے باوجود میں اسے ووٹ دینے پر مجبو ر ہو گیا۔ بعد میں نہ صرف وہ کونسلر منتخب ہو گیا بلکہ بے نظیر حکومت میں سیاسی اعتبار سے بہت آگے تک چلا گیا۔

بہرحال رانا صاحب کے آنے پر تمام کلاسوں کے لڑکے خفا تھے لیکن کسی کوآواز اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن نویں بی کے تمام لڑکوں نے اعلان بغاوت کر دیا۔ سارے لڑکے سکول کے بالکل سامنے ریلوے لائن پر چڑھ گئے۔ شور مچانے سے اردگرد کے لوگوں کو خبر ہو گئی جبکہ دوسری کلاسوں کے لڑکے بھی نظارہ دیکھنے کے لئے کلاسوں سے باہر نکل آئے۔ ہیڈماسٹر صاحب کو ہماری بغاوت سے بہت دکھ ہوا وہ ایک بہادر جرنیل کی طرح اساتذہ کرام کو ہدایات دے رہے تھے اور اساتذہ کرام ہیڈماسٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں سکول واپس لانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ تاکہ ہماری بغاوت کی خبر کہیں اخبارات کی زینت نہ بن جائے جس سے ہیڈماسٹر صاحب کی سبکی ہو۔ جب اساتذہ نے لڑکوں پر لاٹھی چارج شروع کیا تو چند لڑکوں نے سکول کی جانب پتھر چلانے شروع کر دیئے جس سے ہیڈماسٹر کے کمرے کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ کنٹرول سے باہر نکلتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہیڈماسٹر صاحب بھی سہم گئے۔ ایک دو دن تک ہڑتال چلتی رہی۔ بعد میں اعلیٰ حکام تک بھی خبر پہنچ گئی تو ہیڈماسٹر کو تبدیل کر کے سیکنڈ ہیڈماسٹر خان لطیف خان کو ہیڈماسٹر بنا دیا گیا جو انتہائی دھیمی طبیعت کے رحم دل انسان تھے۔ انہوں نے نویں بی کے تمام لڑکوں کو سمجھا بجھا کر پڑھائی کی طرف دوبارہ راغب کیا۔
؟ جاری ہے)
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 785767 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.