امام مسجد کی بدعا سے بچیں

ہر مسجد میں تین چار بندے لازمی ایسے ہوتے ہیں جو امام کے ساتھ مفت کی دشمنی پالیتے ہیں۔مسجد کا امام ہونا بھی عجیب منصب ہے ،کوئی بھی شخص امام پر اعتراض کر سکتا ہے اور کوئی بھی ڈانٹ ڈپٹ کا حق رکھتا ہے۔ امام کیسا بھی عالی مرتبہ اور عظیم کردار کا مالک کیوں نہ ہو۔ مقتدیوں کی جلی کٹی باتوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو دیکھئے وہ جلیل القدر صحابی ہیں۔ پہلے اسلام لانے والوں میں ان کا نام شامل ہے اور عشرہ مبشّرہ میں سے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے جنہیں اپنے ماموں کا درجہ دے رکھا تھا ،ان کے حق میں قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں۔ واحد ایسے صحابی ہیں جن کے لئے نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ پہ میرے ماں اور باپ قربان۔ جن کے دل میں کسی مسلمان کے لئے بغض اورحسد نہ تھا۔ مستجاب الدّعوات تھے۔ رسول اﷲ ﷺ کے ہمراہ میں تمام تر غزوات میں شریک ہوتے رہے اور راہِ خْدا کے پہلے تیر اندازکا درجہ بھی حاصل کیا ۔خود رسول اﷲ ﷺ آپ کو سالارِ لشکر مقرر فرما کر خرار کی جانب روانہ فرماتے ہیں۔ آپ ؓ کی سالاری میں بہت سی فتوحات ہوئیں لیکن جب امارتِ کوفہ کے دوران مصلائے امامت پہ کھڑے ہوئے تو کوفہ والوں کے اعتراضات کا محور بن گئے ۔کوفہ والے امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کو شکایات بھجواتے ہیں اور ان میں ایک شکایت یہ بھی ہوتی ہے کہ سعد بن ابی وقاص ؓ نماز ٹھیک نہیں پڑھاتے۔وہ شخص جنہوں نے نماز، اﷲ کے نبی ﷺ سے سیکھی۔اس شخص کی نماز پر دیہاتیوں کا اعتراض……..بالکل آج کل جیسے حالات کا منظر پیش کر رہا ہے ۔آج کے آئمہ نے نماز اگرچہ براہ راست رسول اﷲ ﷺ سے نہیں سیکھی مگر رسول اﷲ ﷺ کے اقوال سے سیکھی ہے ۔بہر حال! جب حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ تک پہنچتی ہے تو انہوں نے تحقیقِ احوال کے لیے کوفہ والوں کی طرف محمد بن مسلمہ ؓ اور عبد اللّٰہ بن ارقم ؓ کو بھیجا جو کوفہ کی ایک ایک مسجد میں جا کرحضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بارے میں مقامی لوگوں سے پوچھتے رہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شکایات کوفہ سے چل کر مدینہ جا پہنچی۔لیکن محمد بن مسلمہ ؓ اور عبد اللّٰہ بن ارقم ؓ جس سے بھی سوال کرتے ہیں تو جواب میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی تعریف ہی سننے کو ملتی ہے۔ کسی کی طرف سے کوئی اعتراض موصول نہ ہوا۔ البتہ جب پوچھتے پوچھتے سلسلہ بنو عبس کی مسجد تک پہنچا تو صرف ایک شخص "اسامہ بن قتاد" نامی اٹھ کر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت کرتا ہے کہ ان کی نماز ٹھیک نہیں ہے۔یہ جہاد کے سلسلے میں بھی کوتاہی کرتے ہیں اور فیصلے میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیتے.۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ شکایات کوفہ سے مدینہ پہنچ گئی لیکن کوفہ کی کسی مسجد میں ایک شخص کے علاوہ کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ملا۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ اور لائقِ اعتماد کتب میں موجود ہے کہ جانچ پڑتال کے دوران صرف ایک ہی ایسا آدمی ملا، جسے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ پر اعتراض تھا۔لیکن شکایات مدینہ بھجوا دی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ اگر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو معزول نہ کیا گیا تو فتنہ وفساد کا اندیشہ ہے اور پھر امیرالمونین حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو معزول بھی کر دیا۔اس حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہو گا کہ بعض اوقات صرف ایک دو افراد یا مقتدیوں کو امام سے شکایت ہوتی ہے ۔لیکن ان کا پروپیگنڈہ اتنا شدید اور زہرآلود ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ "یہ شخص اس منصب کے لائق نہیں"۔لیکن کبھی مسجد کا امام بے قصور بھی ہوتا ہے۔اور لوگوں کے اعتراضات بے جا بھی ہوسکتے ہیں۔ایسی حالت میں اپنی "انا" کی تسکین کے بجائے اﷲ تعالی کی پکڑ سے ڈرتے رہنا چاہیئے ۔کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے معترض کی ناحق باتیں سنی تھیں تو اپنے ہاتھ آسمان کی جانب اْٹھا کر یہ دعا کی تھی۔اے اﷲ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور نام ونمود کی خواہش رکھتا ہے تو اس کی عمر کو لمبا کر اس کی محتاجی میں اضافہ کر اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔وقت گزر گیا حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ معزول بھی ہو گئے۔ پروپیگنڈہ جیت بھی گیالیکن سعد بن ابی وقاصؓ کی دْعا اﷲ تعالی کے ہاں ایسی مقبول ہوئی کہ لوگوں نے دیکھا کہ وہ شخص انتہائی بڑھاپے کو پہنچا ،اس کی بھنویں آنکھوں پر گر چکی تھیں ،راستے میں کھڑے ہو کر لوگوں سے بھیک مانگتا اور جب کوئی عورت سامنے سے گزرتی تو اس کے ساتھ چھیڑخانی کرتا۔لوگ کہتے: اے بوڑھے! تمہیں عورتوں کو چھیڑتے ہوئے حیاء نہیں آتی؟جواب میں کہتا: میں کیا کروں؟ مجھ بڈھے کو سعد بن ابی وقاص ؓ کی بد دعا لگ گئی ہے۔آج کے دور کا کوئی امام حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ جیسا نیک اور پارساتو نہیں ہے لیکن کسی بھی مسلمان پر ناحق اعتراضات کرتے وقت اﷲ تعالی کی پکڑ کو بھول نہیں جانا چاہیئے۔ پروپیگنڈہ کرنے والے جیت تو سکتے ہیں۔لیکن اﷲ تعالی کے ہاں فیصلے حقائق کی بنیاد پر ہوتے ہیں ،ان فیصلوں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔میں بذات خود لاہور گلبرگ تھرڈ کی ایک بڑی جامع مسجد میں 30نمازیں پڑھتا رہا ہوں ۔بد قسمتی سے وہاں بھی چند لوگ امام مسجد کی ناک میں جلی کٹی سنا کر دم کیے رکھتے تھے ۔ ان میں سے کتنے ہی لوگ اب قبروں میں جا پہنچے ہیں لیکن تمام نمازیوں کے سامنے امام مسجد کی تذلیل کرنے والوں کے چہرے آج بھی میری آنکھوں میں گھوم رہے ہیں ۔میں کسی ایک امام صاحب کی بات نہیں کرتا بلکہ انتہائی باصلاحیت اور قرآن و حدیث کا بہترین علم رکھنے والے دس پندرہ اماموں کو ناقدین نے ایسے نکال باہر کیا جیسے دودھ میں سے مکھی نکالی جاتی ہے ۔ظلم تو یہ ہے کہ کئی اماموں کو اپنی کتابیں اور ذاتی سامان بھی نہیں اٹھانے دیا گیا ۔ایک مرتبہ تو جب امام صاحب مصلے پر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تومسجدمیں موجود آدھے نمازیوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کردیا ۔ یہ تنازعہ کئی مہینے تک جاری رہا ۔جس کا مجھے بھی دلی صدمہ پہنچا اور میں یہ سوچنے پر مجبورہوگیا کہ یہ لوگ امام مسجد کو کیا اپنا چپڑاسی سمجھتے ہیں کہ ہر شخص اپنی مرضی سے ہانکتا چلا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہو تا ہے کچھ لوگ مسجد میں نماز پڑھنے نہیں آتے ، صرف تنقید کرنے آتے ہیں ۔ میں نے جب مزید جستجو کی تو مجھے یہ معلوم کرکے افسوس ہوا کہ تنقید کرنے والے سارے کے سارے لوگ اپنے اپنے دفتروں میں چپڑاسی لگے ہوئے تھے ، جتنی جھاڑیں ان کو اپنے دفتروں میں پڑتیں ۔وہ انہیں ڈبل کرکے امام مسجد پر اپنا غصہ نکال لیتے ۔کسی بھی مسجد کا امام جب امامت کے مصلے پر کھڑا ہوتا تو وہ سیرت اورکردار کے اعتبار سے سب سے افضل تصور کیا جاتا ہے ۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ مسجدوں میں آنے والے اپنی نمازیں مکمل توجہ اور انہماک سے ادا کریں اور اﷲ سے اپنی نمازوں کی قبولیت کی دعا کیا کریں کیونکہ نشتر زنی اور تنقید سے ستائے ہوئے امام مسجدکی بدعا انسان کو نہ دنیا کا چھوڑتی ہے اورنہ آخرت کا۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 786953 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.