ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی مختلف پہلو قرآن
کریم کے اندر الگ الگ مقامات پر بیان کیے گئے ہیں ۔ سورۂ الصافات میں دو
اہم واقعات کو (جن میں سے ایک نوعمری اور دوسرا کبر سنی کا ہے) نہایت
اجمالی انداز میں پیش کیا گیا ۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’اور یقینا نوح ؑ کے
پیروکاروں میں سے ابراہیم ؑ بھی تھے ۔وہ اللہ کی بارگاہ میں قلب سلیم کے
ساتھ حاضر ہوئے‘‘۔ اس کے بعد دعوت کا ذکر اس طرح ہے کہ :’’جب اپنے مربّی
باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ کس کی عبادت کررہے ہو ؟ کیا خدا کو چھوڑ
کر ان خود ساختہ خداؤں کے طلب گار بن گئے ہو ؟ تو پھر رب العالمین کے بارے
میں تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘۔ یہاں پہلے استفہامیہ انداز میں شرک کا ابطال
اور توحید کی دعوت پیش کی گئی اور اس کے بعد بت شکنی کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
گاوں والے جب کسی میلے میں جانے لگے تو :’’ ابراہیم ؑ نے ستاروں دیکھ کر
کہا کہ میں بیمار ہوں ۔ وہ لوگ منہ پھیر کر چلے گئے‘‘۔ اس کے بعد ابراہیمؑ
معبد میں جاکر : ’’ان کے خداؤں کی طرف رخ کرکے کہا کہ تم لوگ کچھ کھاتے
کیوں نہیں ہو؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ بولتے بھی نہیں ہو؟ پھر ان کی مرمت کی
طرف متوجہ ہوگئے‘‘۔ دیگر مقام پر تفصیل ہے کہ سارے بتوں کو توڑ کر سب سے
بڑے بت کوچھوڑ دیا گیا تاکہ اس سے جواب مانگنے کے لیے کہہ سکیں ۔
قوم کے لوگوں نے واپس آکر اپنے معبودوں کا یہ حشر دیکھا :’’تو وہ لوگ
دوڑتے ہوئے ابراہیم ؑ کے پاس آئے ‘‘ ان کے استفسار پر ابراہیمؑ نے دعوتِ
توحید اس طرح پیش کی کہ :’’ کیا تم لوگ اپنے ہاتھوں کے تراشیدہ بتوں کی
پرستش کرتے ہو جب کہ خدا نے تمہیں اور ان کو سبھی کو پیدا کیا ہے ۔ ان
لوگوں نے کہا کہ ایک عمارت بناکر کر آگ جلا کر انہیں آگ میں ڈال دو ۔ ان
لوگوں نے ایک چال چلنا چاہی لیکن ہم نے انہیں پست اور ذلیل کردیا‘‘ حضرت
ابراہیم ؑ کے لیے آگ سے بچ نکلنے کاعظیم معجزہ دیکھ کر بھی قوم ایمان نہیں
لائی مگر وہ مایوس یا بددل نہیں ہوئے بلکہ :کہا میں اپنے پروردگار کی طرف
جارہا ہوں کہ وہ میری ہدایت کردے گا‘‘۔ اس کے بعد آپؑ نے عراق سے نکل کر
شام ، فلسطین اور مصر کا سفر کیا ۔ ہر جگہ اسلام کی دعوت دی اور بالآخر
ارضِ فلسطین میں سکونت پذیر ہوگئے ۔
تقریباً 97سال کی عمر تک دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد حضرت
ابراہیم ؑ نے دعا فرمائی :’’پروردگار مجھے ایک صالح فرزند عطا فرما ‘‘۔
یعنی ایک ایسا بیٹا جو اقامتِ دین کے کام کو آگے بڑھا سکے ۔ اس دعا کے شرف
قبولیت کا اعلان یوں ہوا کہ :’’ پھر ہم نے انہیں ایک نیک دل فرزند کی بشارت
دی‘‘۔ دعا کی قبولیت کے بعد بھی ابتلاء وآزمائش کا سلسلہ اس طرح جاری رہا
کہ :’’ جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے
کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں ‘‘۔ رب
کائنات نے اپنے خلیل کو براہِ راست حکم دینے کے بجائے خواب میں اشارہ کیا
لیکن کمالِ اطاعت یہ ہے کہ وہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے
کمربستہ ہوگئے اور اپنے بیٹے سے پوچھا :’’ اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال
ہے‘‘۔اسلام کے لیے جینے اور مرنے والے عظیم المرتبت پدر کی مانند
فرمانبردار پسر نے اپنے والد کے خواب کو حکم کے درجہ میں رکھا اورعاجزی و
انکساری سے جواب دیا :’’ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں ان
شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔
حضرت اسماعیلؑ کے اپنے اوپر فخر کرنے کے بجائے کہہ رہے ہیں کہ مجھ سے قبل
اور بعد جو لوگ اس دین پر صبرو استقامت کے ساتھ جمے رہنے والے ہیں آپ مجھے
بھی انہیں میں سے ایک پائیں گے۔ بعد ازاں وہ منظر پیش آیا جس کو آسمانِ
گیتی نے کبھی نہیں دیکھا ۔ ارشادِ ربانی ہے: پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم
کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹادیا تو ہم نے آواز دی کہ اے
ابراہیم ؑ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اسی طرح حسن عمل کرنے والوں کو
جزا دیتے ہیں۔ بیشک یہ بڑا کھلا ہوا امتحان ہے اور ہم نے اس کا بدلہ ایک
عظیم قربانی کو قرار دے دیا ہے اور اس کا تذکرہ آخری دور تک باقی رکھا ہے۔
سلام ہو ابراہیمؑ پر۔ہم اسی طرح حَسن عمل والوں کو جزا دیا کرتے ہیں‘‘۔نبی
کریم ﷺ نے سنت ابراہیمی ؑ کواپنی شریعت میں اذنِ الٰہی سے اس سنت ابراہیمی
کو جاری و ساری فرما دیا اور تاقیامت دنیا بھرکے مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع
پر اسے زندہ و تابندہ کرتے ہیں۔
سیرت ابراہیمیؑ کا پیغام یہ ہے کہ دعوت زندگی ہے اور شہادت موت ہے لیکن
دونوں کا محرک رب کائنات کی خوشنودی ہے کیونکہ مومن کا جینا اور مرنا سب
اللہ کے لیے ہے۔ ان واقعات میں یہ پیغام بھی پنہاں ہے کہ نمرود اور اس کے
پیروکاروں نے جب ابراہیم ؑ کو آگ جلانے کی کوشش کی تو اللہ تبارک و تعالیٰ
نے ان کو ناکام ونامراد کرکے اپنے خلیل کو بچا لیا ۔ ایک زبردست اقتدار کے
سامنے وہ یکہ و تنہا تھے اس کے باوجود اللہ کی مددو نصرت نے انہیں باطل کے
شر سے محفوظ و مامون رکھا کیونکہ وہ صبرو استقامت کے اللہ کے دین پر قائم و
دائم تھے۔ اسی طرح جب بیٹے کی قربانی کا اشارہ کرکے آزمایا گیا تب بھی
پدرو و پسر کی آمادگی کے باوجود حضرت اسماعیل ؑ کو بچا لیا گیا ۔ اللہ
تعالیٰ نے اسماعیل ذبیح اللہ کی اس ذبح عظیم کو شرف قبولیت عطا فرما کر
تاقیامت اس کو یادگار بنا دیا ۔ الحمدللہ امتِ مسلمہ سنتِ ابراہیمی ؑ کا تو
خوب اہتمام کرتی ہے مگر ایمانی کمزوری کے سبب ذلیل و رسوا ہے ، بقول اقبال؎
ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیلؑ
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
|