تحریر: حافظ عتیق الرحمٰن گورچانی(ایم فل اسلامیات)
مدیر جامعہ اصحاب صفہ ڈیرہ غازیخان
انسان طبعی طورپر سستی و کاہلی،لاپرواہی و غفلت اور صرف نظر و بھول جانے کا
بآسانی شکار ہوجاتاہے اسی بنا پر اس کی رہبری و رہنمائی کی ضرورت کو پیش
نظر رکھتے ہوئے خالق کائنات نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور ان
کو کتب ہدایت اور صحائف مقدسہ عنایت کیے۔مرورزمانہ کے ساتھ انسان دنیا و
مافیہا کی محبت کا جلد اسیر بنتے ہوئے دنیا و آخرت کی حقیقت و حیات انسانی
کے بنیادی تقاضوں اور اختیار کیے گئے حرکات و افعال کی جوابدہی سے غافل و
بے پرواہ ہوچکاہے۔موجودہ دور میں اس مرض سریع و مضر کے عوام و خواص سبھی
کسی نہ کسی درجہ میں عادی بن چکے ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے اسلامی
تعلیمات کی روشنی میں اس دیمک سے زیادہ تیز مرض کی تشخیص و علامات اور اس
سے نبرد آزمائی و نجات کے لئے قرآن و سنت سے استفادہ کیا جائے۔
غفلت کا معنیٰ و مفہوم
لفظ غفلت مختلف المعنیٰ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان خواہشات نفس کی پیروی
کرے،غفلت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اس امر کا مرتکب انسان بھولے سے اس کا
شکار ہوجائے یا قصداً بھی ہوسکتاہے،اسی طرح غفلت کا معنی یہ بھی ہے کہ
انسان حافظہ کی کمی و بیداری مغزی کے بنا اس بھول کا شکا رہوجائے۔غفلت کا
ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس سے ملاقات کے
استحضار سے غافل ہو۔غفلت کا مرتکب انسان ہوا و ہوس،فانی و عارضی اشیاء میں
محو ہوتاہےوہ اپنے سبب تخلیق سے صرف نظر کربیٹھتاہے اور ایسے شخص کو واعظ
کی نصیحت و زجر و توبیخ کچھ فائدہ نہیں پہنچاتی۔ غفلت اور نسیان میں معمولی
سافرق ہے کہ غفلت کے ارتکاب میں انسان کا قصد و ارادہ شامل ہوتاہے جبکہ
نسیان میں انسان کا عموماً عزم و ارادہ شامل نہیں ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ اس
نسیان پر شریعت نے کوئی نکیر و گرفت نہیں فرمائی جس میں انسان کو عزم و
ارادہ کا دخل ثابت نہ ہو۔
غفلت کا کلمہ قرآن کریم میں 35 سے زائد مرتبہ صیغہ فعل ماضی و فعل مضارع
اور مصدر و فاعل کے اعتبار سے 25 بار مکی آیات اور 10 مرتبہ مدنی آیات اور
21 سورتوں میں لفظ غفلت استعمال ہواہے۔لفظ غفلت کا استعمال اللہ جل شانہ نے
دومرتبہ محمود کے درجہ میں استعمال کیا اول ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ
پر لگنے والے بہتان کو رفع کرنے کی خاطر۔ارشاد ربانی ہے:"اِنَّ الَّذِیْنَ
یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ"ترجمہ: بیشک جن
لوگوں نےانجان پاک دامن ایمان والیوں سے متعلق عیب جوئی کی ان پر اللہ کی
لعنت ہےاور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔(سورۃ النور23) اللہ جل شانہ نے
اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ ایمان والیوں کے حاشیہ خیال میں بھی گناہ کا
تصور موجود نہیں۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا ہے کہ اس آیت کریمہ کی
مصداق ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ بالخصوص اور بالعموم امہات المؤمنین
ہیں جبکہ بعض اہل اعلم نے ہر اس عورت کو اس میں شامل کیا جو اپنی عفت و پاک
دامنی کا اہتمام کرتی ہو۔دوسری مرتبہ حضرت موسیٰؑ کے واقعہ میں بھی غفلت کا
استعمال محمود کے طورپر استعمال ہواہے کہ"وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى
حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا"شہر میں اسوقت داخل ہوئے جب وہ خواب غفلت
میں مبتلاتھے۔(سورۃ القصص15)
اسی طرح غفلت سے متعلق احکامات شرعی بھی صادر ہوئے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے
ذات رسالتمآبؐ کو ارشاد فرمایا "و لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ
عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا"ان لوگوں کی
پیروی نہ کریں جن کے دل غافل ہوچکے ہیں ہمارے ذکر سے اور وہ اپنی خواہشات
کی پیروی میں مصروف عمل رہتے ہیں اور وہ حد سے تجاوز کرچکے ہیں(سورۃ
الکہف28)اسی طرح اللہ جل شانہ نے ذات رسولؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے
"وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ
الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ
الْغٰفِلِیْنَ" صبح و شام رب کو یاد کیا کروالحاح و زاری کے ساتھ اور ڈرکر
آواز کو بلند نہ کریں اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہوجانا۔(سورۃ
الاعراف205) ان ہر دو آیات کریمہ میں غفلت کا ہادی عالمؐ کی طرف منسوب
کیےجانے میں حکمت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ عامۃ المسلمین پر یہ باور کرانا
چاہتے ہیں کہ جب رسول خداؐ کو غفلت سے آگاہ و خبردار اور دور رہنے کا حکم
دیا جارہاہے جبکہ آپؐ کے غافل ہونے کا شائبہ و احتمال تک موجود نہیں کہ نبی
مکرمؐ معصوم اور طاہر و طیب ہیں سو عام مسلمانوں کو اس مرض مؤلم و مضر سے
بطریق اولیٰ بچنا لازم و ضروری ہے۔
غفلت کے کلمہ کو اللہ جل شانہ نے خود اپنی ذات سے بھی جوڑ کر بیان فرمایاہے
کہ "وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ"انسان جوکچھ بھی عمل
کرتاہے اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔(سورۃ الانعام:132)یعنی انسان کی
زندگی کا ہر ایک پہلو اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر نہیں ہے اور جو کچھ بھی
انسان کہتا اور کرتاہے اس سب کا حساب و کتاب اور اس کی جزاو سزا کا فیصلہ
اللہ تعالیٰ ضرور فرمائیں گے۔
غفلت کے اسباب و محرکات
غفلت کے اسباب و محرکات اور علامات و نقصانات انگنت ہیں جن کی تفصیل مختصر
مقالہ میں درج کرنا ممکن نہیں ہے تاہم اہم اسباب و علل کو یہاں درج کیا
جاتاہے۔
اللہ کی یاد سے غفلت:اہل ایمان کی یہ جبلت ہے کہ وہ زندگی کے کسی بھی گوشہ
میں بھی اللہ کی یاد سے غافل و بے نیاز نہیں ہوتا۔جو کوئی شخص اللہ جو کہ
خالق و مالک اور عبادت کے لائق ہے اس کی یاد سے غافل ہوجائے تو اس سے بدتر
انسان کوئی بھی نہیں ہوسکتااور اللہ کے علاوہ جن کو بھی لوگ پکارتے ہیں وہ
سب ان سے غافل ہیں۔ارشاد خداوندی ہے:" وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗۤ اِلٰى یَوْمِ
الْقِیٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىٕهِمْ غٰفِلُوْنَ "(سورۃ الاحقاف5)
عبادت میں غفلت: اہل ایمان پر لازم و ضروری ہے کہ وہ عبادت میں محو و مصروف
ہونے میں استحضار و خشوع و خضوع کی کیفیت سے سرشار ہوں جبکہ جو لوگ فرائض
کی ادائیگی کو صرف سر سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں اور بددلی و ریاکاری سے
عبادت کرتے ہیں وہ عبادت مسترد کردی جاتی ہے۔ارشاد ربانی ہے:"فَوَیْلٌ
لِّلْمُصَلِّیْنَ ،الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ" ہلاکت مقدر
ہے ان نمازیوں کے لئے جو نماز وں کو بھول بیٹھے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے کہ اہل نفاق اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ خود ہی
دھوکہ کا شکار ہوتے ہیں اور جب نماز کیلئے قیام کرتے ہیں تو سستی و کاہلی
اور لاپرواہی سے کھڑے ہوتے ہیں۔" اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ
اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ
قَامُوْا كُسَالٰىۙ"(سورۃ النساء142)
احکام الٰہی سے اعراض:اہل غفلت میں یہ بھی مرض موجو ہے کہ وہ لوگ اللہ
تعالیٰ کے احکامات کو سنجیدہ نہیں لیتے اور ان کی انجام دہی میں پہلو تہی
سے کام کرتے ہیں یا پھر ان میں اپنی مرضی و منشا سے قطع و برید سے کام لیتے
ہیں۔نماز و روزہ اور قربانی و حج وغیرہ کے احکامات ربانی سے متعلق من چاہی
تاویلات و تفاسیر باطلہ کرکے ان پر عمل داری سے منع کیا جاتاہے۔ارشاد ربانی
ہے"وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ" بہت سے
لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہوچکے ہیں۔(سورۃ یونس 92)
گناہوں میں لذت کا احساس:جو شخص غفلت کے مرض کا اسیر ہوچکاہوتاہے تو اس کو
گناہوں میں لطف و سرور حاصل ہوتاہے اور نیک کاموں میں اس کا جی نہیں
لگتا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے"سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ
یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ
الْحَقِّ-وَاِنْیَّرَوْاكُلَّاٰیَةٍلَّایُؤْمِنُوْابِهَاۚ-وَاِنْیَّرَوْاسَبِیْلَالرُّشْدِلَایَتَّخِذُوْهُسَبِیْلًاۚ-وَاِنْیَّرَوْاسَبِیْلَالْغَیِّیَتَّخِذُوْهُسَبِیْلًا-ذٰلِكَبِاَنَّهُمْكَذَّبُوْابِاٰیٰتِنَاوَكَانُوْاعَنْهَا
غٰفِلِیْنَ"(سورۃ الاعراف،146)اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓسے مروی ہے
کہ ایمان والے گناہ کو پہاڑ کی مثل گردانتے ہیں کہ وہ ان پر وزنی بوجھ
گرسکتاہے جب کہ فاسق و فاجر انسان گناہ کے ارتکاب کو اس قدر ہلکا لیتا ہے
کہ جیسے ناک سے مکھی کو ہٹانا۔
محرمات کا ارتکاب : غفلت کے اسیر لوگ محرمات کو اختیار کرنے میں شرمندگی و
ندامت کے احساس سے لاتعلق ہوجاتے ہیں کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے فرمایا ہے
کہ جو کوئی شخص گناہ کرتاہے تو اس کے دل پر سیاہ دھبہ ثبت ہوجاتاہے اور جس
قدر وہ زیادہ گناہوں کا مرتکب ہوتاہے تو اس کے دل پر اسی طرح داغ پڑتے جاتے
ہیں یہاں تک کہ اس کا دل مکمل طورپر سیاہ ہوجاتاہے پھر اس کو غلط و صحیح کے
مابین تمیز و فرق سے تہی دامن ہوبیٹھتاہے۔آپؐ کا فرمان بھی ہے
نفس پرستی کا ارتکاب:قرآن کریم میں نفس پرستی کی شدید الفاظ میں مذمت کی
گئی ہے کہ یہ مرض انسان کو اللہ کی یاد سے غافل و مستغنی کرنے کا موجب
بنتاہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَمَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا
ذُكِـرَ اسْمُ اللّـٰهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ
عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُـمْ اِلَيْهِ ۗ وَاِنَّ كَثِيْـرًا
لَّيُضِلُّوْنَ بِاَهْوَآئِـهِـمْ بِغَيْـرِ عِلْمٍ ۗ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ
اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِيْنَ"۔اور کیوں نہیں کھاتے وہ کچھ جس پر اللہ کا نام
لیا گیا ہواور بیان کردیا گیاہے کہ حرام کو تاہم حالت اضطرار میں اس کے
استعمال کی اجازت ہے اور لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جو بنا جانے اپنی
خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔بیشک اللہ حدسے گزرنے والوں کو خوب
جانتاہے۔(سورۃ الانعام119)
مال و اولاد اور دنیا سے محبت:غفلت کے اسیر لوگ مال و اولاد کی محبت اور
دنیا کے اس قدر اسیر ہوجاتے ہیں کہ وہ اللہ کی یاد سے بے پروہ ہوبیٹھتے
ہیں۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا
أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ
هُمُ الْخَاسِرُونَ( سورۃالمنافقون9)
بری مجالس میں شرکت: اسلام میں بری صحبت اختیار کرنے والوں کی مذمت کی گئی
ہے یہاں تک خود انسان اللہ کے حضور میں شکوہ بلب ہوگا کہ اے کاش کہ میں
شیاطین جن و انس کو اپنا دوست و رفیق نہ بناتا کہ انہوں نے مجھے گمراہی و
ضلالت میں دھکیل دیا ہے۔"یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا
خَلِیْلًا"(سورۃ الفرقان28)۔حدیث رسول ؐ میں برے دوست کو بھٹی سے تشبیہ دی
گئی ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھنے والا ضرور بالضرور سیاہی و گندگی سے داغدار
ہوجائے گا۔اسی طرح جو کوئی شخص غفلت کا عادی ہوجاتاہے تو شیطان اس پر سرعت
سے اس پر حاوی ہوجاتاہے۔ارشاد ربانی ہے""
فکر آخرت و یوم حساب سے غفلت: موت ایک اٹل حقیقت ہے جس کا سامنا ہر ایک
انسان کو کرنا ہے اور پھر موت کے بعد دنیا کی زندگی میں اختیار کیے گئے ہر
ایک عمل کی جوابدہی بھی لازم دینا ہوگی۔ہرذی روح نے موت کا ذئقہ چکھنا ہے
اور قیامت کے روز انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو کوئی شخص
جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہواوہ کامیاب ہوگیا دنیا کی زندگی صرف دھوکہ کا
سامان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:"كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِوَ
اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِفَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ
النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَوَ مَا الْحَیٰوةُ
الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ" (سورۃ آل عمران 185)
اسی طرح اللہ جل شانہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ
ان کو دنیا کی زندگی میسر آگئی تو بس وہ اس میں محو ہوگئے اور ان سے کچھ
استفسار نہیں کیا جائے گا جبکہ ہم نے تم سے پہلوؤں کو بھی آزمایا اور مت کو
بھی آزمائیں گے اور کھرے کھوٹے کو الگ کردیا جائے گا۔"اَحَسِبَ النَّاسُ
اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا
یُفْتَنُوْنَ"(سورۃ العنکبوت2)
غفلت سے نجات اور اس کا علاج
غفلت کے اسباب و علل کی معرفت کے بعد ضروری ہے کہ اس مہیب مرض قلب سے نجات
حاصل کرنے کے لئے انسان کو عملی کوشش کرنی چاہیے تاہم اس سلسلہ میں چند اہم
امور کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کو اختیار کرنے سے انسان غفلت اور اس کے
مشتقات کے مضمرات سے بچنے میں کامیاب ہوسکتاہے۔
اللہ کا ذکر: انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنا اوڑھنا بچھونا ذکر الٰہی کو
بنائے کہ اس کے سبب انسان اطمینان و راحت قلبی میسر آتی ہے ارشاد باری
عزوجل ہے۔"الا بذکر اللہ تطمئن القلوب"(سورۃ الرعد28)اور رسول اللہؐ نے
فرمایا ہے کہ جوذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ و مردہ جیسی ہے
یعنی ذکرکرنے والا انسان زندہ ہے اور نہ کرنے والا مردہ ہے۔(بخاری6407)اہل
ایمان کی صفت ہی یہ بیان کی گئی ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا
جاتاہے تو ان کے دل لرزجاتے ہیں۔" اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ
قُلُوْبُهُم "(سورۃ الانفال2)
تلاوت قرآن حکیم: غفلت جیسے مرض سے نجات حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ قرآن
کریم کی تلاوت کرنا بھی ہے اس میں کچھ شک و شبہ نہیں کہ قرآن کریم کو دیکھ
کر اور زبانی روانی سے پڑھنا اچھی بات ہے اور باعث اجرو ثواب ہے مگر پیغام
و کلام الٰہی کی حکمت و معرفت کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ترجمہ و تفسیر بھی
سیکھنی چاہیے ۔اللہ تعالیٰ کا اسرشاد ہے کہ جب ایمان والوں کے سامنے اللہ
کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتاہے۔"وَ اِذَا
تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا"(سورۃ الانفال2) اسی
طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے "اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ
كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ
الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ
قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ"یعنی اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ایسا کلام
جو ابتدا سے انتہاتک ہم معنی ہے اور اللہ سے خوف کھانے والوں کے رونگٹے
کھڑے ہوجاتے ہیں اور اللہ کی یاد سے ان کے دل نرم پڑجاتے ہیں۔(الزمر23)
دینی تعلیم کا حصول:اہل ایمان پر لازم ہے کہ علم دین کو حاصل کرنے کا
اہتمام کریں جب تک ان کے پاس علم و معرفت کا خزینہ نہیں ہوگا تو ممکن ہی
نہیں کہ وہ غفلت کے اضرارسے خود کو محفوظ رکھ سکے ۔اسلام کا اولین رشتہ و
تعلق اور گہرا ربط بھی تعلیم کے ساتھ وابستہ کردیا گیاکہ پہلی وحی میں علم
کی فضیلت بیان کی گئی اور پھر فرمایا گیا کہ شنا سا و ناآشنا دونوں برابر
نہیں ہوسکتے۔"قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ
لَا یَعْلَمُوْنَ"(سورۃ الزمر9)اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ لوگوں میں سے
چند افراد ایسے ہونے چاہییں جو دین کا فہم حاصل کرکے اپنی قوم کو اس سے
واقف کرائیں۔"وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا
كَآفَّةً-فَلَوْلَانَفَرَمِنْكُلِّفِرْقَةٍمِّنْهُمْطَآىٕفَةٌلِّیَتَفَقَّهُوْافِیالدِّیْنِوَلِیُنْذِرُوْا
قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ"(سورۃ
التوبہ122)
توبہ و استغفار:انسان خطا کا پتلا ہے اور لغزش و ٹھوکر کھانا اس کی کمزوری
ہے تاہم گناہ و جرم کے ارتکاب کے بعد اس پر پشیمانی کا احساس کرنے والا
ناامید و مایوس ہونے کی بجائے فوراً اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے تو اللہ
تعالیٰ اس کو معاف فرمادیتاہے۔توبہ و استغفار کو افضل دعا بھی قراردیا
گیاہے۔ارشاد خداوندی ہے "قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى
اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ
اللّٰهِ-اِنَّاللّٰهَیَغْفِرُالذُّنُوْبَجَمِیْعًا-اِنَّهٗهُوَالْغَفُوْرُالرَّحِیْمُ"جو
لوگ اپنی جان پر زیادتی کرچکے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے
نومید ہونے کی بجائے توبہ کریں اور بیشک اللہ تعالیٰ مغفرت فرمانے والا
مہربان ہے۔اور اللہ کے حبیبؐ نے فرمایا ہے کہ "التائب من الذنب کمن لاذنبہ
لہ"گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔(سنن
ابن ماجہ 4250)
الحاح و زاری پر مبنی دعا:انسان سے جب کبھی کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس پر
لازم ہے کہ وہ رجوع الی اللہ کرے اور جب کبھی انسان اللہ تعالیٰ سے اپنی
لغزش پر معافی مانگتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کے ناصرف گناہ معاف فرمادیتاہے
بلکہ ان گناہوں کو حسنات میں تبدیل فرمادیتاہے"اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ
وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ
حَسَنٰتٍ"۔خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کرنے کا حکم بھی اللہ نے دیا ہے یہاں تک
نبی رحمتؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب کبھی کوئی انسان اللہ جل شانہ سے سوال
نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتاہے۔"من لم یسئل للہ یغضب
علیہ"(سنن ترمذی2686)دعاکی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس کے صدقہ سے قضا بھی رفع
ہوجاتی ہے۔
باجماعت نماز:نماز ایک ایسی عبادت ہےجو انسان کے اسلام میں شمولیت کے ساتھ
سب سے پہلے لازم ہوجاتی ہے اور انسان کے مرنے کے بعد اولین حساب و کتاب کا
آغاز بھی نماز سے ہوگا ۔رسول اللہؐ نے نماز کو دین کا ستون اور مومن کی
معراج قرار دیا ہے۔قرآن کریم میں نماز کو وقت پر ادا کرنے کا حکم ودیعت کیا
گیاہے۔" اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا
مَّوْقُوْتًا"(سورۃ النساء 103) اور رسول اللہؐ نے فرمایا جس کسی نے نماز
پنجگانہ کا اہتمام کیا اور ان کی مواضبط اختیار کرلی تو اس کا نام غافل
لوگوں کی فہرست میں درج نہیں کیا جاتا۔(مسند احمد 22704)
صدقہ و خیرات: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے رزق وافر عطاکیا ہو تو اس پر لازم
ہے کہ وہ اس کی زکواۃ اداکرے اور قرآن و سنت میں نماز کے ساتھ ہی زکواۃ کی
ادائیگی کا حکم دیا گیاہے۔اس کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ کا حکم ہر مسلمان
کو دیا گیاہے کہ وہ حسب استطاعت و طاقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی
خاطر اپنا مال خرچ کرے۔نبی مکرم ؐ کا فرمان حضرت انس بن مالکؓ آپؐ کا فرمان
نقل کرتے ہیں کہ نیک اعمال نقصان سے بچاتے ہیں اور پوشیدہ صدقہ سے اللہ کی
ناراضگی ختم ہوتی ہے ،صلہ رحمی کی وجہ سے عمر میں اضافہ ہوتاہے۔(جامع
صغیر5023)اسی طرح آپؐ کا فرمان ہے کہ صدقہ بری موت سے بچاتا ہے اور مصیبت
کو ٹالتاہے۔(مستدر ک صحیحین6491)
دنیا سے بے رغبتی:دنیا کی زندگی کو عارضی و فانی بتایا گیاہے اور دنیا کو
دھوکہ سے تعبیر کیا گیاہے ۔جبکہ آخرت کی زندگی دائمی و ابدی ہے اور اس میں
وہی لوگ سرخرو ہونگے جو دنیا کی زندگی میں تکبر و سرکشی اور نافرمانی سے
اجتناب اختیار کرلیتے ہیں اور انہی پرہیز گاروں کی عاقبت سنور جاتی ہے۔"
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ
عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا-وَالْعَاقِبَةُلِلْمُتَّقِیْنَ
"(سورۃ القصص83)
موت اورفکر آخرت:فرائض ایمان میں سے اہم امر موت کا استحضار رکھنا ہے کہ
انسان پر ہر وقت اس بات کا دھیان و تصور غالب رہے کہ اس پر موت نے طاری
ہونا ہے اور اس سے کسی بھی طورپر فرار ممکن نہیں چاہے وہ جس قدر بلندی پر
چڑھ جائے۔"اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ
كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ "(سورۃ النساء78) اور رسول اللہؐ نے
فرمایا ہے کہ دانشمند انسان وہی ہے جو سب سے زیادہ موت کویاد رکھتا ہو اور
اس کے لئے تیاری کرتاہو۔(سنن ابن اجہ4259)
غفلت کے مرض سے نجات حاصل کرنا ہر فرد مسلم پر لازم ہے کہ اللہ جل شانہ نے
انسان پر اپنی نعمتوں اور عنایتوں اور مہربانیوں کی انگنت برسات کی ہوئی ہے
،اس عالم میں انسان کو رب کریم کا شکر گزار ہونا چاہیے اور اللہ جل شانہ کی
نشانیوں اور آیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کو اللہ سے خوف کھانا چاہیے
اور اللہ کے حضور یوم آخرت میں حساب و کتاب دینے کا احساس رکھتے ہوئے زندگی
کو بامقصد طورپر بسر کرنا چاہیے اور لہو و لعب اور فضولیات و عبث سرگرمیوں
سے اجتناب کرنا چاہیے اور انسان کی غفلت و لاپرواہی کے نقصان میں اللہ
تعالیٰ نے سورۃ الحشر اور سورۃ طٰہٰ میں کو انتہائی سخت الفاظ میں بیان کیا
ہے کہ غفلت کرنے والے و دین سے دوری اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنی
نظر رحمت و کرم سے محروم فرمائیں گے ۔الامان والحفیظ۔
|