للن کمار نے کلن اگروال سے پوچھا یار یہ تمہارے کیجریوال
کا کیا دھرم سنکٹ ہے؟
کلن بولا کیا بات کرتے ہو؟ ہمارا کیجریوال تو سنکٹ وموچک ہنومان کا بھگت ہے
۔ اس کے پاس سارے مسائل کا حل ہے۔ تم نے یہ سوال کیوں کیا؟
للن نے کہا بھیا میں تو پٹنہ کی ویڈیو دیکھ رہا تھا ۔ اس میں ہر کوئی بہت
خوش تھا مگر اروندکیجریوال کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔
وہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ ہمارا کیجریوال شیر ببر ہے ۔ وہ مودی جی کی طرح
کیمرے میں اکیلے نظر آنا چاہتا ہے ۔
چلو مان لیا لیکن دوسروں کی موجودگی میں مغموم ہونے کی کیا ضرورت ؟
کلن بولا وہ کیا ہے کہ جب اہمیت کم ہوتی ہے تواس کا موڈ آف ہوجاتا ہے۔
لیکن وہاں تو سب برابر تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ممتا بنرجی جیسی خود پسند رہنما
بھی بے حد خوش نظر آرہی تھیں ۔
بھائی للن، ممتا اس بات پر خوش تھیں کہ اتحاد کی باگ ڈور کانگریس کے بجائے
نتیش کمار کے پاس ہے ۔ ان کے لیے یہی کافی ہے۔
للن نے پوچھا تو اروند کیجریوال کو بھی اس پر سنتوش (اطمینان) کرلینا چاہیے
۔ اس کو بے چینی کیوں ہے؟
کیجریوال کو جب تک سب سے زیادہ اہمیت نہ ملے اس وقت تک ان کی آتما کو
شانتی نہیں ملتی۔
لیکن وہاں اکیلے کیجریوال کا نہیں بلکہ تو سبھی کے ساتھ یہی معاملہ تھا اور
یہی ممکن بھی تھا ۔
جی نہیں ۔ اس نشست میں نتیش کمار کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی ۔ وہی رونق
محفل تھےْ۔
بھائی میزبان کے ساتھ یہ ہوتا ہی ہے اور بی جے پی سے پنگا لینے کے بعد وہ
فروری سے محنت کررہے ہیں۔ اس لیے حقدار ہیں۔
چلو مان لیا لیکن نتیش کمار نے کانگریس کو سر پر بیٹھا لیا۔ ابتداء کھڑگے
سے تو اختتام راہل پر۔ اب تم ہی بتاو کہ یہ کیا بات ہوئی؟
ارے بھیا وہاں موجود سیاسی جماعتوں میں ایوان زیریں کے اندر سب سے بڑی
پارٹی کانگریس ہے جبکہ عآپ کا ایک بھی رکن نہیں ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہمارے کیجریوال کو لگتا ہے کہ مودی کو شکست دینے کی
صلاحیت اس کے سوا کسی میں نہیں ہے۔ وہ بہت آرزو مند انسان ہے۔
اچھا! تو یہ بولو کہ وہ بھی اپنے ہی عشق میں گرفتار چھوٹا مودی ہے ۔ اس لیے
راہل کی شادی میں ناراض پھوپھا بن کر منہ پھلا لیا۔
کلن بولا جی ہاں یہی سمجھ لو ۔ تمہیں یاد ہے اقتدار میں آنے کے بعد اس نے
کس طرح یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن جیسے لوگوں کو نکال باہر کیا تھا۔
جی ہاں ، مودی نے تو کم ازکم اپنے بزرگوں کوسماّن پوروک(احترام کے ساتھ)
’مارگ درشک‘ منڈل میں بھیجا لیکن کیجریوال نے دروازہ دکھا دیا۔
یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی ان کی جگہ جس منیش اور جین پر بھروسہ کیا وہ
دونوں دھُرندربدعنوانی کے الزام میں جیل کی ہوا کھارہے ہیں۔
للن بولا ہاں یار میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ’کٹرّ ایماندار‘ پارٹی
کا یہ حشر ہوگا ؟
کلن نے کہا بھیا یہ سسٹم کا جبر ہے۔ جمہوریت اور بدعنوانی کے درمیان چولی
دامن کا ساتھ ہے۔فی زمانہ رشوت کے بغیرکیا کوئی الیکشن کیسےجیت سکتا؟
للن بولا یار ہم لوگ پٹنہ سےپٹیالہ پہنچ گئے ۔ میں پوچھ رہا تھا کہ آخر
کیجریوال کو حزب اختلاف کے اتحاد کی خوشی کیوں نہیں ہے؟
بھائی ایک وجہ تو میں نے بتادی اب تم نہیں سمجھے تو میں کیا کروں ؟ دوسرا
سبب یہ ہے کہ وہ وہاں اتحاد کے لیے گیا ہی نہیں تھا؟
یار یہ تو نیا انکشاف ہے۔ وہ اگر اتحاد کے لیے نہیں تو کس لیے گیا تھا؟
بھیا وہ تو اپنے خلاف مرکزی سرکاری کے آرڈیننس کی مخالفت میں حمایت جٹانے
کے لیے گیا تھا اور اس پر کسی نے بات ہی نہیں کی۔
ابھی بات نہیں ہوئی تو آگے ہوجائے گی مسئلہ کیا ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ دہلی میں کانگریسی رہنما کیجریوال کی حمایت کے لیے تیارنہیں
ہیں۔ وہ اسے بی جے پی کی بی ٹیم بتاتے ہیں ۔
یار یہ تو سراسر بکواس ہے۔ ایسا ہوتا تو منیش سسودیا بھی برج بھوشن سنگھ کی
مانند گرفتار نہ ہوتا ۔ اس الزام میں کوئی دم نہیں ہے۔
جی ہاں للن تمہاری بات درست ہے مگر کانگریسیوں کے لیے بی جے پی سے بڑا خطرہ
عام آدمی پارٹی ہے ۔ کیا سمجھے ؟
للن نے سوال کیایہ بات تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ مودی کی زبردست مخالفت جس طرح
اروند کیجریوال کرتا ہے خود کانگریسی بھی نہیں کرپاتے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ دیکھو کہ دہلی اور پنجاب دونوں مقامات پر کیجریوال
نے بی جے پی سے نہیں بلکہ کانگریس سے اقتدار اور ووٹ بنک چھینا ہے ۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر کیجریوال نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ اگر کانگریس حمایت کرے
تو وہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں الیکشن نہیں لڑے گا۔
کلن بولا دیکھو میں بھی بنیا ہوں مگر کئی بار کیجریوال کو سمجھا چکا ہوں کہ
اس طرح کی سودے بازی سیاست میں نہیں چلتی لیکن اس کو سمجھ ہی نہیں آتی۔
للن نےکہا ہاں یار ویسے بھی اترپردیش اور کرناٹک میں کیجریوال کی دال نہیں
گلی اس لیے وہ ایم پی اور راجستھان میں کیاکرلے گا؟
یہی تو میں کہہ رہا ہوں ۔ کیجریوال کو جلد بازی نہیں کرنی چاہیے ۔ اس کا
پٹنہ کی پریس کانفرنس سے قبل نکل جانا غلط تھا ۔ اسے یہ نہیں کرنا چاہیے
تھا۔
للن نے کہا لیکن تم تواندر کے آدمی ہو ۔معلوم کرو۔ ہوسکتا ہے کوئی خانگی
مجبوری آن پڑی ہو۔
اگر ایسا ہوتا تو وہ بیان نہیں آتا کہ سرکاری حکمنامہ کی حمایت کا یقین
نہیں دلایا گیا توعآپ شملہ کی میٹنگ میں شریک نہیں ہوگی۔یہ تو ناراضی کا
اظہار ہے۔
اچھا وہ میں نے نہیں دیکھامگر یہ رنگ میں بھنگ ڈالنے والا بیان ہے۔
کلن نے کہا اور اس پر کیجریوال کو عمر عبداللہ نے جو آئینہ دکھایا اس کا
تو جواب نہیں ہے۔
للن بولا یار تم دور دور کی کوڑی لاتے ہو۔ ہمیں بھی بتاو کہ فاروق عبداللہ
کے بیٹے نے ایسا کیا کہہ دیا کہ کیجریوال کی بولتی بند ہوگئی؟
عمر عبداللہ نے یاد دلایا کہ جب دفع370کو ختم کرنے کے بعد کشمیر کوتقسیم
کرکے یونین ٹیریٹری بنادیا گیا تب کیجریوال نے حکومت کی حمایت کی تھی۔
جی ہاں دہلی میں تو چند اختیارات کی بات ہے جبکہ جموں کشمیر کا درجہ گھٹا
کر وزیر اعلیٰ کو نظر بند کرکےتمام اختیارات ایل جی کو دے دئیے گئے تھے۔
کلن بولا بھیا اس وقت اپنے ہندو ووٹرس کو خوش کرنے کے چکر میں کیجریوال
پاگل ہوگیا تھا ورنہ حکومت کی حمایت کرنے کی غلطی کبھی نہ کرتا۔
جی ہاں اس طرح تو کیجریوال نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی تھی اس نے
کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ جموں کشمیر جیسا حال دہلی کا بھی ہوسکتا ہے؟
اور یہی غلطی کیجریوال نے پھر کردی ۔ وہ نادانستہ پھر سے غیر حاضر رہنے
والے بی جے پی کے خاموش حامیوں کے صف میں کھڑا ہوگیا ۔
للن بولا یار کہیں ایسا تو نہیں کہ کیجریوال حزب اختلاف کی دیوار میں دراڑ
ڈال کر بی جے پی کو خوش کرنا چاہتا ہو تاکہ ابتلاء و آزمائش کا سلسلہ
تھمے؟
اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ کیجریوال نے وزیر اعظم مودی پر ذاتی حملے کرکرکے
انہیں اس قدر برگشتہ کردیا ہے کہ وہ اس کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
ہاں مگر کیجریوال نے آر ایس ایس کی کبھی بھی مخالفت نہیں کی اس لیے ممکن
ہے سنگھ دونوں کے درمیان مصالحت کرادے ؟
دیکھو للن آج کل سنگھ کی نہیں مودی کی چلتی ہے۔ وہ اگر سنگھ کے خلاف بولتا
تو معافی تلافی ہوجاتی لیکن مودی کی مخالفت کرنے والے کی خیر نہیں ہے۔
للن بولا یار تب تو تمہارا کیجریوال نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔
جی ہاں للن اپنی ذات کے لیے سیاست کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ خود
غرض لوگ جب پھنستے ہیں تو کوئی مدد کو نہیں آتا۔
اچھا خیر یہ بتاو کہ کانگریس اس مسئلہ پر کیجریوال کی حمایت کرے گی یا
اپوزیشن اتحاد کو کمزور کردے گی ۔
کلن بولا مجھے تو لگتا ہے کہ کیجریوال کو اس کی مجبوری کا احساس دلا دینے
کے بعد حمایت کردے گی کیونکہ بی جے پی کی ذلت میں کانگریس کی عزت ہے۔
یار للن تمہارے جواب میں یقین کا فقدان معلوم ہوتا ہے۔ اعتماد کے ساتھ بولو
کیا ہوگا ؟
بھیا یقین کے ساتھ تو کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا ۔ یہ بھی ممکن ہے کانگریس
پردہلی اور پنجاب کاعلاقائی سیاسی مفاد غالب ہوجائے اور غیر حاضر ہوجائے ؟
للن بولا یار اگر ایسا ہوا تو ہمارے نتیش کمار کی ساری محنت پر پانی پھر
جائے گا۔
جی ہاں ایسا نہیں ہوگا لیکن تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کانگریس سمیت
ساری سیاسی جماعتیں اول درجہ کی مفاد پرست اور ابن الوقت ہیں ۔
تب تو اپوزیشن کا اتحاد کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔
جی نہیں ،مفاد پرستی کے باوجود ماضی میں کئی مرتبہ یہ تجربہ کامیاب ہوچکا
ہے اس لیے آگے بھی ہوسکتا ہےْ۔
للن نے حیرت سے پوچھا تو کیا جمہوریت کی شریعت میں ابن الوقتی جائز ہے؟
کلن نے ہنس کر جواب دیا بھیا جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اس نظام میں موقع
پرستوں کو خوب نوازہ جاتا ہے ۔
اچھا تو کیا مخلص لوگوں کو ستایا جاتا ہے؟
جی ہاں یہی سمجھ لو ویسے بہت وقت ہوگیا ہےچلو میں چلتا ہوں۔
|