اصل مجرم کون؟

پچھلے ہفتے سمندر میں دو افسوسناک واقعے ہوئے۔ایک واقعے میں پاکستان کے ایک نامور صنعتی گھرانے کے دو افراد اپنی خوشی سے پندرہ کروڑ روپے خرچ کرکے دنیا کی ایک انوکھی سیر کو نکلے لیکن بد قسمتی سے موت نے انہیں نگل لیا۔کوئی پیسا، کوئی شہرت، کوئی اثر ان کے کام نہ آیااور موت کے بے رحم ہاتھ انہیں اٹھا کر لے گئے۔ یہ موت ا نجانے میں انہوں نے اپنی خوشی سے ایک بڑی رقم دے کر خریدی۔ یہ آسائش کا سفر تھا مگر افسوس کہ یہ سفر ان کاآخری سفر ثابت ہوا اور تمام تر سہولتوں کے باوجود موت کے سامنے وہ بے بس نظر آئے۔ وہ ایک محفوظ آبداز میں 1912 میں ڈوبنے والے جہاز ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے نکلے تھے مگروہ آبدوز ٹائی ٹینک کے قریب پہنچ کر خود حادثے کا شکار ہو گئی اور ڈوبنے والے ٹائی ٹینک کے پاس پہنچ کر سارے مسافر خود بھی ڈوب گئے اور کبھی نہ واپس آنے والے سفر پر روانہ ہو گئے۔یہ امیر لوگ ہیں جن کے پاس اتنا زیادہ سرمایہ ہوتا ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ خرچ کہاں کریں اور کیسے کریں۔ چنانچہ وہ بڑی عجیب عجیب سرمایہ کاری کرتے ہیں ، پیسے کو خرچ کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں،اچھوتی چیزوں پر خرچ کرتے ہیں جو بعض اوقات خطرناک بھی ہوتی ہیں۔ دنیا میں ایسی بھی فرمیں ہیں جو چاند کی زمین بیس ڈالر فی ایکڑ کے حساب سے بیچ رہی ہیں ، مزید بیس ڈالر ٹیکس بھی فی ایکڑ وصول کر رہی ہیں۔چاند پر بہت سے امیر لوگوں نے ہزاروں ایکڑ کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی اپنی زندگی میں یہ ممکن نہیں لیکن وہ اسی میں خوش ہیں کہ کہیں نہ کہیں حوالے کے لئے ا ن کی بہت سی جائداد میں چاند کی نایاب زمین بھی شامل ہے۔

دوسرواقعہ ا دنیا بھر سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے750 سے زائد اشخاص کی ایک کشتی یونان سے کچھ فاصلے پر ڈوب گئی۔اس کشتی میں پاکستان سے جانے والے تقریباً ساڑھے تین سو افراد بھی سوار تھے۔ جن میں سے بمشکل دس پندرہ افراد کو بچایا جا سکا۔اس سفر پر جانے والوں کو جانے کی کوئی خوشی نہ تھی، یہ ان کی معاشی مجبوریاں تھی جو انہیں جان پر کھیل کر بھی یورپ میں کہیں جانے پر اکسا رہی تھیں۔ اس خطرناک سفر پر ان کو ان کی مجبوریاں لے کر جا رہی تھیں۔انہیں آس تھی کہ اگر وہ وہاں پہنچ گئے تو یقیناً ان کی بہنیں جہیز کی وجہ سے گھر بیٹھی نہیں رہیں گی۔ انہیں یقین تھا کہ ان کے وہاں پہنچنے کے بعد ان کا کوئی چھوٹا بھائی پیسے کی کمی کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو آخری عمر میں مشقت سے بچا لیں گے اور ان کا بڑھاپا اچھا کٹ جائے گا۔سفر بھی عجیب تھا، کوئی ویزہ نہیں ، جہاں جانا ہے غیر قانونی جانا ہے۔راستے انتہائی پر خطر ۔ ہر بارڈر پر پولیس کی گولیاں ان کی منتظر ہیں جن سے بچنا بھی ہے۔ اس خوفناک اور پر خطر سفر کے لئے انہوں نے اور ان کے گھر والوں نے سہانے سپنے کی آس میں جانے گھر کا کیا کچھ بیچا تھا اور گھر کے افراد کی کس کس امید کا وہ محور تھے۔ انہیں ہر حال میں یورپ کے کسی ملک پہنچنا تھا تاکہ یورو میں کچھ کمائیں۔ انہیں خودکو بھوکا رہ کر بھی زیادہ سے زیادہ یورو بچا نے اور پیچھے گھر والوں کو بیجنے تھے کہ یورو جب پاکستانی کرنسی میں تبدیل ہوتے ہیں تو خوشحالی تیزی سے پاکستانی گھروں میں داخل ہوتی ہے۔مگر کشتی ڈوبنے سے وہ افراد ہی نہیں ڈوبے، ان کے گھر والوں کی ساری امیدیں، سارے خواب، سارے سپنے اور جانے کیا کیا ڈوب گیا۔ان میں کئی خاندان ایسے ہیں جو اگلی ایک دہائی تک اپنے آپ کو اس حادثے کے نتیجے میں ہونے والی تلخیوں کے عذاب اور برے معاشی حالات سے خود کو نکال نہیں سکتے۔ ان کے پاس جو کچھ تھا صرف وہی نہیں لٹا، بہت سا ادھار بھی اب انہیں چین نہیں لینے دے گا۔وہ ادھار جو انہوں نے ذہن میں سپنے سجائے جلدی واپسی کی امید پر عزیزوں اور دوستوں سے لے کر انسانی سمگلروں کے حوالے کیا تھا۔

حکومت انسانی سمگلروں کو گرفتار کر رہی ہے کہ ان کا جرم لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے دیار غیر میں بھجوانا ہے۔کاروبار کا اصول ہے کہ یہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ماکیٹ میں جس چیز کی طلب ہوتی ہے ہر شخص اس کو کرنا اور زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنا چاہتا ہے۔یہ ایک فطری جذبہ ہے۔انسانی سمگلنگ کے کاروبار میں یہ لوگ تو مہرے ہیں۔ اصل مافیا تو کہیں اور ہے جس کو تلاش کرنا ہمارے اداروں کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے انسانی سمگلر کسی سے بیس لاکھ میں سودا کرتے ہیں۔ تین چار لاکھ اپنے حصے کا رکھ کر ان نوجوانوں کو مقررہ سرحد تک پہنچا دیتے ہیں۔ ان کا کام یہاں ختم ہو جاتا ہے۔ سرحد والے پندرہ سولہ لاکھ میں ان بچوں کو خریدتے ہیں اور وہ انہیں یورپ سے قریب کسی ملک پہنچا دیتے ہیں۔یہاں یہ نوجوان کسی تیسرے گروہ کے ہاتھ دس دس لاکھ یا ایسی ہی کسی قیمت میں بک جاتے ہیں۔ وہ گروہ انہیں ایسی ہی کسی کشتی پر سوار کرکے یورپ کے کسی ساحل تک اتار دیتا ہے اور انہیں کہا جاتا کہ فلاں شہر قریب ہے وہاں چلے جاؤ۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہاں کسی مسجد یا کسی مرکز میں آپ کو پاکستانی کمیونٹی کے لوگ مل جائیں گے جو آپ کی مدد کریں گیاور بس آپ سیٹ ہو جائیں گے۔

ایک دوسرا راستہ روسی ریاستوں کا بھی ہے ۔ وہاں یورپ کی سرحد تک وہ لوگ اسی طرح دھکے کھاتے پہنچتے ہیں۔ وہاں انہیں کسی برفانی پہاڑ کے کنارے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اب یورپ فقط سات آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ ہمت سے یہ برفانی راستہ گزر جاؤ، تمہاری منزل سامنے ہو گی۔اس سات آٹھ میل کے جان لیوا سفر میں جو زندہ بچ جاتا ہے وہ یورپ پہنچ جاتا ہے لیکن بہت سے لوگ اس سردی اور شدید برف میں اپنی جان سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔یہ روز کا سلسلہ ہے جو رک نہیں سکتا جب تک ہم اصل ملزموں تک نہیں پہنچ پاتے۔لیکن اصل ملزم کون ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اصل ملزم ہماری سیاسی اشرافیہ ہے جسے اپنے سوا کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں۔اس ملک کو معاشی طور پر اس حد تک بگاڑ دیا گیا ہے کہ غریب روٹی کی جستجو میں اور امیر بہتر حالات کی جستجو میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ امیر کے پاس پیسے ہیں وہ باعزت انداز میں یہ ملک چھوڑ رہا ہے۔ غریب کے پاس پیسے نہیں ہیں وہ پیسے کے حصول کے لئے ایسے ذلت آمیز راستے اختیار کر رہا ہے۔ موجودہ سیاسی قیادت جو عملاً مہروں پر مشتمل ہے ، جسے کوئی معاشی شعور بھی نہیں اور جس کا وصف اپنے ذاتی اقتدار کو طول دینے کے علاوہ کچھ نہیں، اصل میں اس زبوں حالی کی اصل ذمہ دار ہے یا وہ لوگ جو ایسے سیاسی عناصر کی سرپرستی کرتے ہیں۔ جب تک اس ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں ہو گی۔ عوام کے حقیقی نمائندے نہیں آئیں گے۔ عوام کو اپنے ووٹ کے استعمال کا حق نہیں ملے گا۔ موجودہ ملزم سیاسی قیادت سے نجات نہیں ملے گی، ایسے سانحے ہوتے رہیں گے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444110 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More