کتاب تاریخ کربلا کے صفحہ ایک سوچھتیس پرلکھا ہے کہ
خلیفہ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے مناقب میں بھی قرآن کریم کی
بہت سی آیات کریمہ کانزول ہواہے ان میں چندقارئین کرام کی خدمت میں پیش کی
جارہی ہیں۔قرآن پاک میں سورۃ البقرہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(مفہوم) ’’وہ جواپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھردیئے پیچھے نہ
احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا(اجروثواب )ان کے رب کے پاس ہے اورانہیں نہ
کچھ اندیشہ ہونہ کچھ غم‘‘
حضرت صدرالافاضل علامہ مولانا سیدنعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ
تفسیرخزائن العرفان کے صفحہ 66 پرتحریر فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ حضرت
عثمان غنی اورحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہما کے حق میں نازل ہوئی۔
صاحب مشکوٰۃ لکھتے ہیں کہ غزوہ تبوک جیسے غزوہ عسرت بھی کہتے ہیں یہ غزوہ
مسلمانوں کی سخت تنگی ،ناداری اوربے سامانی کے عالم میں ہوا گرمی سخت تھی
اورتبوک مدینہ منورہ سے چھ سومیل کی دوری پرواقع تھا ۔اوریہ غزوہ حضورصلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاآخری غزوہ تھا جو9 ھجری ہوا۔ اس کے بعد حضورنے کسی
غزوہ میں شرکت نہیں فرمائی۔ اس غزوہ میں چالیس ہزاراورسترہزارکے درمیان
صحابہ کرام تھے۔ حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کوجہادکے لیے چندہ
دینے کاحکم دیا۔
ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن خباب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ
فرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضرتھا جب
آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) شرکاء جنگ کوتبوک کی مددکے لیے لوگوں کوجوش
دلارہے تھے ۔حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کے پرجوش
الفاظ سن کرکھڑے ہوگئے اورعرض کیایارسول اﷲ !میں سواونٹ ان کے کمبل
اورپالان کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی راہ میں پیش کرتاہوں۔پھررسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اورترغیب دلائی توآپ رضی اﷲ عنہ نے منبرپرکھڑے
ہوکرعرض کیایارسول اﷲ !میرے ذمہ دوسواونٹ مع سازوسامان کے ہیں میں اسے آپ
کی بارگاہ میں پیش کردوں گا۔حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پھرترغیب دلائی
توحضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے عرض کیا یارسول اﷲ میرے ذمہ تین
سواونٹ مع سازوسامان کے ہیں میں پیش کروں گا۔حدیث کے راوی حضرت عبدالرحمن
بن خباب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ
والسلام منبرسے اترتے جاتے تھے اورفرماتے جاتے تھے۔ (مفہوم) اس کے بعدعثمان
پرکوئی گناہ نہیں وہ جوبھی کریں اس کے بعدعثمان کوکوئی گناہ نہیں وہ جوبھی
کریں۔ مطلب اس کایہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ اس کے بعددیگرکوئی ایک
کام نہ بھی کریں توان کے مدارج عالیہ میں کچھ رکاوٹ نہ آئے گی۔
حضرت امام رازی تفسیرکبیرمصری میں اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ
آیت حضرت عثمان وحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہماکی شان میں نازل ہوئی
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے غزوہ تبوک کے لیے ایک ہزاراونٹ مع سازوسامان
ایک ہزاردیناراﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیاتوآپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنادست شفقت درازفرمایا اوربارگاہ الٰہی میں یوں
دعافرمائی
اے اﷲ یہ عثمان ہے ،میں اس سے راضی ہوا توبھی اس سے راضی ہوجا۔
اﷲ تعالیٰ اپنے مقدس کلام پاک میں ارشادفرماتاہے
یعنی عنقریب نصیحت مانے گاجوڈرتاہے اوراس سے وہ بڑابدبخت دوررہے گا اورسب
سے بڑی آگ میں جائے گا
صاحب تفسیرکبیرنے لکھا ہے کہ ’’یعنی یہ آیت کریمہ حضرت عثمان بن عفان رضی
اﷲ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
ارشاد خداوندی ہے
یعنی کیاوہ جسے فرمانبرداری میں رات کی گھڑیاں گزریں سجودمیں اورقیام میں
آخرت میں ڈرتا اوراپنے رب کی رحمت کی آس لگائے
صاحب تفسیر کبیراس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں ’’یعنی اس آیت سے حضرت عثمان
غنی رضی اﷲ عنہ مرادہیں اس لیے کہ آپ پوری رات ایک ہی رکعت میں گزاردیاکرتے
تھے اورپوراقرآن حکیم ایک ہی رکعت میں ختم فرماتے تھے۔ ‘‘حضرت ابن عمررضی
اﷲ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت کریمہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں
نازل ہوئی ۔صاحب تفسیرحسینی بھی لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ
عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔
کتاب خطبات محرم کے صفحہ ایک سوچوالیس پرلکھا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ جیش عسرہ کی تیاری کے
زمانہ میں ایک ہزاردیناراپنے کرتے کی آستین میں بھرکرلائے ۔ان دیناروں آپ
رضی اﷲ عنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی گودمیں ڈال دیا۔راوی حدیث
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان دیناروں کواپنی گودمیں الٹ پلٹ کردیکھتے جاتے تھے
اورفرماتے جاتے تھے یعنی آج کے بعدعثمان کوان کاکوئی عمل نقصان نہیں
پہنچائے گا۔ سرکاراقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں اس جملہ
کودوبارفرمایا ۔مطلب یہ ہے کہ فرض کرلیاجائے کہ اگرحضرت عثمان غنی رضی اﷲ
عنہ سے کوئی خطاواقع ہوتوآج کاان کایہ عمل ان کی خطاکے لیے کفارہ بن جائے
گا۔
تفسیرخازن اورتفسیرمعالم التنزیل میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے جیش
عسرہ کی اس طرح مددفرمائی کہ ایک ہزاراونٹ سازوسامان کے ساتھ پیش فرمایا
اورایک ہزاردیناربھی چندہ دیا۔ اورحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ نے
صدقہ کے چارہزاردرہم بارگاہ رسالت پیش کیے توان دونوں حضرات کے بارے میں یہ
آیت کریمہ نازل ہوئی۔
یعنی جولوگ کہ اپنے مال کواﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھردینے کے بعد نہ
احسان رکھتے ہیں اورنہ تکلیف دیتے ہیں توان کااجروثواب ان کے رب کے پاس ہے
اورنہ ان پرکوئی خوف طاری ہوگا اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔(پ۳ع۴)
حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روزنبی کریم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم،حضرت ابوبکرصدیق ،حضرت عمرفاروق ،حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہم
احدپہاڑپرتھے کہ یکایک وہ ہلنے لگا تونبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا اے احد!توٹھہرجاکہ تیرے اوپرصرف ایک نبی یاصدیق یادوشہیدہیں۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ حضورسیدعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پہاڑوں
پربھی اپناحکم نافذفرماتے تھے اوریہ بھی ثابت ہواکہ خدائے تعالیٰ نے آپ
کوعلم غیب عطافرمایاتھا کہ برسوں پہلے حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ اورحضرت
عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے شہیدہونے کے بارے میں حضورخبردے رہے ہیں۔ اورحضرت
عثمان غنی رضی اﷲ عنہ خوب جانتے تھے کہ ندی کابہتاہوادھارارک سکتاہے درخت
اپنی جگہ سے ہٹ سکتاہے بلکہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل سکتاہے مگراﷲ کے محبوب
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کافرمان نہیں ٹل سکتا۔اس لیے کہ آپ اپنی
شہادت کاانتظارفرمارہے تھے تویہ اوران کے علاوہ دوسرے لوگ جواپنی شہادت کے
منتظرتھے جیسے کہ دولہا،دولہن اپنی شادی کی تاریخ کے منتظرہوتے ہیں توان کے
حق میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی
’’یعنی توان میں سے کوئی وہ ہے جواپنی منت پوری کرچکا (جیسے حضرت حمزہ
ومصعب رضی اﷲ عنہم کہ یہ لوگ جہادپرثابت قدم رہے یہاں تک کہ جنگ احدمیں
شہیدہوگئے ) اوران میں سے کوئی وہ ہے جو(اپنی شہادت کا)انتظارکررہاہے۔
(جیسے حضرت عثمان ،حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہم )
حضرت علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اﷲ علیہ تحریرفرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں
ایک منافق رہتاتھا اس کادرخت ایک انصاری پڑوسی کے مکان پرجھکاہواتھا جس
کاپھل ان کے مکان میں گرتاتھا ۔انصاری نے سرکاراقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
سے ان کاذکرکیا۔ اس وقت تک منافق کانفاق لوگوں پرظاہرنہیں
ہواتھا۔حضورانورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایادرخت انصاری کے ہاتھ
بیچ ڈالو۔اس کے بدلے تمہیں جنت کادرخت ملے گا۔ مگرمنافق نے انصاری کودرخت
دینے سے انکارکردیا جب اس واقعہ کی خبرحضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کوہوئی کہ
منافق نے حضورانورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کومنظورنہیں کیاتوآپ نے
پوراایک باغ دے کردرخت کواس سے خریدلیا اورانصاری کودے دیا۔اس پرحضرت عثمان
غنی رضی اﷲ عنہ کی تعریف اورمنافق کی برائی میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی
’’یعنی عنقریب نصیحت مانے گاجوڈرتاہے اوراس سے وہ بڑابدبخت دوررہے گاجوسب
سے بڑی آگ میں جائے گا‘‘(پ۳۰ع۱۲)
کتاب تاریخ کربلاکے صفحہ ایک سو۳۵ پرہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کاسب
سے اہم دینی وعلمی کارنامہ یہ ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہ نے قراتوں کے اختلاف
کوختم کرنے کی غرض سے عہدصدیقی وعہدفاروقی میں مدون قرآن مجیدکوام المومنین
حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہاسے حاصل کیا اورزیدبن ثابت ،عبداﷲ بن زبیررضی اﷲ عنہم
وغیرہ سے نقول بناکراسلامی ممالک میں روانہ فرمائے اورحکم دیا کہ آئندہ اسی
کے مطابق قرآن لکھے اورپڑھے جائیں۔
۱۸ ذی الحج خلیفہ ثالث امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کایوم شہادت
ہے۔ ۱۸ ذی الحج ۱۴۴۴ھ ۷ جولائی ۲۰۲۳ء بروزجمعہ مبارک حضرت عثمان غنی رضی اﷲ
عنہ کایوم شہادت منایاجارہاہے۔ اسی روزوزیراعظم شہبازشریف نے سویڈن میں
قرآن پاک کی توہین کے مذموم اوراشتعال انگیزواقعہ کے خلاف یوم تقدیس قرآن
منانے کااعلان کیاہے۔ اسی سلسلہ میں وزیراعظم شہبازشریف نے ۶ جولائی جمعرات
کوپارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس بھی بلایاہے۔ سویڈن میں قرآن پاک کی توہین کی
جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس طرح کے
شرانگیزواقعات کے تدارک اوراسلاموفوبیاکے خلاف جوبھی لائحہ عمل بنایاجائے
گا وہ اجلاس کے بعدمعلوم ہوجائے گا ۔قرآن پاک کی توہین کاہردورمیں خاص
طورپرموجودہ دورمیں موثرجواب یہ ہے کہ ہم مسلمان قرآن پاک کی تعلیمات پرعمل
کریں۔ جن کاموں سے اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں منع کیاہے ان کاموں سے رک
جائیں ایسے کاموں کوہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں اورجن کاموں کے کرنے کاحکم دیاہے
ان پرعمل کریں۔ یوم تقدیس قرآن کے موقع پرپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ
قوانین بناکرسویڈن میں قرآن کریم کی توہین کرنے والوں کے عزائم ناکام
بنادیے جائیں۔ کونسلر صوبائی اورقومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے
امیدواروں اورملک بھرمیں تمام محکموں اوراداروں میں نائب قاصد سے آفیسران
تک سرکاری آسامیوں پرتعیناتی کے لیے قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم لازمی قراردی
جائے۔ کاغذات نامزدگی کی منظوری کے وقت امیدواروں کامتعلقہ حلقہ میں قرآن
پاک کے مستندقاری اورحفاظ کرام امیدواروں سے قرآن پاک سنیں جوقرآن پاک کی
درست تلاوت کرسکے اسے ہی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اورسرکاری آسامیوں پربھی اسے ہی تعینات کیاجائے جوقرآن پاک کی درست تلاوت
کرسکتاہو۔ تمام سرکاری اورپرائیویٹ دفاترمیں صبح کے وقت سب سے پہلے قرآن
پاک کی تلاوت کی جائے اورنعت شریف پڑھی جائے۔پاکستان کے تمام ٹی وی
چینلزپرصبح کے وقت ایک گھنٹہ قرآن پاک کی تفسیرکاپروگرام نشرکیاجائے۔ جن
میں مفتی منیب الرحمن، علامہ رضاثاقب مصطفائی،علامہ خادم حسین خورشید،علامہ
حامدسعید کاظمی، مفتی سہیل رضاامجدی، مفتی محمداکمل کوخاص
طورپرمدعوکیاجائے۔
|