جب کسی قوم میں نمرود بڑھ جاتے
ہیں تو رب العالمین اپنی قدرت کے اظہار کے لیے مَچّھروں کو حرکت میں لاتا
ہے۔ نمرود نے بھی خدائی کا دعویٰ کیا تو رب العالمین نے محض مَچّھر کے
ذریعے اُس کا دِماغ درست کیا اور جوتے کِھلوائے۔ نمرودوں کی یہی اوقات ہوا
کرتی ہے!
ہم میں بھی کئی نمرود ہیں جن کے دِماغ درست کرنے کے لیے مَچّھروں کا عذاب
ناگزیر تھا۔ اب ایسے میں مَچّھر آ ہی گئے ہیں تو حکمِ ربی سمجھ کر اُن کا
خیر مقدم کیا جانا چاہیے مگر ذہن میں یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ مَچّھر غلط
سَروں میں کیوں گھس رہے ہیں؟
پاکستانی عوام کے ذہنوں میں اُبھرنے والے بعض سوالات پر غور کرنے اور لائحہ
عمل تبدیل کرنے کے لیے مَچّھروں نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ غیر ضروری
نکات پر بحث سے بچنے کے لیے انسانی خُون کی لذّت کی قسم کھاکر عہد کیا گیا
کہ کوئی بھی مَچّھر اِنسانوں کی طرح بے قابو ہو کر بے لگام گفتگو نہیں کرے
گا! مَچّھر چونکہ اِنسانوں کی تقلید نہ کرنے کی قسم کھاکر ہنگامی اجلاس میں
شریک ہوئے تھے اِس لیے بزرگوں کو پہلے بولنے کا موقع دیا گیا! ایک بزرگ
مَچّھر نے جیسے تیسے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر بات شروع کی۔ ”ہم ہزاروں سال
سے اِنسانوں کا خُون صرف چُوستے ہیں۔ اِنسان ایک دوسرے کا خُون پیتے کم اور
بہاتے یعنی ضائع زیادہ کرتے ہیں مگر بدنامی صرف ہمارے کھاتے میں ڈال دی گئی
ہے! اِس حوالے سے اِنسانوں سے بات کی جانی چاہیے۔“
بزرگ مَچّھر کی بات سن کر اِجلاس کے شرکاءمیں مانوس سی بھنبھناہٹ پیدا
ہوئی۔ جب بھنبھناہٹ بڑھنے لگی تو ماڈریٹر نے یاد دِلایا کہ یہ کوئی
اِنسانوں کا جلسہ نہیں کہ سب اپنی اپنی ہانکنے لگیں!
ایک ادھیڑ عمر مَچّھر نے کچھ بولنے کی اجازت چاہی تو سب نے اُسے ”گڈ مینرز“
پر مبارک باد دی۔ ایک بزرگ مَچّھر نے اپنی نشست سے اٹھ کر فضا کا چکر لگایا
اور قدرے تفاخر کے ساتھ کہا۔ ”ہم نے اِنسانوں کا خُون ہی نہیں چُوسا، اُن
سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ اپنی بات کہنے کے لیے
شرکائے اجلاس سے اجازت طلب کی جارہی ہے۔ بات کہنے کا یہ احسن طریقہ بھی ہم
نے انسانوں سے سیکھا ہے۔ وہ اِس طرح کہ اِنسان کچھ کہنے کے لیے اِجازت طلب
کرنے کے قائل نہیں اور ہم تو خُون چُوسنے کے لیے منزل پر پہنچ کر اعلان
کرنا بھی نہیں بُھولتے۔ اطلاع کے بغیر حملہ کرنا، شب خون مارنا انسانی
روایت ہوسکتی ہے، مَچّھری طریقہ ہرگز نہیں۔“
سب نے واہ واہ کی تو محفل میں مزید جان آگئی۔ اب ادھیڑ عمر مَچّھر نے ماضی
الضمیر بیان کرنا شروع کیا۔ ”اِنسانوں کا بُنیادی شِکوہ یہ ہے کہ جن کا
خُون پہلے ہی نِچوڑا جاچکا ہے اُنہیں مزید نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نمرود کے
سَر میں گھس کر خُدائی کا بُھوت اُتارنے والا بھی ایک مَچّھر ہی تھا مگر
خیر اُسے اپنا منصب تو معلوم تھا۔ ہم اُنہیں بھی نشانہ بنانے کے لیے ہر
گھڑی تیار رہتے ہیں جو خُدائی کا دعویٰ تو خیر کیا کریں گے، ڈھنگ سے بندگی
کا حق بھی ادا نہیں کر پاتے! جو لوگ پہلے ہی لُٹے پٹے بیٹھے ہیں اُنہیں
مزید لوٹنے کی کوشش کرنا اور جینے کے حق ہی سے محروم کرنا اِنسانوں کا شیوہ
ہوسکتا ہے، ہم مَچّھروں کا نہیں۔ خون چُوسنے کے معاملے میں اِنسانی خصلت
اپنانے سے گریز کیا جائے!“
سب نے ادھیڑ عمر مَچّھر کے نکتے کو سراہا۔ بھنبھناہٹ کی شکل میں داد و
تحسین کا شور اُٹھا۔ ماڈریٹر مَچّھر نے ایجنڈے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے
کہا کہ اِنسانوں سے بڑھتے ہوئے رابطوں کے باعث مَچّھروں میں بہت سی عِلّتیں
در آئی ہیں اور اِن عِلّتوں کے ہاتھوں مَچّھروں کی پوری نسل تباہی کی طرف
جا رہی ہے۔ بہت سے مَچّھر اب پیٹ بھرے کی مستی میں مست ہوکر کسی ضرورت یعنی
بھوک کے بغیر بھی، محض دل پشوری کے لیے، اِنسانوں کا خُون چُوستے پھر رہے
ہیں! یہ سراسر ناشکرے پن پر مبنی وصف ہے جو اِنسانوں سے منتقل ہوا ہے۔“
داد طلب نظروں سے اِجلاس کے شرکاءکی طرف دیکھتے ہوئے ماڈریٹر مَچّھر نے بات
جاری رکھی۔ ”ہمارا واسطہ اِنسانوں سے ہے کہ اُنہی کا خُون چُوسنا ہے مگر
اِس معاملے میں ہمیں جنگل کے اُصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے یعنی بھوک نہ
لگی ہو تو خواہ مخواہ مُنہ مارتے رہنے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔ اِنسانوں کو
زیادہ کاٹتے رہنے سے بعض مَچّھروں میں اپنے ہی ہم نسلوں یعنی مَچّھروں کو
کاٹنے اور اُن کا خُون چُوسنے کی خصلت در آئی ہے۔“
پھر مبارک سلامت کا شور اٹھا۔ بات دانش مندی کی ہو اور داد نہ دی جائے، یہ
وطیرہ مَچّھروں کا تو نہیں ہو سکتا! ایک بزرگ مَچّھر نے ڈانٹ ڈپٹ کو جَدّی
پُشتی حق کی طرح استعمال کرتے ہوئے اِجلاس کے شرکاءکو ڈانٹا۔ ”یہ کیا بات
بات پر واہ واہ کئے جارہے ہو؟ اِنسانوں کا یہی تو مسئلہ ہے۔ اُن کے سارے
اہم اجلاس بات بات پر مبارک سلامت کے شور میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ ضرورت اور
استحقاق سے زیادہ داد پاکر اِنسان سب کچھ بھول جاتے ہیں۔۔ اجلاس کا مقصد
بھی! اور پھر میڈیا پر آکر اجلاس کی تفصیلات بیان کرنے کے نام پر انٹ شنٹ
دعوے کرکے مَعاملہ بُھگتا دیا جاتا ہے!“
بزرگ مَچّھر کی بات اِس قدر وزنی تھی کہ خواہش کے باوجود کِسی میں داد دینے
کی جرات پیدا نہ ہوئی!
ایک جواں سال مَچّھر نے اجازت لے کر مدعا بیان کیا۔ ”ویسے تو انسان کی اپنی
پھیلائی ہوئی بیماریاں کم نہیں مگر آج کل ڈینگی کے حوالے سے ہمیں میڈیا میں
بہت بدنام کیا جا رہا ہے۔ حالات اور زندگی کے ستائے ہوئے لوگوں کا شِکوہ ہے
کہ مَچّھر بھی جانبدار ہوگئے ہیں اور تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ یعنی اُنہی
کا خُون چُوس رہے ہیں جو پہلے ہی زندگی کے بوجھ تلے ہیں۔ میں اجلاس کے
شرکاءکی خدمت میں درخواست گزار ہوں کہ ڈینگی پھیلانے والے مَچّھروں کو
ہدایات جاری کی جائیں کہ اِنسانوں کی طرح تعصب اور جانب داری کا مظاہرہ
کرنے کے بجائے اپنے شکار سے مساوی سلوک کریں یعنی تمام انسانوں کو کاٹیں،
کسی کو ’اِستثنیٰ‘ نہ دیں!“
جواں سال مَچّھر کی بات سے سبھی متفق دکھائی دیئے۔ ایک بزرگ مَچّھر نے
تجویز پیش کی کہ ڈینگی پھیلانے والے مَچّھروں کو حکم دیا جائے کہ انسانوں
کے حکمراں طبقے کے ارکان کو ترجیحی بنیاد پر کاٹیں تاکہ غریبوں کی اشک شوئی
ہو اور اُن کے دِلوں کو کچھ تو قرار آئے۔ میں خود بھی ترجیحاً حکمراں طبقے
کے لوگوں کو کاٹتا ہوں۔“
تجویز معقول تھی اِس لیے ”ہاں ہاں“ اور ”کیوں نہیں، کیوں نہیں“ کی صدائیں
بلند ہوئیں۔ بزرگ مَچّھر کی آنکھوں میں مسرت کی چمک دکھائی دی۔ اُنہوں نے
بڑے فخر سے اجلاس کے شرکاءپر نظر ڈالی اور تجویز کو سراہنے پر سب کا شکریہ
ادا کیا۔ ایک نوجوان مَچّھر نے کچھ کہنے کی اجازت چاہی۔ بزرگ مَچّھر نے
اِنسانی خصلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوجوان مَچّھر کی طرف خشمگیں نظروں سے
دیکھا اور اِس بات کو سبھی نے محسوس کیا۔ بزرگ مَچّھر کو بھی احساس ہو گیا
کہ اُن سے چُوک ہوئی ہے! ماڈریٹر نے جب نوجوان مَچّھر کو اپنی بات کہنے کی
اجازت دی تو اُس نے کہا۔ ”اجلاس کے شرکاءاس بات کو محسوس کرچکے ہیں جو میں
نے ابھی بیان ہی نہیں کی!“
سب نے حیران ہو کر نوجوان مَچّھر کی طرف دیکھا۔ ایسا کیا تھا جو بیان کرنے
سے قبل ہی محسو س بھی کرلیا گیا؟ ماڈریٹر نے کہا۔ ”نوجوان! اب اِنسانوں کی
طرح گھما پھرا کر بات نہ کرو، جو کچھ تمہارے ذہن میں چل رہا ہے صاف صاف
بیان کرو۔“
نوجوان مَچّھر نے دست بستہ عرض کی۔ ”معزز شرکائے اجلاس! عرض ہے کہ انسانوں
میں ہزاروں بُرائیاں، خامیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ صدیوں، بلکہ
ہزاروں سال سے اِنسانوں کا خُون چُوستے رہنے سے وہ تمام بُرائیاں، خامیاں
اور کمزوریاں ہم میں بھی در آئی ہیں مگر پھر بھی ہم زندہ و پائندہ قوم ہیں!
یہ دعویٰ البتہ نہیں کیا جاسکتا کہ ہم بحیثیت قوم زندہ رہ پائیں گے۔“
”کیوں؟ ایسا کیا ہوگیا ہے؟“ ایک بزرگ مَچّھر نے بے تابی سے پوچھا۔ اُن کا
یہ بے تابانہ سوال تمام شرکائے اجلاس کے دِل کی آواز بن گیا۔
نوجوان مَچّھر نے پورے احترام کے ساتھ بات کو آگے بڑھایا۔ ”عام اِنسانوں
میں جس قدر خامیاں پائی جاتی ہیں اُن کا درجہ کمال حکمراں طبقے کے اِنسانوں
میں ملتا ہے۔ حکمراں طبقے کے کسی ایک انسان کو کاٹنے کا مطلب اپنی پوری نسل
کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اگر ہم اِن ”اعلیٰ“ اِنسانوں کو کاٹتے رہے تو ادنیٰ
ہوتے جائیں گے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہم آپس میں دست و گریبان
ہوں گے، ایک دوسرے کی گردنوں میں دانت گاڑنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کریں
گے۔“
اِجلاس کے تمام شرکاءتفکرات میں ڈوب گئے۔ نکتہ جاندار تھا۔ خاصی بحث کے بعد
طے پایا گیا کہ کوئی بھی مَچّھر حکمرانوں اور ایلیٹ کلاس کے اِنسانوں کو
نہیں کاٹے گا۔ خُون صرف اُن کا چُوسا جائے گا جو اِسی کام کے لیے پیدا کئے
گئے ہیں.... یعنی مَچّھروں کا نزلہ بھی غریبوں ہی پر گرتا رہے گا! |