عالمی سماجی رہنماعبدالستار ایدھی گجرات کاٹھیاوار ،
جونا گڑھ کے ایک نواحی قصبے بانٹوا میں 1928ء کو عبدالشکور ایدھی کے گھر
پیدا ہوئے ۔آپ اپنی سوانح عمری میں اپنے خاندان اور بچپن کے واقعات کا
تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں-: میرے والد قناعت پسند انسان تھے۔انہوں نے اپنا
طرز زندگی نچلے طبقے کے لوگوں جیسا اپنارکھا تھا ،میری والدہ کا نام
"غربا"تھا ۔ہم دھوبی باڑہ میں رہتے تھے۔جو قدیم دھوبی آبادکاروں سے منسوب
تھا۔یہاں رہنے کے لیے ہمیں جو کمرہ دیا گیا اس کا ایک چھوٹا سا برآمدہ تھا
جسے لوھے کی جالی نے ڈھانپ رکھا تھا۔چھت کے بغیرغسل خانہ بھی ہمارے ہی گھر
کا حصہ تھا۔اس گھر میں میرے علاوہ ننھا بھائی عزیز اور بہن زبیدہ بھی رہتے
تھے۔رات آتی تو ہم فرش پر روئی کا گدہ بچھا کر قطاربنا کر سو جاتے ۔صبح
ہوتے ہی والدہ مجھے طاق پر رکھے ہوئے برتنوں کو نیچے اتارنے کے لیے الماری
پر چڑھا دیتیں ،پھر ہمارے لیے دال روٹی کا انتظام کرتیں ۔شام ڈھلے والدہ
استعمال شدہ برتنوں کو دھوکرمجھے دوبارہ الماری پر رکھنے کا حکم دیتیں۔اس
دوران میں نے بھانپ لیا تھا کہ والدہ ایک برتن کو کسی کام میں لائے بغیر
الماری پر رکھ دیتیں ،جس میں خرچ سے بچ رہنے والے پیسے ڈال دیئے جاتے ۔مجھے
جس مدرسے میں حصول تعلیم کے لیے داخل کرایا گیا ، وہاں میری شرارتوں اور
اوٹ پٹانگ حرکتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے مجھے ہر جماعت کا مانیٹر بنا دیا
جاتا ۔ہر صبح مدرسے جانے سے پہلے ہم منڈی تک فروٹ لیجانے والی بیل گاڑیوں
کا انتظار کرتے ،محض تفنن طبع کے لیے ہم خربوزے اور دوسرے موسمی پھل اڑا کر
رفوچکر ہوجاتے اور کہیں مل بیٹھ کر خوب دعوت اڑاتے ۔ہم کبھی درختوں پر چڑھ
کر لوگوں کو ڈرانے کے لیے جنگلی جانوروں کی خوفناک آوازیں نکالتے ۔دن کا
بیشتر وقت کھیتوں میں دوڑتے اور گرد آلود کچے راستوں پر اچھل کود کرتے گزر
جاتا۔والدہ مدرسے جاتے ہوئے مجھے اس ہدایت کے ساتھ دو پیسے دیتیں کہ ان میں
سے ایک پیسہ لازمی طور پر کسی حاجت مند کو دے دوں ۔وہ کہا کرتی تھیں کسی کو
کچھ دینے سے پہلے یقین کرلینا کہ تم سے خیرات لینے والا واقعی حقدار بھی ہے
کہ نہیں ۔ میں جونہی سکول سے واپس آتا تو ماں مجھ سے پوچھتیں ۔تم نے پیسوں
کا کیا کیا؟ میری اکھڑی اکھڑی وضاحت سنتے ہی وہ کہتیں ۔خود غرض لوگ اپنے
سوا کسی کو بھی کچھ دینا نہیں چاہتے ۔میں والدہ کے غصے سے بچنے کے لیے تیز
تیز کھانا کھاتا ۔مارا ماری میں برتن صاف کرتا اور جس عجلت کے ساتھ کام ختم
کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ۔والدہ بھی اسی شدت کے ساتھ کہتیں ۔دیکھو
بیٹا۔ غریبوں کی ہر ممکن مدد کیا کرو ۔اوپر والے کو راضی رکھنے کا یہی ایک
راستہ ہے ۔ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں قبیلے کی دوسری عورتوں کے ساتھ مل
کر والدہ کھانے پینے کی چیزوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ تیار کرلتیں ،جنہیں میں
بے کس و ناچار رشتہ داروں اورغریبوں کو ان کے گھروں کی شکستہ کھڑکیوں کے
ذریعے پہنچا آتا۔اس لمحے ماں ایک سرگوشی کے انداز میں میری رہنمائی کرتیں
کہ اصل خیرات اسے کہا جاتا ہے،جب دائیں ہاتھ کا پتہ بائیں کو نہ چلے ۔ماں
کی ہدایت پر میں اکثر بانٹوا کے گلی کوچوں میں کسی معذور یا اپاہج کی اعانت
کے لیے گھومتا رہتا۔میری مہربان اور نرم دل ماں ، ان خیراتی کاموں کی وجہ
سے اکثر بھول جاتیں کہ میں ایک مدرسے میں پڑھتا بھی ہوں اور میری پڑھائی کا
حرج ہورہا ہے لیکن وہ مطمئن تھیں کہ میں ان کی مرضی و منشا کے مطابق غریبوں
کے لیے دوڑ دھوپ میں کسی قسم کا جھول نہیں رہنے دیتا ۔والدہ نے زندگی کے
ابتدائی دنوں میں میرے لیے سماجی خدمت کے جن کاموں کا جوچناؤ کیا تھا، شاید
اسی نے میرے دل میں انسان دوستی کی بنیاد رکھ دی تھی ۔والد جب بھی اپنے کام
کاج سے فارغ ہوکر گھر لوٹتے تو آتے ہی میرے سر کے سارے بال صاف کردیتے۔میری
ہیئت دیکھ کر برادری کے لوگوں نے میرا نام روٹی رکھا دیا تھا یہ اس لیے کہ
میرا سر گول اور چپٹا تھا۔ایک مرتبہ والد جب گھر آئے تو میری تعلیم سے عدم
دلچسپی دیکھ کر پریشان ہوگئے اور فیصلہ کیا اب عبدالستار راجکوٹ کے بورڈنگ
سکول میں پڑھے گا۔یہ سنتے ہی ماں نے رونا دھونا شروع کردیا۔ان کی دلیل تھی
کہ ستار اگر گھر نہیں ہوگا تو اتنے سارے کام کون کریگا۔والد نے یہ دیکھ کر
اپنا ارادہ بدل لیا اور میری بھی جان میں جان آئی ۔جب تعلیم سے میرا دل بھر
گیا تو گیارہ سال کی عمر میں مجھے حاجی عبداﷲ کی کپڑے کی دکان پر پانچ روپے
ماہانہ پر نوکری مل گئی ۔میرا کام دوکان کو صاف ستھرا رکھنا اور دوکان پر
آنے والے گاہکوں کو کپڑا فروخت کرنا تھا ۔میں یہاں کام کرکے خوش تھا
۔ملازموں پر کڑی نظر رکھنے کے ِلیے حاجی عبداﷲ دروازے کے ساتھ چھوٹی سی میز
کے پیچھے تکیہ لگا کر بیٹھ جاتے ۔حاجی عبداﷲ میری کارکردگی سے خوش تھا اس
نے ایک اور کام میرے سپرد کردیا۔ وہ کام ہر روز ان کے بچوں کو سکول سے لانے
کا تھا ۔جبکہ دن بھر میں دوکان پر آنے والوں کا حساب رکھنا بھی میری ہی ذمہ
داری میں شامل تھا ۔اس طرح ماہانہ تنخواہ کے علاوہ بھی کچھ پیسے اضافی ملنے
شروع ہوگئے جو میں محفوظ کرتا رہا ۔سیٹھ صاحب نے میری دیانت داری کو دیکھتے
ہوئے مجھے اپنی دوکان کا امین مقرر کردیا ۔
ماں نے کچھ عرصہ بعد دوکان کی ملازمت چھڑوا کر مجھے انگریزی سکول کی پہلی
جماعت میں داخل کروا دیا ۔مجھے تعلیم سے کوئی خاص رغبت نہ تھی ۔پہلی سے
دوسری جماعت میں ترقی پانے کے بعد میں 13سال کی عمر میں تعلیم سے فارغ ہو
گیا ۔اب ایک اور جنون میرے سر پر سوار ہوا کہ سنیما جا کر فلم "پکار" دیکھی
جائے ۔مجھے یاد ہے کہ میں نے سلیقے سے غسل کیا ، سفید پاجامے پر سرخ قمیض
پہنی ، اپنے گنجے سر پر تیل لگایا اور دوستوں کو لے کر بذریعہ بس احمد آباد
شہر جا پہنچا ۔حسن اتفاق سے اس سے پہلے ہم میں سے کوئی بھی بانٹوا سے باہر
نہیں نکلا تھا ۔اس لیے ہم اردگرد کے مناظر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے
تھے ۔سب نے اپنے اپنے ٹکٹ لیے اور ایک ایسے اندھیرے ہال میں داخل ہو گئے
جہاں ہماری آنکھیں بڑے پردہ سیمیں پر مرکوز ہوگئیں ۔ پورے ہال میں پسینے کی
بدبو پھیل رہی تھی ۔میری آنکھیں اندھیرے میں بھٹکنے اور سلو لائیڈ سکرین سے
نجات کا کوئی راستہ تلاش کرنے لگیں ۔باقی سب دوسٹ ٹکٹکی باندھ کر فلم
دیکھتے رہے ۔جب فلم ختم ہو ئی تو میرے دوستوں نے اپنی حقیقی زندگی میں فلمی
ہیرو کا روپ دھار کر سرے شام چوراہوں پر کھڑے ہوکر فلم کے جو مکالمے انہیں
یاد تھے وہ انہیں خوب مزے لے کر دھراتے رہے ۔ادھر میرا یہ حال تھا کہ جو
کچھ دیکھ کر آیا تھا وہ سب گڈ مڈ ہو گیا ۔اب ذہن میں ایک سوچ پیدا ہو رہی
تھی کہ میں بڑا ہوکر کیا بنوں گا ۔سوچنے کے لیے غسل خانے سے زیادہ موزوں
اور بہتر کوئی اور مقام نہیں تھا جہاں بے خلل تنہائی اور آزادی میسر آ سکتی
تھی۔
اس کے بعد میں گلی محلے میں پنسلیں اور ماچسیں بیچنے لگا۔بچت مٹی کی ہانڈی
میں ڈالتا رہا اور ہوائی قلعے تعمیر کرتا رہا ۔ میں ان پیسوں سے غریبوں کے
لیے ہسپتال بناؤں گا ۔ پھر دل میں خیال آیا ۔نہیں میں فیکٹری بناؤں گاجس
میں غریبوں کو ہنر مند بنایا جائیگا۔پھر خیال آیا میں معذورں کا ایک الگ
شہر بناؤں گا ۔میرے والد ایک معتدل مزاج ، روشن خیال اور ہر وقت سوچ بچار
کرنے والے فلاسفر قسم کے انسان تھے ۔حج انہوں نے کررکھاتھا جبکہ پنجگانہ
نمازوں کی وہ سختی سے پابندی کرتے تھے۔والدہ بھی کچھ زیادہ مذہبی نہیں تھیں
لیکن عبادت کا سارا مرحلہ بسم الرحمن الرحیم کا ذکرکرتے طے کر جاتیں ۔بعض
اوقات تسبیح کے دانوں پر اﷲ ہو ، اﷲ ہو کا ورد کرتے ہوئے مجھے پھونکیں
مارتیں ،پھر میرے کانوں میں سرگوشی کرتیں بیٹا میری ساری دعائیں تیرے لیے
ہیں ۔
اب میں چودہ سال کا ہو چکا تھا ۔ایک روز میں نے اپنا دل ایک لڑکی کے لیے
دھڑکتا محسوس کیا ۔وہ بے حد شرمیلی تھی لیکن وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ اس
کے لیے میرے دل میں انس موجود ہے۔وہ ہمارے گھر کے اوپر والے کمرے میں رہتی
تھی ۔جب صبح سویرے وہ اپنے نازک پہلو میں گگری اٹھائے نیچے اترتی تو میں
نماز کے لیے وضو کررہا ہوتا۔وہ نلکے سے پانی بھرتی اور پل بھر میں سیڑھیاں
چڑھ جاتی۔کبھی کبھی وہ مجھے ترچھی نظروں سے دیکھ کر مسکرا دیتی ۔بعض اوقات
میں اس کی واپسی کا انتظار کرتا لیکن سیڑھیوں میں ڈوبنے والا چاند پھر کبھی
طلوع نہ ہوتا ۔میرے عشق خانہ خراب کی یہ لمحاتی سرگرمیاں اس وقت اچانک دم
توڑ گئیں جب مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی منگنی ہوگئی ہے ۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے بانٹوا کے مسلمانوں سے
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کا ہندوستان میں رہ جانا بھارت کے لیے مفید
اور پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ اس طرح پاکستان ،میمن برادری
کے انتہائی تجربہ کار ،کاروباری لوگوں سے محروم ہو جائے گا۔چنانچہ قائد
اعظم ؒ کے حکم پر میمن برادری کے تمام لوگوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا
۔6ستمبر 1947ء کے دن ہم اس ریل گاڑی کے منتظر تھے جس نے ہمیں "اوچھ پورٹ"
کے مہاجر کیمپ تک لیجانا تھا ۔ میمن برادری کے چار ہزارافراد نے کشتیوں میں
بیٹھ کر بحیرہ عرب کی اٹھلاتی لہروں کے ساتھ کراچی تک کا سمندری سفر دو دن
بھوکے پیاسے رہ کر طے کیا ۔1948ء میں ہمیں معلوم ہوا کہ میٹھادر میں پہلی
مخیر تنظیم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔تنظیم کا نام بانٹوا میمن ڈسپنسری رکھا
گیا ۔میٹھادر میں خواتین کی زبوں حالی دیکھ کر مجھے "میٹرنٹی ہوم" شروع
کرنے کا خیال آیا ۔
1956ء میں اچانک میرے دل میں سیرو سیاحت کا خیال پیدا ہو ا۔۔پہلے سوچا کہ
یہ سفر پیدل کروں پھر ایک بس پر سوار ہوگیا ۔پہلے میں ایران پہنچا ، وہاں
سے ترکی ،یونان ، بلغاریہ اور یوگوسلاویہ سے اٹلی جا پہنچا ۔ایمگریشن کے
افسران میرا پاسپورٹ اور ٹکٹ دیکھتے ۔تھیلے میں جب انہیں کپڑوں کے ایک جوڑے
، ایک چادر،کچھ پیسوں اور تھوڑے سے کھانے کے علاوہ کچھ نہ ملتا تو وہ
حیرانی سے مجھ پر نظر ڈالتے اور سامان واپس تھیلے میں ڈالتے جاتے ۔اٹلی کے
شہر روم میں، میں ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر جب چادر لپیٹ کر رات گزارنے لگتا
تو لوگ ہمدردی میں تھوڑا بہت کھانا ،ریزگاری میرے پاس چھوڑ دیتے ۔ایک صبح
جب میں سو کر اٹھا تو دیکھتا ہوں میرے جوتے غائب ہیں ،سخت پریشان ہوا اور
سوچا اگر وطن میں ہوتا کچھ خاص فرق نہ پڑتا لیکن اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک
میں جوتوں کے بغیر چلوں گا تو لوگ مجھے حیرت سے دیکھیں گے ۔ ان شکستہ
خیالوں میں کھویا .......................دو پاؤنڈ کا ٹکٹ خرید کر کشتی کے
ذریعے "ڈوور " پہنچا وہاں سے بس کے ذریعے "ہوسٹن "کی جانب روانہ ہوگیا اور
کسی نہ کسی طرح وطن واپس آ گیا ۔
میں پرانے وقتوں کے بارے میں ہنسی مذاق کرکے ماں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا
اور باقاعدگی کے ساتھ ان کا منہ ہاتھ دھلاتا ۔ایک روز میں نے ان سے کہا ماں
جی آپ کو یاد ہے کہ جب میں بیمار ہوتا تھا تو آپ مجھے نہلایا کرتی تھیں ،آج
میں بھی وہی کچھ کررہا ہوں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماں بالکل چار پائی سے
لگ گئی تھیں ۔ان انہیں غسل خانے تک لے جانا بھی محال ہو چکا تھا ۔حجاب کے
کئی ایسے مواقع آئے کہ ان کی دیکھ بھال کرنے، انہیں اٹھانے بٹھانے اور
نہلانے میں دقت محسوس ہونے لگی ۔ماں اپنے طور پر شرمسار اور اداس تھی کہ ان
کا وجود بوجھ بن گیا ہے ۔یہیں پر مجھے احساس ہوا کہ اب مجھے شادی کرلینی
چاہیئے۔بیوی کی حیثیت سے ایک ایسی عورت کی تمنا تھی جو شریک حیات کے علاوہ
کارکن بھی ہو اور کام سے لگن اور محنت اس کی شخصیت کا حصہ بھی ہو ۔
ایک دن میں ان کارکنوں کو جھاڑ پلا رہا تھا جو ہاتھ پر ہاتھ دھر بیٹھے ہوئے
تھے ،اچانک دروازہ کھلا اور ایک سولہ سترہ سال کی خوبصورت لڑکی اندر آئی ۔
اس نے مجھے بتایا کہ میرا نام بلقیس ہے ، خالہ نے مجھے یہاں کام کے لیے
بھیجا ہے ۔میں نرس بننا چاہتی ہوں ۔میں نے سوال کیا ،تمہاری عمر تو بہت کم
ہے کیا تم سکول نہیں جاتی ۔اس نے کہا مجھے پڑھائی سے کوئی رغبت نہیں ۔میں
نرس بن کے دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔میں اس کی مسکراہٹ اور
ہوشربا آنکھوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے متوجہ ہوا تو دل ہی دل میں قہقہہ ضبط
کرتے ہوئے رضا مندی کا اظہار کردیا ۔ایک دن لیڈی ڈاکٹر سے میں نے بلقیس کے
بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا ایدھی صاحب آج تک جو بھی لڑکیاں میری نظر سے
گزری ہیں، بلقیس ان سب میں بہترین ہے ۔بلقیس مجھے بے حد پسند تھی لیکن میں
انکار کے ڈر سے اسے شادی کے لیے نہ کہہ سکا۔ایک روز بلقیس میٹرنٹی وارڈ کی
سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو میں نے اسے آواز دی ۔کیا تم ہمیشہ میرے ساتھ کام
کرتی رہوگی ؟یہ سن کر وہ ایک دم سنجیدہ ہو گئی ۔سوال ہی ایسا تھا جس نے ہم
دونوں کو حیران کردیا ۔"ہاں"کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئی ۔ایک روز
بلقیس کو سٹور کی طرف جاتے دیکھا تو میں بھی پیچھے چل پڑا۔کمرے کی بتی
جلانے کی کوشش کی لیکن بلب فیوز تھا ۔وہ میری موجودگی کو محسوس کرکے چونک
سی گئی ۔میں نے کہا میں ایدھی ہوں ۔اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا میں آپ کو
دیکھ رہی ہوں ۔اس بدحواسی کے عالم میں میرے منہ سے نکلا کیا تم مجھ سے شادی
کروگی ۔اس نے کہا میں کیسے ہاں کرسکتی ہوں ۔میری خالہ سے بات کریں ۔جب اس
حوالے سے بلقیس کی خالہ سے بات ہوئی تو اس نے بھی رضامندی کا اظہار کردیا ۔
چنانچہ 19اپریل 1966ء کو بلقیس سے میری شادی ہو گئی ۔مزے کی بات تو یہ تھی
کہ میں نہ بلقیس کی رخصتی کے موقع پر موجود تھااور نہ شادی کی تقریبات میں
شریک تھا۔میری زندگی نے اس وقت کروٹ لی جب میں نے چند ساتھیوں کی مدد سے
سمندر سے گلی سڑی لاشوں کو نکالا ۔یہ انسانی لاشیں سیاہ اور پھولی ہوئی
تھیں ، چھونے سے ریزہ ریزہ ہو جاتی تھیں ۔ اس کے علاوہ میں مردہ لاشوں کو
مین ہولوں اور گٹروں میں سے بھی نکال لایا جن کو دیکھ کر ان کے لواحقین بھی
دور بھاگتے تھے ۔میں نے ان لاشوں کو غسل دیا ،کافور لگایا اور کفن پہنا کر
قبروں میں دفن کردیا ۔اسی اثنا میں زکوۃ ، صدقہ اور خیرات کا سلسلہ بڑھ رہا
تھا ۔والدہ کی بیماری کے دوران ایک اچھوتے پہلو سے میرا سامنا ہوا ۔ بیمار
لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت ناپید
تھی ۔پورے کراچی میں ایک ایمبولینس تھی، وہ بھی ریڈ کراس کی ملکیت تھی
۔انہی مسائل کو مدنظر ہوئے ہم نے ایدھی ایمبولنس سروس کا آغا ز کیا جس کا
دائرہ کار پہلے کراچی بعد میں پاکستان کے تمام شہروں تک پھیلا دیا ۔بلکہ
ہوائی جہاز اوربھی ہیلی کاپٹر بھی انسانی خدمت کے لیے ہر لمحے موجود رہتے
ہیں ۔تمام مراکز وائرلیس سسٹم سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔اب تک کروڑوں
انسانوں کی خدمت کا فریضہ ایدھی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم پر انجام دیا جا چکا
ہے بلکہ پاکستان سے باہر بھی جہاں قدرتی آفات حملہ آور ہوتی ہیں ، ایدھی
فاؤنڈیشن دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے وہاں بھی موجود ہوتی ہے ۔ دکھی
انسانیت کی خدمت پر مامور عظیم سماجی رہنما عبدالستار ایدھی 8جولائی 2016ء
کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن جاتے جاتے وہ تمام انسانوں کو ایک ایسا سبق
دے گئے جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ایدھی فاؤنڈیشن کو بیشمارقومی
اور بین الاقوامی ایوارڈوں اور اعزازات سے نوازا جا چکا ہے بلکہ گنز بک آف
ریکارڈ میں بھی اید ھی فاؤنڈیشن شامل ہے ۔ بیشک عبدالستار ایدھی جیسے عظیم
لوگ کسی بھی قوم کا بہترین سرمایہ قرار پاتے ہیں ۔اﷲ انہیں کروٹ کروٹ جنت
نصیب فرمائے ۔آمین |