پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب4٭ نوٹ: ملک غلام محمد کے پہلی مرتبہ ٭والدین،بیوی بچوں کے نام٭تعلیم کہاں حاصل کی۔آئندہ تحقیق کرنے والوں کیلئے اہم معلومات ملک غلام محمد کی ِپیدائش اور وفات کی تاریخ ایک ہی ہے ٭29 ِ اگست ٭
|
|
|
ملک غلام محمد |
|
گورنر جنرل ملک غلام محمد (1895ء ۔ 1956ء) تحقیق و تحریر:عارف جمیل
ابتدائی زندگی تا اِنڈین گورنمنٹ آفیسر۔شادیاں٭قسط اوّل٭
پاکستان کے پہلے وزیر ِ خزانہ اور تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد جو ذات کے ککے زئی پٹھان تھے 29 ِاگست 1895ء کو اندرون ِ شہر لاہور کے مشہور محلے چوہاٹہ مفتی باقر کے بالکل ساتھ کوچہ ککے زئیاں کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اس کوچے کے بالکل ساتھ ہی وزیر خان کی تاریخی مسجد بھی واقع ہے۔ غلام محمد کا جس ذات سے تعلق تھا اُسے واضح ہے کہ انکے آباؤ اجداد افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ غلام محمد کے والد ملک نور محمد انگریزوں کے دور میں سول سکیر ٹریٹ لاہور کے ایک محکمے میں عام کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے اور اُنکی شادی کوچہ ککے زئیاں میں ہی اُنکی برادری کی ایک لڑکی کریم شاہ سے تقریباً 19ویں صدی کی آخری دہائی کے شروع میں ہوئی تھی۔ نور محمد کے ہاں اُنکی بیوی کریم شاہ سے چار بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں سب سے بڑے غلام محمد تھے۔ نور محمد کے ایک چچا نذر محمد کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔لہذاغلام محمد جب تقریباً چار پانچ سال کے ہوئے تو چچا نے نور محمد سے اُنکے بڑے بیٹے غلام محمد کو اپنے ساتھ ریاست کپور تھلہ لیجانے کی اجازت مانگی۔ نذر محمد پیشے میں وکیل تھے اور اُن دنوں جالندھر سے بارہ میل دُور ریاست کپور تھلہ میں مہاراجہ کے پاس اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ظاہر سی بات تھی کہ پہلے تو نور محمد اوربیگم کریم شاہ نہ مانے لیکن پھر بیٹے کی بہترین تعلیم و تربیت کے و عدے پر غلام محمد کو نذر محمد کے ساتھ کپور تھلہ بھیج دیا۔ نذر محمد نے وعدے کے مطابق غلام محمد کی تعلیم کا انتظام کپور تھلہ ریاست کے اُمراء کے سکول میں کر دیااور ساتھ میں اُنھوں نے غلام محمد کیلئے مہاراجہ سے کہہ کر ایک خوبصورت چھوٹی سی بگھی کا انتظام بھی کروا دیا تا کہ غلام محمد کو گھر سے سکول آنے جانے میں کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ غلام محمد بھی ایک ذہین طالب ِ علم ثابت ہوئے۔ جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں امتیازی حیثیت سے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں۔ جہاں تک تربیت کا تعلق تھا اُس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا کہ جب بھی چھٹیوں میں غلام محمد اپنے والدین کے پاس لاہور آتے تو جتنا بھی وقت ہوسکتا اُنکی خدمت میں گزارتے۔ اپنی والدہ کیلئے گرمیوں میں شام کے وقت دہلی دروازے کے پاس" شاہ محمد غوث" کے مزار سے ٹھنڈا پانی لیکر آتے جس سے اُنکی والدہ وضو کر کے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرتیں۔ غلام محمد جب تقریباً سولہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دے کر لاہور آئے تو اُنکے والدین نے اُنکی شادی اُنکی پھوپھی کی بیٹی بادشاہ بیگم سے کر دی جن کی عمر بھی اُس وقت تیرہ چودہ سال کے لگ بھگ تھی۔ جہاں تک بادشاہ بیگم کی تعلیم کا تعلق تھا بس بامشکل اُردو کا خط پڑھ لیتی تھیں۔ غلام محمد میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد ایف۔ اے کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے واپس ریاست کپور تھلہ چلے گئے۔ پھر علیگڑھ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کیلئے ایف۔ اے کا امتحان اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ غلام محمد نے علیگڑھ یونیورسٹی جا کر دیکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی زبو حالی کو ختم کرنے کیلئے یونیورسٹی میں سیاسی، علمی و ادبی سرگرمیاں ہر وقت جاری رہتی ہیں۔ اُنھوں نے بھی اُن سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ اِس دوران اُنکی ملاقات نواب حمید اللہ خان والی ِ بھوپال سے ہوئی جو علیگڑھ میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ غلام محمد نے جلد ہی اُنکے ساتھ گہرے تعلقات پیدا کر لیئے تا کہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر اُن سے بھی مسلمانوں کی بھلائی کیلئے کوئی کام لیا جا سکے۔ غلام محمد نے علیگڑھ یونیورسٹی سے بی۔ اے کے بعد ایم۔ اے معاشیات بمہ گولڈ میڈل پاس کیا اور ایم۔ اے معاشیات کے دوران ہی علیگڑھ یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔ بی کی شام کی کلاسیں پڑھ کر وکالت کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔ لہذا اب غلام محمد لانبا قد، خوبصورت جسم، گورا رنگ، اونچی ناک، بلندپیشانی اور خوشنما آنکھوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ، انگریزی، فارسی، عربی زبانوں پر عبور رکھنے والے، خلوص سے ملنے والے اور دلچسپ باتیں کرنے والے نوجوان کہلانے لگے۔ غلام محمد اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ایک تیز نوجوان بھی ثابت ہوئے تھے جو کسی بھی وقت کسی سے بھی کسی قسم کا فائدہ اُٹھانے سے نہیں گھبراتے تھے۔ اس وصف کی ایک مثال اُنکے ایک واقعہ سے بھی ملتی ہے۔ جب اُنھوں نے علیگڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہاں پر ہی معاشیات کے لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت شروع کر دی تھی تو ایک دفعہ اُن ہی دِنوں میں اُنکو اپنے دوست پروفیسر اے۔ ایس۔ بخاری کے ساتھ دہلی میں کسی کام کے سلسلے میں جانا پڑا۔ ایک صبح غلام محمد اور پروفیسر بخاری دہلی کی سیر کرنے نکلے اور شہر کے ایک خوبصورت پارک میں جا کر بیٹھ گئے۔ پروفیسر بخاری کو گٹار بجانے کا بہت شوق تھا اور اُس دِن بھی اُنکے پاس گٹار تھا۔ لہذا اُنھوں نے وہاں گٹار بجانا شروع کر دیا۔ غلام محمد نے جب یہ دیکھا کہ گٹار بجانے پر پارک میں بیٹھے ہوئے لوگ اُن دونوں کے پاس آکر کھڑے ہو گئے ہیں تو غلام محمد نے اُس گٹار کی دُھن پر گانا شروع کر دیا۔ آواز بُری نہ ہونے کی وجہ سے گٹار کی دُھن کے ساتھ مل گئی جس سے آس پاس کے لوگ بہت محظوظ ہونے لگے۔ غلام محمد نے اسے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے کوٹ کی جیب گانا سننے کی قیمت وصول کرنے کیلئے اُن لوگوں کے آگے کر دی اور اُن لوگوں کو واقعی اُن ددنوں کا انداز اس قدر پسند آیا کہ اُنھوں نے غلام محمد کی کوٹ کی جیب میں سکے ڈالنے شروع کر دیئے اور شام کو جب دونوں اپنی رہائش پر واپس آئے تو غلا محمد کی جیب سکوں سے بھری ہوئی تھی۔ غلام محمد کو بچپن سے ہی صوفیوں اور بزرگوں سے بہت عقیدت ہو گئی تھی لہذا اُنھیں جب بھی لاہور آنے کا موقع ملتا تو اپنے گھر کے پاس "حضرت سخی سیف صوف " کے مزار پر حاضری ضرور دیتے۔ وہ لکھنؤ سے چند میل پر واقع دیوا شریف میں " حضرت حاجی وارث علی شاہ" کے مزار بھی جاتے تھے۔ یہ بزرگ غالباً بیسویں صدی کے آغاز میں فوت ہوئے تھے اور غلام محمد کو اُن کے ساتھ گہری عقیدت تھی۔ غلام محمد کی صوفیوں اور بزرگوں سے عقیدت کا ایک واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک دفعہ جب اُنھیں لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے ہی کسی رشتے دار سے جب یہ معلوم ہوا کہ اُنکے والد نیم بے ہوشی کی حالت میں چند روز سے بیمار پڑے ہیں تو غلام محمد نے گھر جانے کی بجائے حضرت سخی سیف صوف کے مزار کا رُخ کیا. وہاں بیٹھ کر اپنے والد کی صحت کیلئے دُعا کرنی شروع کر دی۔ کچھ دیر بعد جب اُنکے گھر سے آ کر کسی نے اُنھیں بتایا کہ نو رمحمد کو ہوش آگئی ہے تو غلام محمد نے گھر جا کر اپنے والد کی خیریت دریافت کی۔ غلام محمد نے 1920ء میں لیکچرار کی ملازمت پسند نہ آنے پر اِنڈین آڈٹ اینڈ اکاؤنٹنگ سروس کا امتحان دے دیا جس میں کامیابی حاصل ہونے پر اُنھیں ایسٹ انڈیا ریلوے میں اکاؤنٹس آفیسر کی ملازمت مل گئی۔ اپنی قابلیت سے یہ عہدہ حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد اُنھیں بے روز گار مسلمان نوجوانوں کی فکر ہونے لگی۔اُنھوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے پہلے خود ٹرینوں پر ٹکٹ چیکر کے عام کپڑے پہن کر ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو پکڑنا شروع کیا،جس سے ریلوے کے اعلیٰ افسروں کے سامنے اُنکی اہمیت بڑھ گئی اور پھر غلام محمد نے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے افسروں کے سامنے یہ تجویز پیش کر دی کے ریلوے کے محکمے میں سپیشل ٹکٹ چیکنگ کا سٹاف بھرتی کرنا بہت ضروری ہے تا کہ بغیر ٹکٹ سے سفر کرنے والوں کو پکڑا جا سکے۔ اُنکی اِس تجویز پر افسروں نے عمل کر نے کا حُکم جاری کر دیا۔ غلام محمد نے اس سلسلے میں ایک طریقہ یہ اپنایا کہ بذات ِ خود ٹرین کے ذریعے ہندوستان کے مختلف شہروں میں جا کر وہاں کے مسلمان نوجوانوں کو کہتے کہ ریلوے کے محکمے میں ٹکٹ چیکر کی ضرورت ہے فلاں دن وہاں جا کر اکاؤنٹ افسر کو عرضی دے آؤ اور پھر جب وہ نوجوان وہاں آتے تو آگے اُس عہدے پر غلام محمد کو ہی پاتے اور غلام محمد بھی اُنھیں فوراً ملازمت پر رکھ لیتے۔ دوسرا طریقہ اُنھوں نے یہ اختیار کیا تھا کہ سپیشل ٹکٹ چیکنگ کا سٹاف بھرتی کرنے کیلئے ہندوستان کے اخبارات میں اشتہار دے دیا کہ فلاں دن اُمید وار انٹرویو کیلئے حاضر ہوں۔ لہذا اُس دن ضرورت سے زیادہ اُمید وار پہنچ گئے۔ غلام محمد نے سب اُمید واروں کو لائن میں کھڑا کر دیا اور پھر حکم دیا کہ مسلمان اُمید وار ایک طرف ہو جائیں۔ جب اُنکے حُکم پر ایسا ہی ہوا تو اُنھوں نے اعلان کیا کہ غیر مسلم جا سکتے ہیں، بھرتی مکمل ہو گئی ہے۔ انگریز کا دور ِ حکومت تھا ایک واویلا مچ گیا۔ ہندوستان کے صوبہ یو۔پی میں جہاں یہ سب کچھ ہوا وہاں کے ہندو پریس میں اس پر زبردست اداریئے لکھے گئے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اُدھر غلام محمد نے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو نوکریاں دِلوا دیں۔ غلام محمد کی اُن ہی دنوں لکھنؤ کی ایک مقامی خوش شکل متوسط گھرانے کی پڑھی لکھی مسلمان لڑکی سے ملاقات ہو گئی۔ غلام محمد کو اُس لڑکی سے ملاقات کے بعد احساس ہوا کہ اُنکو مستقبل کیلئے ایک اسی قسم کی جیون ساتھی چاہیے۔ لہذا غلام محمد نے اُس لڑکی کی والدین کی مرضی سے اُسے شادی کر لی۔ غلام محمد کی دوسری شادی کا جب لاہور میں اُنکے خاندان والوں کو معلوم پڑا تو غلام محمد کے والد نے یہ کہہ کر اپنے بیٹے سے تعلق ختم کر لیا کہ ایک تو غلام محمد نے اُنکی پیاری بہن کو دُکھ دیا ہے اور دوسرا اپنی بیوی بادشاہ بیگم کو بھی شدید رنج سے دوچار کیا ہے جس کی کوک سے غلام محمد کے ہاں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا تھا۔ ایک بیٹی اور بیٹا فوت ہو جانے کے بعد ایک بچی اقبال تھی۔ اُنکے والد کے مطابق کیا ایک عورت کیلئے اُسکے دو بچوں کا فوت ہو جانا کم دُکھ تھا کہ اوپر سے اُس ہی کا خاوند دوسری شادی کر لے۔ بہر حال اس طرح چند سال گزر گئے۔ بادشاہ بیگم ایک سیدھی سادی عورت تھیں۔ اُنھوں نے اپنے خاوند کی بے وفائی کو دِل میں چھپاتے ہوئے اپنی بیٹی اقبال کی پرورش کو اہمیت دینا شروع کر دی۔ غلام محمد کو شروع میں تو اپنے خاندان کی ناراضگی کا زیادہ احساس نہ ہوا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُنکو یہ دُکھ کھائے جانے لگاکہ جس باپ سے اُنھیں بے پناہ عقیدت ہے وہ ہی اُن سے قطع تعلق کر گئے ہیں۔ اُنکی دوسری بیوی کو غلام محمد کا اپنے خاندان والوں کی یاد میں یوں کھوئے رہنا اچھا نہ لگا تو اُن سے ضد کرنے لگی کہ بادشاہ بیگم کو طلاق دے دو یا اُس کو۔ اُس وقت غلام محمد میں سے اُسکا ایک چار سالہ بیٹا انعام بھی تھا۔ غلام محمد ان حالات میں اب ایک دوراہے پر کھڑے تھے۔ ایک طرف والدین، بادشاہ بیگم، بیٹی اور باقی خاندان اور دوسری طرف اپنی پسند کی دوسری بیوی اور اُسے بھی ایک بیٹاانعام۔ پھراُنھوں نے اپنے خاندان کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی دوسری بیوی کو طلاق دے کر اپنے بیٹے کو اپنی تحویل میں لے کر بادشاہ بیگم کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اُنکے اس بیٹے کو بھی اپنا سگا بیٹا سمجھتے ہوئے پرورش کریں۔ بادشاہ بیگم کو اپنے خاوند کے واپس آنے کی اتنی خوشی تھی کہ اُنھوں نے انعام کو بھی قبول کر لیا۔ لیکن ان حالات کے بعد غلام محمد کی طبیعت میں سختی اور چڑچڑاپن آگیا۔ لہذا اب اُن کے ساتھ رہنے والا خواہ اُنکے گھر کا فرد ہو یا دفتر کا اُنکے غصے نہ بچ پاتا۔ مئی 1926ء میں جب وسطی ہند کی مشہور اسلامی ریاست بھوپال کی حکمران سلطان جہاں آراء بیگم تخت سے دست بردار ہوئیں تو اُنکے بیٹے نواب حمید اللہ خان نے ریاست کی زمام ِحکومت سنبھال لی۔ غلام محمد اُن دنوں ریلوے کے محکمے کے قابل ترین افسر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے ماہر بھی سمجھے جاتے تھے اور نواب حمید اللہ خان کے علیگڑھ یونیورسٹی کے دوستوں میں سے بھی تھے۔ لہذا 1931ء کے اوائل میں نواب صاحب نے حکومتِ ہند سے اُنکی خدمات اپنی ریاست کیلئے بطور کمشنر حاصل کر لیں۔ غلام محمد نے ریاست بھوپال میں بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں کے کچھ ایسے اعلیٰ جوہر دکھائے کہ نواب حمید اللہ خان ایوان ِوالیان ریاست کے چانسلر کی حیثیت سے جب ستمبر 1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گئے تو اُنھیں بھی کانفرنس میں ساتھ لے گئے۔ بھوپال میں غلام محمد دو سال تک رہے اور پھر حکومت ِ ہند نے اُنھیں واپس دہلی بُلا کر محکمہِ مواصلات کا مالی مشیر مقرر کر دیا۔ اس دوران اُ نھیں علیگڑھ یونیورسٹی کی ایگز یکٹیو کونسل کا ممبر بھی منتخب کر لیا گیا تھا۔ ٭(جاری ہے)٭
|