بھگوا لو ٹریپ: کتنی حقیقت کتنا فسانہ

طلبہ علی گڑھ کو علامہ اقبال نے جو پیام دیا تھا اس کے دوسرے شعر میں کہتے ہیں۔
طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
یہ بھی سنو کہ نالہ طائر بام کیا ہے
اس میں اشارہ یہ ہے کہ تمھارے رہبر، واعظ اور مصلح سب کے سب غلامی میں مبتلا ہیں اور ان کا نالہ و فریاد زیر دام کی چیخ و پکار ہے، آزاد کی فریاد کی لے اور غلام کی فریاد کی لے میں فرق ہوا کرتا ہے۔ ذہنی غلامی میں قوموں کی ترجیحات بدل جاتی ہے۔ ان کا سوچنے کا زاویہ اور مسائل سے نپٹنے کا انداز تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس غلامانہ ذہنیت میں ایک کیفیت خوف کی ہوتی ہے اور ہندوستانی مسلمانوں میں خوف اور سراسیمگی کی نفیسات بڑی گہری پائی جاتی ہے۔ جہاں کوئی اس طرح کا ملی ایشو ہاتھ آیا تو اس کا تجزیہ و تحلیل کرکے اسے سمجھ کر مناسب حل پیش کرنے کے بجائے رائی کا پربت بنا کر خوف کی نفسیات پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔

پچھلے دنوں جس طرح مسلم لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکوں سے شادی کے معاملات میں ہنگامے برپا ہوئے وہ مسلمانوں کی ملی نفسیات سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہنگامہ خیز تحریریں، گلی محلوں میں مورال پولسنگ کے لیے غیور ںوجوانوں کی ٹیموں کی تیاریاں، ملی بیداری پیدا کرنے کے لیے شہر بھر میں پوسٹرس، بینرس اور ہورڈنگز، سمپوزیم اور سیمینارس، خصوصی اجتماعات و خطبات جمعہ اور مسلم لڑکیوں کی ناکام شادیوں کی تصاویر اور غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ گھومتی مسلم لڑکیوں کو بے نقاب کرنے والے ویوڈیوز، ان تمام باتوں نے مسلم سماج میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ یہی ہے۔

اسے مسلم لڑکیوں کے اتداد کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اس اعتبار سے یہ ایک جذباتی مسئلہ بن گیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ مسئلہ بار بار زیر گفتگو آ رہا ہے اور مسلمانوں میں بے چینی پیدا کررہا ہے لیکن اس مرتبہ اس کا سہارا لے کر بڑے پیمانے پر ہسٹریائی کیفیت پیدا کی گئی۔ ہندوستان کے مخلوط معاشرے میں اس طرح کی شادیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اس بار یہ تاثر ابھرا کہ اس طرح کی شادیاں سنگھ پریوار سازش کے تحت کروا رہا ہے کیونکہ سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیمں ہندو نوجوانوں کو اپنی تقریروں میں اس کے لیے اکساتی اور ابھارتی رہی ہیں۔ ہندو جاگرن منچ نے تو ایک مہم ہی لانچ کردی بہو لاؤ بیٹی بچاؤ۔

ان ہنگاموں میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں انھیں سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش اس مضمون میں کی گئی ہے۔

سب سے پہلا سوال کہ کیا اسے ارتداد قرار دیا جا سکتا ہے؟
بلا شبہ غیر مسلموں سے شادی ایک گناہ کا کام ہے لیکن صرف اس بات سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا ہے جبکہ تک وہ خدا کا انکار نہ کردے یا مذہب اسلام سے اخراج کا اعلان نہ کردے۔ کتنے ہی ایسے معاملات میں ہوتا رہا ہے کہ غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنے کے باوجود لڑکیاں نہ صرف خدا پر ایمان رکھتی ہیں بلکہ عبادات کی پابندی بھی کرتی ہیں۔ مولانا خالد سیف الرحمانی صاحب اپنے مضمون "بین مذہبی شادیوں کے واقعات اور ان کا تدارک" میں اسے واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "مسلمان لڑکی کا غیر مسلم لڑکے کے ساتھ چلا جانا الگ بات ہے اور مرتد ہوجانا الگ بات ہے، غیر مسلم لڑکے کے ساتھ چلا جانا یقیناً بہت بڑا گناہ ہے، مگر ارتداد کا مطلب مسلمان ہو جانے کے بعد کفر کو اختیار کر لینا ہے، مرتد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے ایک ہونے کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اور آخری نبی ہونے کا، قرآن مجید کے کتاب اللہ ہونے کا اور آخرت کا انکار کر جائے، وہ بتوں کو خدا یقین کرنے لگے اس پہلو سے دیکھیں تو بہت سی لڑ کیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں، وہ وقتی جذبات کے تحت اگر چہ اس غلطی کا ارتکاب کر لیتی ہیں لیکن وہ مکمل طور پر اسلام سے براءت کا اظہار نہیں کرتیں، ان کے دل میں ایمان کی چنگاری دبی ہوتی ہے۔ خود میرے پاس بعض ایسے معاملات آئے کہ جب بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑے کو سمجھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا دین نہیں بدلا ہے، ہم دونوں نے طے کیا ہے کہ ہم اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں گے، اپنے اپنے خاندان سے تعلق بھی باقی رکھیں گے لیکن ازدواجی رشتہ میں بندھے رہیں گے ان کی یہ بات یقیناً صد فیصد ناقابل قبول ہے، شریعت میں قطعاً اس بات کی اجازت نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے مسلمان لڑکے یا لڑکی کو گنہ گار اور فاسق و فاجر تو کہہ سکتے ہیں مگر ان پر مرتد ہونے کا حکم نہیں لگا سکتے۔"

دوسرا سوال ڈیٹا سے متعلق ہے۔ جو ڈیٹا پیش کیا جا رہا ہے وہ مشکوک ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ڈیٹا دیا جارہا ہے جبکہ اس کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہے۔ اس ڈیٹا سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لڑکیاں ہنداتوادیوں کے لیے بالکل نرم چارہ ہیں ادھر انھوں نے مہم شروع کی اور ادھر دھڑا دھڑا مسلم لڑکیاں ارتداد کا شکار ہوگئیں۔

زمینی سطح پر بھی اگر جائزہ لیا جائے تو اس طرز کے کیسیز تو ملتے ہیں کہ مسلم لڑکوں نے ہندو لڑکیوں سے شادیاں کی لیکن کسی مسلم لڑکی کے ہندو لڑکے سے شادی کے کیسیز مشکل ہی سے نظر آتے ہیں۔ شہروں میں پھر بھی اس طرح کے بعض کیسیز نظر آجاتے ہیں جن کی تعداد کئی سو میں ہوسکتی ہیں لیکن دیہاتوں اور قصبوں میں اس طرح کے کیسیز شاذ ونادر ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے لاکھوں میں کیسیز قرار دینا سوائے مبالغے کے کچھ نہیں ہے۔

تیسرا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہندوتوادیوں کی سازشوں کے تحت ہورہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہندوتوادی مستقل اپنی تقریروں میں ہندو نوجوانوں کو اس کے لیے ابھارتے رہتے ہیں کہ مسلم لڑکیوں سے شادیاں کریں اور اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ بعض جذباتی ہندو نوجوانوں نے ان تقریروں سے متاثر ہو کر مسلم لڑکیوں کو پھنسا کر شادی کی ہونگی لیکن اس طرح کی مثالیں شاذونادر ہی ہیں۔ عمومی طور پر اس طرح کی کیسوں کا ہونا عملا ممکن نہیں ہے۔ اول، جس طرح کے اخراجات بتائے جارہے ہیں کہ ہندو لڑکے کو سنگھی تنظیمیں فلیٹ، نوکری اور دوسری سہولتیں دے رہی ہیں اور جتنے کیسیز بتائے جائے رہے ہیں، اس کے لیے کروڑوں روپئے درکار ہوں گے اور سنگھ کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ سنگھ اتنا پیسہ اس کام کے لیے کبھی خرچ نہیں کرے گی۔

دوسرے یہ کہ ہندو سماج بہت زیادہ متعصب اور ذات پات میں جکڑا ہوا سماج ہے۔ وہ خود اپنے سماج کی (دوسری ذاتوں) کی لڑکیوں کو نہیں اپناتا تو کیا یہ سماج صرف کچھ جذباتی بھاشنوں کے سبب سے اتنی بڑی تعداد میں مسلم لڑکیوں کو اپنا لے گا وہ بھی بنا جہیز کے۔ نفرت میں ووٹ دینا اور بات ہے لیکن مسلم لڑکی کو بہو بنا کر خود کے خاندان کی قربانی کوئی بھی ہندو دینا کبھی گوارا نہیں کرے گا کیونکہ کہ ہندو سماج اپنے رسوم و رواج اور کلچر کے سبب سے زندہ ہے اور اس کلچر کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کی ذمہ داری ہندو خواتین پر ہے۔ ہندو تو یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ ان کے لڑکے لڑکیاں مسلمانوں سے دوستی کریں وہ یہ کب گوارا کریں گے کہ مسلم لڑکی ان کی بہو بنے۔

بین المذاہب شادیوں سے متعلق پیو ریسرچ سینٹر نے حالیہ دنوں میں جو تحقیق کی تھی۔ وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہندو بین المذاہب شادیوں کو پسند نہیں کرتے۔ بہت کم ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی ایسے شخص سے شادی کی ہے جو اپنے مذہب سے مختلف مذہب کی پیروی کرتا ہے۔ درحقیقت تقریباً تمام شادی شدہ (99 فیصد) رپورٹ کرتے ہیں کہ ان کی شریک حیات ان کے مذہب میں شریک ہیں۔ اس سروے میں ہندوؤں (99%)، مسلمانوں (98%)، عیسائیوں (95%)، سکھوں اور بدھوں (ہر ایک میں 97%) شامل ہیں۔ اسی سروے میں یہ بات بھی آئی کہ ہندوستانیوں کی اکثریت چاہے وہ کسی مذہب سے متعلق ہو بین المذاہب شادیوں کو پسند نہیں کرتی اور اسے روکنا چاہتی ہے۔ رپورٹ سے ایک بات یہ بھی سامنے آئی کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والوں میں کل ملا کر صرف 2 فیصد شادیاں بین المذاہب ہوئی ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں ہندوتوادی کوششوں کا زیادہ ہاتھ نظر نہیں آتا۔

البتہ موجودہ کیسیز کا اگر زمینی سطح پر جائزہ لیا جائے تو ان میں ہندوتوادیوں کی سازش کے سبب تو کچھ خاص کیسیز نہیں دکھائی دیتے ہیں لیکن موجودہ کیسیز میں ایک بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ شادی تو سوشل فیکٹرز کے سبب سے ہی ہورہی تھی لیکن ہندوتوادی غنڈوں نے ماحول کو پولارائز کرنے کے لیے پورے معاملے کو ہائی جیک کرلیا ہے اور اسے کمیونل کیس بنا دیا اور ہندو لڑکوں کے سپورٹ میں کھڑے رہ کر یہ میسیج دیا کہ یہ کیسیز ہندوتوادیوں کی کوششوں سے ہورہے ہیں۔

آخری سوال یہ کہ بین المذاہب شادیوں کے اسباب کیا ہیں۔ لوگوں کے دوسرے مذہب کے لوگوں سے شادی کرنے کی وجہ محبت میں پڑنا ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ان لوگوں سے پیار کرتے ہیں جو قابل رسائی ہیں، چاہے وہ آپ کے اسکول، کالج اور آفس میں ہوں۔ ایک بار جب آپ محبت میں پڑ جاتے ہیں تو اگلی قدرتی پیش رفت شادی کرنا ہے۔ اس لیے ان شادیوں کا سبب زیادہ تر سوشل فیکٹرز ہی ہیں۔ جن لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں ہورہی ہیں ان کی اکثریت شہروں میں رہنے والوں کی ہے جہاں اوپن کلچر ہونے کے سبب مسلم لڑکیوں سے ہندو لڑکوں کے ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جن لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی ہوئی ان میں اکثریت ایسی لڑکیوں کی ہے جو اسلام سے براہ نام واقف تھیں۔ ان کے اطراف کا ماحول یا تو ماڈرن لبرل ماحول تھا یا ہندو علاقے میں رہنے کے سبب سے ہندوانہ رسومات ان کی زندگی میں موجود تھی۔ شعوری اسلام تو درکنار ان کے پاس روایتی اور تقلیدی اسلام بھی نہیں تھا۔ اس صورت میں ان سے یہ حرکت ہوجانا بہت زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے۔

اس پورے معاملے کو سمجھنے کا اہم ترین اور معتبر ذریعہ میرج ریجسٹریشن کا آفس ہے۔ ہم نے صرف کیس اسٹڈی کے لیے پچھلے ایک مہینے کا ڈیٹا ریاست مہاراشٹر کا لیا۔ چونکہ کہا جارہا ہے کہ مہاراشٹرا اور اتر پردیش سب سے متاثر ریاستیں ہیں۔ اس ڈاٹا کے مطابق 40 کسسیز میں مسلم لڑکیوں نے غیر مسلم لڑکوں سے شادی کی اس کے بالمقابل 52 غیر مسلم لڑکیوں نے مسلم لڑکوں سے شادی کی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تومسلم لڑکوں میں غیر مسلم لڑکیوں سے محبت کی شادی کا رجحان زیادہ پایا گیا لیکن ان سب ہنگاموں میں اس پر تشویش تو دور اس کا ذکر تک نہیں ہے۔

ان 40 کسیز میں سے 27 کسییز صرف ممبئی، پونے اور تھانے میں ہیں۔ باقی اضلاع میں کیسیز نا کے برابر ہیں۔ جیسے شولاپور، احمد نگر، امراوتی، اورنگ آباد، بیڑ، ستارہ اور رائے گڑھ اضلاع میں صرف ایک کیس ہوا۔ دھولے اور اکولہ میں زیرو، پال گھر اور ناگپور میں تین تین کیسیز ہوئے۔ اس ڈاٹا سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس طرح کے معاملات بڑے شہروں میں زیادہ ہورہے جبکہ چھوٹے مقامات پر کم ہورہے ہیں جس کا سبب سوشل فیکٹرز ہے نہ کہ ہندوتوادیوں کی سازشیں۔

آخر میں اگر اس پورے ایپی سوڈ کا تجزیہ کیا جائے کہ اصل فائدہ کسے حاصل ہوا۔ سنگھ پریوار دو چیزیں چاہتا ہے اول یہ کہ ہندؤں میں مسلمانوں کے تیئں نفرت پیدا کرنا اور دوسرے مسلمانوں میں مستقل خوف و ہراس پیدا کرنا۔ اس ایشو سے دونوں ہی فائدے اسے حاصل ہوئے۔ لو جہاد اور بہو لاؤ بیٹی بچاؤ کے نعروں کے سبب جہاں وہ ہندؤں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوا وہیں جذباتی مسلمانوں، مقررین، خطیبوں، سوشل میڈیائی ایکٹیوسٹوں نے ایک چھوٹے ایشو کو بہت بڑے مسئلے کے طور پیش کرکے مسلمانوں میں حد سے زیادہ خوف اور سراسیمگی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ جانے انجانے میں مسلمانوں نے وہی کام کردیا جو سنگھ پریوار کرنا چاہ رہا تھا۔ اس سلسلے میں بدترین عمل جو مسلمانوں سے سرزد ہوا وہ اپنی ہی بیٹیوں کی بدنامی اور اور انھیں موضوع بحث بنادیا گیا۔ بنا کسی ٹھوس ثبوت کے صرف افواہوں کی اور چند کیسیز کی بنیاد پر پوری مسلم کمیونٹی نے مسلم بیٹیوں کے بارے میں عدم اعتمادکا ماحول پیدا کردیا۔ حالانکہ یہ وہی شیر دل خواتین اور بیٹیاں ہیں جو شاہین باغ میں مودی، یوگی اور شاہ جیسے ظالموں کے سامنے ڈٹ گئی تھیں۔
 

SHABI UZZAMAN
About the Author: SHABI UZZAMAN Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.