بلوچستان میں جیلوں کی حالت کے حوالہ سے ایک خبر پڑھی تو
بہت افسوس ہوا جبکہ اسکے مقابلہ میں پنجاب کی جیلیں تو کئی درجے بہتر ہیں
جہاں پینے کا صاف پانی ،24گھنٹے صحت کی سہولت ،جیل سے گھر ٹیلی فون کی
سہولت اور قیدیوں کو بیوی بچوں کے ساتھ گھر جیسی سہولت جیل وہ جگہ ہے جہاں
قید رہ کر انسان اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں پیدا کرسکتا ہے اپنی منفی سوچ
کو مثبت بنا سکتا ہے کم پڑھے لکھے اعلی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں بے کار افراد
ہنر مند بن سکتے ہیں مذہب سے دوری والا شخص اسلام کے بنیادی عقائد سے
واقفیت حاصل کرسکتا ہے جبکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جیل کے اندر رہتے
ہوئے قیدیوں نے قران مجید کو بھی حفظ کرلیا دقسرے لفظوں میں جیل کو ہم
اصلاح گھر بھی کہہ سکتے ہیں جیل جانا کوئی اچھی بات بھی نہیں لیکن ہمارے
سیاستدانوں کے لیے جیل جانا بھی کسی ڈگری سے کم نہیں جو باہر آکرجب اقتدار
میں آتے ہیں تو پھر بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ میں نے اتنا عرصہ جیل کاٹی اور
جہ سیاستدان جیل میں نہ گیا ہواسے باقی کے سیاستدان طعنہ دیتے ہیں کہ اس نے
کونسی جیل کاٹی ہے جہاں ہمارے سیاستدانوں کا یہ معیار ہوگا تو پھر ہماری
جیلوں کا ماحول اور معیار کیسے درست ہو سکے گا پنجاب کی جیلیں باقی صوبوں
سے اس لیے بھی منفرد ہیں کیونکہ یہاں میاں فاروق نذیر جیسا قابل ،محنتی اور
جیل والوں سے پیار کرنے والا شخص موجود ہے میاں صاحب تیسری بار پنجاب کی
جیلوں کے آئی جی بنے ہیں اس بار انکی کوشش ہے کہ وہ ادھورے کام بھی مکمل کر
جائیں جو انکے پچھلے دور میں ہوتے ہوتے رہ گئے تھے اب وہ دن رات ان کاموں
کی تکمیل میں مصروف ہیں جیلوں میں صاف پانی کی فراہمی اور قیدیوں کا اکاؤنٹ
انہی کا تحفہ ہے ان سے پہلے مرزا شاہد سلیم بیگ بھی آئی جی رہ چکے ہیں
انہوں نے بھی اپنے دور میں جیلوں میں بند قیدیوں اور حوالاتیوں سمیت جیل
ملازمین کے لیے بے انتہا کام کیے جیل ملازمین کی تنخواہوں سے لیکر ایک عام
حوالاتیوں تک سہولیات کا جال بچھا یا پنجاب بنک سے معاہدہ کرکے لوٹ مار کا
سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کردیاجسے بعد قیدی اپنی رہائی کے بعد بنک سے اپنے
پیسے واپس نکلوا سکتا ہے انکے اور بھی بہت سے کارنامے ہیں جنکا ذکر پھر
کبھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کی جیلیں آج اگر باقی صوبوں سے منفرد ہیں
تو انہی دونوں افراد کی وجہ سے ہیں بات شروع کی تھی بلوچستان میں جیلوں کی
حالت کے حوالہ سے جہاں بلوچستان کی12جیلوں میں سب سے بڑی اور تاریخی سنٹرل
جیل مچ سمیت 7 جیلوں میں قیدیوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی سہولت ہی میسر
نہیں ہے صرف ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر اور سنٹرل جیل
گڈانی میں ڈاکٹر تعینات ہیں اس پکڑ دھکڑ کے دور میں جہاں پورے پاکستان کی
جیلیں اپنی تعداد سے تین گنا افراد اپنے اندر سمائے ہوئے ہیں وہاں پر
ڈاکٹروں اور ادویات کا نہ ہونا باعث شرم ہے اوپر سے صوبائی حکومت بلوچستان
نے محکمہ جیل کے لیے ادویات کی مد میں دیے جانے والے فنڈ کو 60 لاکھ سے کم
کرکے 30 لاکھ کردیا ہے اور ابھی تک صرف دس لاکھ روپے جاری کیے گئے بلوچستان
جیلوں کے آئی جی شجاع کافی بھی محنتی اور ایماندار افسر ہیں جو ہر وقت
جیلوں میں اصلاح کے حوالہ سے کوئی نہ کوئی کام جاری رکھتے ہیں ابھی بھی
انہوں نے جیلوں میں ادویات کی مد میں ڈیڑھ کروڑ روپے فراہم کرنے کی سمری
محکمہ داخلہ کو بھجوا رکھی جبکہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ مچ جیل میں
ڈاکٹروں کی عدم تعیناتی پر برہمی کا اظہار بھی کرچکے ہیں لیکن حکومت ٹس سے
مس نہیں ہورہی اگر ہم پاکستان کی جیلوں کا دنیاسے مقابلہ کریں تو پاکستان
دنیا میں 23 ویں سب سے بڑی جیلوں کی آبادی والا ملک ہے جن میں سزائے موت کے
حوالہ سے ہماری جیلیں 5ویں نمبر پر ہیں تقریباً 64.5 فیصد قیدی مقدمے کی
سماعت کے منتظر ہیں 98.6 فیصد قیدی مرد ہیں، 1.7 فیصد نابالغ ہیں اور 1.2
فیصد قیدی غیر ملکی شہری ہیں پاکستان جیلوں میں آج سے کچھ عرصہ قبل تک
56,499 قیدیوں کی سرکاری گنجائش تھی لیکن اس میں 80 ہزارسے تجاوز کرچکے ہیں
پاکستان میں جیلوں کی مختلف قسمیں ہیں جن میں سینٹرل جیل، ڈسٹرکٹ
جیل،خواتین کی جیلیں، بورسٹل اسکول، اوپن جیلیں ،خصوصی جیلیں اور سب جیلیں
ہیں اور تقریبا 99 فیصد جیلیں آپریشنل ہیں پاکستان کو جیل خانہ جات کا نظام
انگریزوں سے نوآبادیاتی وراثت کے طور پر ملا سزا کے بعد سزا کی جگہ کے طور
پر جیل 18ویں صدی کا تصور ہے جسکا مقصدتھا کہ قید سے قیدیوں کو توبہ کرنے
میں مدد ملے گی اور اس توبہ کے نتیجے میں اصلاح ہوگی نوآبادیاتی حکومت نے
اسی سال 7 اپریل کو 1818 کے ضابطہ III کے ذریعے منظور کیا تھا ریاستی
قیدیوں کی قید کے لیے کسی ایسے فرد کو ذاتی پابندی کے تحت رکھنے کا طریقہ
کار اختیار کیا گیا تھا جس کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہو 1894 کا ایکٹ
نمبر IX 22 مارچ کو گورنر جنرل آف انڈیا نے کونسل میں پاس کیا مذکورہ قانون
1874 کے بمبئی ایکٹ II کے بعد آیا جو تقریباً آٹھ سیکشن یعنی سیکشن 9 سے 16
کی دفعات کے تحت ایوان صدر کی سول جیلوں پر لاگو ہوتا تھا جیل ایکٹ یکم
جولائی 1894 کو نافذ ہوا جس میں بارہ ابواب شامل تھے جیلوں کی دیکھ بھال کے
انتظامات، جیل کے عملے کے فرائض، نظم و ضبط، قیدیوں کے حقوق اور فرائض کی
تفصیلات شامل ہیں 11 مارچ 1897 کو گورنر جنرل کی منظوری حاصل کرنے کے بعد
اصلاحی اسکولوں سے متعلق قانون میں ترمیم کرنے اور نوجوان مجرم سے نمٹنے کے
لیے مزید انتظامات کرنے کے لیے منظور کیا گیا اس قانون کے نفاذ کے بعد
ریفارمیٹری سکولز ایکٹ 1876 کو دہرایا گیا پنجاب جیل خانہ جات کا محکمہ
1854 میں صوبہ پنجاب کی مختلف مرکزی، ضلعی اور خصوصی جیلوں میں قید قیدیوں
کی حراست، دیکھ بھال اور کنٹرول کے لیے قائم کیا گیا اور ڈاکٹر سی ہیتھ وے
کو جیلوں کا پہلا انسپکٹر جنرل (آئی جی) مقرر کیا گیا تھا 1900 کا ایکٹ
III، قیدیوں کا ایکٹ 2 فروری 1900 کو گورنر جنرل کی منظوری سے فوراً نافذ
ہو گیا جس کے بعدعدالت کے حکم سے قید قیدیوں سے متعلق باہر نکلنے والے
قوانین کو مضبوط کیا یہ برٹش بلوچستان، سنتال پرگنہ اور سپتی کے پرگنہ سمیت
پورے برٹش انڈیا تک پھیلا ہوا تھا اس ایکٹ میں نو حصے شامل تھے اور ترپن
سیکشن میں قیدیوں کے داخلے، اخراج، چھٹی، عدالت میں حاضری اور ملازمت سے
متعلق رہنمائی تھی آزادی کے وقت پنجاب کو انیس (19) جیلیں وراثت میں ملی
تھیں جبکہ آزادی کے بعد اب تک صوبے میں مزید تیئس (23) جیلیں بن چکی ہیں اس
وقت صوبے میں چالیس (43) جیلیں کام کر رہی ہیں دنیا نے حالیہ دہائیوں میں
جیلوں کی آبادی میں بے مثال اضافہ دیکھا ہے اور آج 11 ملین سے زیادہ لوگ
جیلوں میں ہیں جن میں سے تقریباً ایک تہائی مقدمے سے پہلے حراست میں ہیں یا
حتمی سزا کے منتظر ہیں جبکہ قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور
اسکے مقابلہ میں جیل کے نظام کے وسائل میں بہت کم اضافہ ہوا ہے جسکے نتیجہ
میں نہ صرف پاکستان کی جیلیں بلکہ دنیا بھر کی جیلیں بحران کا شکار ہیں
زیادہ تر ممالک اپنے جیلوں کے نظام کو اپنی سرکاری گنجائش سے زیادہ چلا رہے
ہیں جس کی وجہ سے بھیڑ، تنگ اور خطرناک حالات ہیں جیلوں میں بند قیدیوں کی
سہولیات کے حوالہ سے اگر بات کی جائے تو پنجاب کی جیلیں اس وقت باقی تمام
صوبوں کی جیلوں سے بہتر نظر آتی ہیں پاکستان کی خطرناک جیلوں کا اگر ذکر ہو
تو سنٹرل جیل مچھ اور سنٹرل جیل ساہیوال قابل ذکر ہیں ان دونوں جیلوں کی
تفصیل اگلے کسی کالم میں دونگا ۔
|