عورت کے معاشرے میں حقوق

تحریر:نگینہ صدف (کنگن پور)

عورت اس ارض گیتی کا حسن ہے۔ تصویر کائنات میں رنگ اسی کے دم سے ہے۔ عورت نے انسانی زندگی کے تمام ارتقائی مراحل میں مرد کے شانہ بشانہ اپنے فرائض انجام دئیے ہیں۔ دنیا کی تمام قدیم تہذیبیں اس بات کی شاہد ہیں کہ اس دور کی عورت جفاکش تھی ، بہادر تھی ، باہمت اور با حوصلہ تھی۔ میسو پوٹیمیا ، ہڑ پہ ، موہن جو دڑو اور مصری تہذیب کے پروان چڑھانے میں اس دور کی عورتوں نے اپنا خون پسینہ شامل کیا۔ مصری شہزادی افر دیتی ہو یا قلو پطرہ ، ہندو مذہب میں سیتا ہو یا لکشمی ، فرانس کی جون آف آرک ہو یا ہندوستان کی چاند بی بی ، سب نے اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے اپنی عصمت اور بہادری کی داستانیں رقم کی ہیں۔ عہد عباسی میں ملکہ خیزران اور ملکہ زبیدہ کا کردار اسلامی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں رضیہ سلطانہ اور نور جہاں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اے میرے وطن کی عورت ! جاگ جا ، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ، اپنی زندگی کے گلشن کی خود آبیاری کر۔ اپنی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے ، اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لئے ، اس بے ضمیر معاشرے سے اپنے حقوق چھین لینے کے لئے تجھے اپنے اندر سے ہر خوف نکالنا ہوگا۔ اپنے اندر کی عورت کو جگانا ہوگا ، جو بہت مضبوط ہے ، طاقتور ہے ، نڈر ہے۔ اے میرے وطن کی بہن ! تیرے تحفظ کے لئے ملکی قوانین موجود ہیں۔ محتسب اور جج عدالتوں میں تیری عظمت و عصمت کے تحفظ کے لئے بیٹھے ہیں۔ تجھے ان قوانین سے جو تیرے لیے بنائے گئے ہیں آگہی ہونی چاہیے۔ تجھے اپنے حقوق کا علم ہونا چاہیے۔ تو علم کی روشنی سے اپنے کردار کو روشن کر۔ تیری جلائی ہوئی اک شمع تاریک سیاہ راتوں کے خاتمے کا اعلان ہوگی۔ جاگ ، اور دیکھ وقت تیرے سامنے فریاد کناں ہے۔ کوء معاشرہ عورت کے کردار کے بغیر ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتا۔ خواتین نے سماجی ترقی کے لیے ہر کردار کو بخوبی نبھایا ہے۔ جدید دور میں سماجی تعمیر میں عورت کا کردار ناگزیر ہے۔ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ترقی عورت کے کردار کے بغیر ادھوری ہے۔ جو معاشرے عورت کو عزت اور اس کا جائز مقام نہیں دیتے وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ تاریخ میں عورت کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا۔ عورتیں معاشرے کے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات میں شمار ہوتی رہیں۔ غلام اور عورت معاشرے کے محروم ترین طبقات تھے۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ اب عورتیں ملکوں کی حکمران بھی ہیں۔ سٹیٹ بنک کی ہیڈز بھی ہیں۔ افواج میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر کامیابیاں سمیٹ کر ملک و ملت کا نام روشن کر رہی ہیں۔ غرض زندگی کا کوئی میدان نہیں جس میں عورت پیچھے ہو۔ آج کی عورت جاگ گء ہے۔ اس کا شعور بیدار ہے۔ وہ اپنے حقوق پہچانتی ہے۔ آج کی عورت کو اپنے حقوق کے لئے بھیک نہیں مانگنی پڑتی بلکہ وہ اپنا حق چھین لینا جانتی ہے۔ اب کسی عورت کی پکار پر محمد بن قاسم نہیں آئیگا۔ آج کی عورت کو خود ہی ظالم سماج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اپنے تحفظ کے لئے خود کو آہنی دیوار کے طور پر ثابت کرنا ہوگا۔ آج کی عورت اپنا استحصال برداشت نہیں کرتی۔اے میرے وطن کی بہادر اور نڈر عورت ! میری بہن ! دیکھ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ اور بازی اپنے حق میں پلٹ دے۔
رسم و بیاہ کے نام پر اہل جہان کو
عورت نما کنیز انہیں چاہیے سیدہ ام البنین
ڈھلتی چلی گئی اور رشتے امر کیے
عورت تمام روپ نبھاتی ہے اس طرح
سب سے اہم اور ضروری چیز جسکی بدولت انسان کی منزلت قائم ہوتی ہے جس کے زریعے سے وہ اپنی منزلت کو برقرار رکھتا ہے۔وہ اسکی معاشی حیثیت کی مظبوطی ہے۔اسلام کے سوا تمام مذاہب نے عورت کو معاشی حیثیت سے کمزور کیا ہے۔اور یہی معاشی بے بسی عورت کی۔ غلامی کی سب سے بڑا سبب بنی ہے۔عورت کو ایک کمانے والا فرد بنا دیا ہے۔اسلام تو بیچ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔عورت کا نوکری کرنا مرد کی طرح سخت رویے برداشت کرنا ،لوگوں کی نظروں کو نظر انداز کرنا شائد اب اتنا معیوب خیال نہیں کیا جاتا ہے۔حضرت خدیجہ جو اسلام کی پہلی تاجر خاتون تھیں۔حضرت صفیہ کا میدان جنگ میں دشمنوں کا قلع کم کر کے کامیابی کے جھنڈے گھاڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کا نوکری کرنا معیوب نہیں ہے۔مگر لباس کی تمیز کو نہ بھولاتے ہوئے قائم کردہ اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے اجازت دی گئی ہے۔
سورۃ احذاب آ یت ۳۳ :" اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ کرتی پھیرو"عورت کا خود کو چھپانا اتنا ہی اہم ہے جتنا زندہ رہنے کیلئے سانس۔مگر افسوس آج کا انسان اس واضح غلط فہمی کا شکار ہے کہ پردہ داری ایک غیر ضروری امر ہے دنیاوی مسائل پردہ داری سے کئی زیادہ توجہ کے طلب گار ہیں۔اور کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ صرف مولویوں تک محدود ہے اور انہی کی دقیانوسی باتیں ہیں۔ یہ باتیں تو ناولز میں ہی اچھی لگتی ہیں مگر بتاتی چلوں کہ قرآن پاک میں بیشتر مقامات میں پردے کا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کسی انسان کی ایجاد نہیں ہے۔چوں کہ خالق کا حکم ہے اس لئے غیر ضروری ہرگزہرگز نہیں ہے۔جب کوئی فن کار اپنے فن پارے کو اپنی مرضی کے بغیر ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دیتا تو وہ رب اپنے تخلیق کیے ہوئے بندوں کے بارے میں کیسے یہ پسند کر سکتا ہے۔خوش رہیں حدود کو عبور نہ کرتے ہوئے بھی ہم زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔خدا آپکا حامی و ناصر ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

Sidra Ali Shakir
About the Author: Sidra Ali Shakir Read More Articles by Sidra Ali Shakir: 17 Articles with 16675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.