ذکر دو اچھی تقریبات کا!

ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر

پچھلے دنوں مجھے دو عمدہ تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ دونوں تقریبات علمی نوعیت کی تھیں ۔ایک مذاکرے کا انعقاد معروف دفاعی تجزیہ کار اور کالم نگار محمد عامر رانا نے کیا تھا۔عامر رانا پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز نامی ادارے کے روح رواں ہیں۔ لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ہونے والے اس مذاکرے میں سینئر صحافی، اساتذہ اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوان مدعو تھے۔ دوسری تقریب کا اہتمام جماعت اسلامی کے زیر انتظام چلنے والے دار ارقم سکولز اور علماء اکیڈمی نے کر رکھا تھا۔ یہ دار ارقم سکولوں کی خواتین اساتذہ کا ٹریننگ سیشن تھا۔ یہ سیشن جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید پراچہ صاحب کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی مہربانی کہ انہوں نے مجھے ایک خصوسی لیکچر کے لئے مدعو کیا ۔ مختلف اسکولوں کی سو کے قریب با حجاب استانیاں اس سیشن میں موجود تھیں۔ ان اساتذہ سے خاندانی نظام کی مضبوطی ، بچوں کی تربیت، میڈیا کے استعمال اور اس کے اثرات پر بات کر کے بہت اچھا لگا۔ دونوں تقریبات میں سوشل میڈیا اور اس کے اثرات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔

پیس انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس میں شرکاء نے سوشل میڈیا سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات بیان کئے۔ سوشل میڈیا کے استعمال اور نوجوان نسل پر اس کے اثرات پر رائے دی۔ میری بھی سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میں رائے ہے، جو گزشتہ کئی برسوں میں تشکیل پائی ہے۔ میں نے بھی دونوں تقریبات میں اپنی ناقص رائے کا اظہار کیا۔ عرض کیا کہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اس کی اہمیت مسلم ہے۔ میرا تعلق شعبہ تدریس سے ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوشل میڈیانہایت مفید شے ہے۔یہ طالب علموں کے ساتھ رابطہ کاری کا آسان ذریعہ ہے۔ شاگردوں کو کوئی پیغام دینا ہو تو اساتذہ نے واٹس ایپ گروپس بنا رکھے ہیں۔ ایک پیغام فوری طور پر اور بیک وقت تمام طالب علموں تک پہنچ جاتا ہے۔ کوئی اچھا مضمون ہو ، کوئی ای۔ بک، کوئی تحقیقی ڈاکیومنٹ وغیرہ، سوشل میڈیا کی وجہ سے اس کی ترسیل نہایت اچھے طریقے سے ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی خبر اور طلاع بھی فوری طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت سے قطع نظر، اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔
 
مثال کے طور پر میرا مشاہدہ ہے کہ سوشل میڈیا ہمارے قیمتی وقت کے زیاں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ گزرے زمانے میں یہ بات ٹیلی ویژن کے بارے میں کہی جاتی تھی۔ لیکن آج کل ہم سب کے ہاتھوں میں چوبیس گھنٹے موبائل فون ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سوں کے پاس دو موبائل بھی ہوتے ہیں۔ فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام اور پتہ نہیں کون کون سے پلیٹ فارموں پر ہمارے اکاونٹس موجود ہوتے ہیں۔ سینکڑوں ،ہزاروں دوسرے اکاونٹس کے ساتھ ہمارے اکاونٹس جڑے رہتے ہیں۔ فرینڈز اورsubscribers کی لمبی لمبی فہرستیں ہوتی ہیں۔ ہر چند منٹ کے بعد ہم ان اکاونٹس کو دیکھتے ہیں۔اپنی تصویریں اور تحریریں اپ لوڈ کرنے اور دوسروں کی پوسٹس دیکھنے میں روزانہ کئی گھنٹے ضائع کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ ہمارے بچے اور نوجوان دن میں کئی کئی گھنٹے موبائل فون کے ساتھ گزارتے ہیں۔ گھنٹوں ان کی نظریں موبائل میں گڑی رہتی ہیں۔ دوسروں کی پوسٹس ، تصویریں، ویڈیوز دیکھ کر وہ نہ صرف اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ بلکہ ذہنی اور جسمانی عوارض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سوشل میڈیا کا ایک خاص حد سے زیادہ استعمال ذہنی دباو، ہیجا ن اور اضطراب کا باعث بنتا ہے۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کو دکھاوے اور ریا کاری کا عادی بنا رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ رویہ نہایت عام ہو چلا ہے کہ اپنے کھانے پینے، گھومنے پھرنے ، کسی معروف شخصیت سے ملنے، یا کسی بھی سرگرمی کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دی جاتی ہے۔ پھر دوست احباب کے تبصروں اور لائیکس کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم آہستہ آہستہ دنیا دکھاوے کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے صارفین دوسروں کی پوسٹس دیکھ دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بہت سوں کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی دوڑ میں اپنے دوست احباب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ رفتہ رفتہ ان میں ہیجان اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔

چند دن پہلے ایک میڈیکل ڈاکٹر بتا رہے تھے کہ وہ چھوٹے بچے جو گھنٹوں کے حساب سے گردن جھکائے موبائل پر مختلف ویڈیوز وغیرہ دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں، ان کی نظر کمزور ہو جاتی ہے۔ گردن کو گھنٹوں ایک ہی زاویے سے جھکائے رکھنے سے گردن کی ہڈی میں درد اور کمزوری کی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں۔ سکول ،کالج ، یونیورسٹی کے طالب علم اپنا بہت سا وقت سوشل میڈیا کے ساتھ ضائع کرتے ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے جس زمانے میں، میں نے پی۔ایچ۔ڈی کی، میرا سوشل میڈیا سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت برق رفتاری سے میں نے یہ ڈگری مکمل کر لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ نیوز میڈیا پر کل وقتی نوکری کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف سرکاری اور نجی جامعات میں پڑھانا ، اور کالم لکھنا بھی میرے مشاغل میں شامل تھا۔ یہ سب کام ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ وجہ یہ کہ میرے پاس وقت ہوا کرتا تھا۔چند برس پہلے میری ایک شاگرد نے میرے ایک دو سوشل میڈیا اکاونٹ بنا دئیے۔ اب بھی میرے اکاونٹس وہی دیکھتی ہے۔اس کے باوجود مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے کئی گھنٹے بلا وجہ برباد ہو جاتے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے میرے پڑھنے لکھنے کی عادات پر منفی اثر پڑا ہے۔

گزشتہ کئی سالوں میں ، میں نے دیکھا ہے کہ میرے جتنے شاگرد زندگی کی دوڑ میں آگے نکلے اور انہوں نے قابل ذکر کامیابیاں سمیٹیں، ان سب نے اپنے وقت کا بہتر استعمال کیا۔ بیشتر نے اپنا وقت سوشل میڈیا پر برباد نہیں کیا۔ مثال کے طور پر میرا کوئی شاگرد یا جاننے والا سی۔ ایس۔ ایس کا امتحان پاس کرتا ہے، تو میں ضرور اس کے معمولات معلوم کرتی ہوں تاکہ یہ معلومات اپنے ان شاگردوں کے ساتھ شیئر کر سکوں جو سی ایس ایس کرنا چاہتے ہیں۔ یقین جانئے کم و بیش سب سی ۔ایس ۔ایس کرنے والے گھنٹوں کتابیں پڑھتے ہیں۔ مہینوں، بلکہ سالوں سوشل میڈیا نامی عفریت سے دور رہتے ہیں۔ یہی حال ان شاگردوں کا ہے جو بیرون ملک کو ئی نہ کوئی سکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ نوجوان اگر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اپنا نام بنانا چاہتے ہیں تو ان کے لئے لازمی امر ہے کہ وہ وقت کی قدر کریں۔ اپنا و قت اچھی کتابیں پڑھنے میں صرف کریں۔ فارغ وقت میں کوئی ہنر سیکھیں۔ اخبارات کے اچھے آرٹیکلز کو پڑھنا معمول کا حصہ بنائیں۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ آج کے نوجوان وقت کی اہمیت سمجھنے کو تیار نہیں۔ میرے اپنے خاندان میں کچھ بچے ہر روز کئی گھنٹے موبائل اسکرین کو دیکھتے گزار دیتے ہیں۔

یہ عادت صرف نوجوانوں تک محدود نہیں ہے۔ میری عمر کے لوگ بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے عادی ہو تے جا رہے ہیں۔ لازم ہے کہ ہم اپنے معمولات حیات میں تبدیلی لائیں۔ موبائل نامی شے کو ہر وقت ہاتھ میں پکڑے رہنے سے گریز کریں۔ ایک حد سے زیادہ کسی بھی شے کا ہماری زندگی میں شامل ہوجانا اچھا نہیں ہے ۔ سوشل میڈیا کو ضرورتا استعمال کیا جائے تو یہ نہایت فائدہ مند چیز ہے۔ ضرورت سے زیادہ استعمال بربادی کا باعث ہے۔ یہ بربادی وقت کی بھی ہو سکتی ہے۔ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کی بھی ۔ اور ہمارے باہمی تعلقات کی بھی۔
 

Sidra Malik
About the Author: Sidra Malik Read More Articles by Sidra Malik: 164 Articles with 103568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.