ملک غلام محمد(تیسرے گورنر جنرل) ٭٭٭ قسط دوم٭٭٭ محمد علی جناح سے ملاقات۔۔ بیورکریٹ سے پہلے وزیر ِخزانہ پاکستان

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب4٭
ملک غلام محمد کی بحیثیت پہلے وزیر ِخزانہ ِ پاکستان گراں قدر خدمات سے اِنکار نہیں کیا جا سکتا

ملک غلام محمدپہلے وزیر ِخزانہ پاکستان

گورنر جنرل ملک غلام محمد (1895ء ۔ 1956ء)
تحقیق و تحریر:عارف جمیل

محمد علی جناح سے ملاقات۔۔ بیورکریٹ سے پہلے وزیر ِخزانہ پاکستان٭ قسط دوم٭




ہندوستان میں جب انگریزوں کی حکومت تھی تو یہ اُنکا حکم تھا کہ گرمیوں کے مہینوں میں تمام سرکاری افسر بمعہ اپنے اپنے سٹاف کے ہندوستان کے ٹھنڈے شہروں میں دفتر لگائیں۔ لہذا اس حکم کے مطابق جب غلام محمد کو بھی گرمیوں میں شملہ جانا پڑتا تو اُنکے ساتھ بادشاہ بیگم اور بچے بھی شملہ جاتے تھے۔ اُنھیں اپنی بیٹی اقبال سے تو سب سے زیادہ پیار تھا اور اگر وہ کوئی بات کہتیں تو غلام محمد اُ نکی اُس بات کو ضرور مانتے۔ اس کے برعکس انعام سے اُنھیں پیار تو ضرور تھا لیکن چونکہ انعام کا ذہنی معیار غلام محمد کے مطابق وہ نہیں تھا جو ہونا چاہیئے تھا لہذا ا س پریشانی میں جب غلام محمد انعام کو سمجھاتے یا غصہ کرتے تو انعام اچھا محسوس نہ کرتے اور آئندہ غلام محمد کے سامنے کئی روز تک نہ آتے۔ بہر حال اسطرح وقت گزرتا رہا۔ 1938ء میں غلام محمد نے اپنی بیٹی اقبال کی شادی دہلی کے ایک تاجر لڑکے حسین ملک سے کر دی۔
داماد حسین ملک دہلی میں مسلم لیگ کے سرگرم ارکان میں سے تھے اور لیاقت علی خان سے اُنکے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ لیاقت علی خان نے ہی محمدعلی جناح سے حسین ملک کی ملاقات مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں کروائی۔ اُن دِنوں غلام محمد بھی دہلی میں ہی تھے لہذا حسین ملک نے کوشش کر کے اپنے سُسر کی ملاقات بھی محمد علی جناح سے کروا دی۔ اُس روز تو حال احوال سے زیادہ کوئی خاص بات چیت نہ ہوئی لیکن اس ملاقات کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ غلام محمد اُنکی شخصیت کے معتقد ہو گئے۔پھر جب محمد علی جناح گرمیوں میں مرکزی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے شملہ کے چھوٹے سے اسٹیشن پر پہنچے تو غلام محمد آگے اُنکے استقبال کیلئے موجود تھے۔ چونکہ وہاں زیادہ لوگ استقبال کیلئے نہیں آئے تھے لہذا غلام محمد نے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے محمد علی جناح کو اپنی باتوں سے کچھ اس طرح قائل کر لیا کہ پھر آئندہ مستقبل میں دونوں کے آپس کے تعلقات مضبوط ہونے لگے۔
دوسری جنگ ِ عظیم کے آغاز میں غلام محمد کو حکومت ِ ہند نے وار سپلائز ڈیپارٹمنٹ میں کنٹرولر جنرل پرچیز اور1941ء میں ایڈیشنل سیکرٹری مقرر کیا۔ اس زمانے میں ماتحت افسروں کے مُنہ پر فائلیں مارنا اور کمرے سے نکال دینا اُن کیلئے معمولی بات تھی۔ اس سلسلے میں ہندو، مسلم، سکھ،عیسائی میں کوئی تمیز نہیں برتی جاتی تھی۔ کبھی تو انگریز افسر بھی زد میں آ جاتے۔ مگر جنگ اس قدر خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی تھی کہ اتنے اہم شعبے کیلئے اُنھیں غلام محمد جیسے مستعد اور برق رفتار سول افسر نہ صرف گوارا تھے بلکہ ناگزیر تھے۔ اس سلسلے میں اُنھیں حکومت ِ برطانیہ نے سی۔ آئی۔ای (C-I-E) کا خطاب بھی دیا تھا۔ بعدازاں جون 1946ء میں اُ نھیں حکومت ِ برطانیہ کی طرف سے ک۔سی۔آئی۔ای (K-C-I-E)کا خطاب بھی مل گیا۔ 2 194 ء کے آخر میں غلام محمد کی قابلیت کی شہرت اُنھیں ریاست حیدر آباد دکن لے گئی۔ جہاں نظام ِ دکن کے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے نہ صرف مالی امور بلکہ ریاست حیدر آباد کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔ غلام محمد 1945ء تک وہاں رہے اور پھر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر ہندوستان کی لوہے اور سٹیل کی سب سے بڑی صنعت ٹاٹا انڈسٹریز کے ڈائریکٹر منتخب کر لیئے گئے۔
مئی 1946ء میں کیبنٹ مشن نے پہلے کسی حد تک مسلمانوں کی طرف سے الگ ریاست کا مطالبہ منظور کرتے ہوئے مسلم لیگ کے رہنماؤں کو تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن تقریباً دو ماہ بعد ہی اُسے پھر گئے جس پر مسلم لیگ کے رہنماؤں اور حکومت ِ برطانیہ میں ٹھن گئی۔ پارٹی نے محمد علی جناح کی قیادت میں فیصلہ کیا کہ مسلم لیگ کے رہنماء حکومت ِ برطانیہ کی طرف سے دیئے گئے خطابات کو واپس کر دیں گے، لیکن غلام محمد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اُن کے اس فیصلے پر محمد علی جناح نے اُنکے ساتھ کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ کیا بلکہ اکتوبر 1946ء میں ہندوستان میں بننے والی عبوری حکومت میں محمد علی جناح نے غلام محمد اور چوہدری محمد علی کے مشورے سے لیاقت علی خان کو وزارت ِ خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کیلئے کہا۔ پھر تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کے جلد قیام میں یہی وزارت زیادہ کام آئی کیونکہ اس وزارت کی وجہ سے مسلم لیگ کو مسلمانوں کی طرف سے عوامی بجٹ پیش کرنے پر بہت سراہا گیا۔ جبکہ ہندؤ تاجروں نے اس بجٹ کی وجہ سے جس میں ٹیکس چوری روکنے کیلئے اقدامات کیئے گئے تھے کانگرسی لیڈروں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ مسلمانوں کے رہنماؤں سے مل کر فوراً کوئی حل نکالا جائے ورنہ وہ برباد ہو جائیں گے۔
قیام ِپاکستان کے اعلان کے بعد جب محمد علی جناح نے غلام محمد کو پہلے وزیر ِ خزانہ بننے کی تجویز پیش کی تو غلام محمد اُس وقت ٹاٹا انڈسٹریز سے ایک اچھی خاصی ماہوار تنخواہ وصول کر رہے تھے۔ غلام محمد نے جب اس فیصلے کا ذکر ٹاٹا انڈسٹریز کے مالکان سے کیا تو اُنھوں نے غلام محمد کی صلاحیتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُنھیں مزید زیادہ تنخواہ دینے کا فیصلہ کیا اور اسکے لیئے بمبئی کے پارسی سیٹھ سرہومی موڈی نے اُنھیں بڑی ترغیب بھی دی۔اس کے باوجود غلام محمد نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر پاکستان کی پہلی کا بینہ میں وزیر ِ خزانہ و اقتصادی امور کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس سے پہلے اُنھوں نے حکومت ِبرطانیہ کی طرف سے دیئے گئے دونوں خطابات بھی واپس کیئے۔ دِلچسپ بات یہ تھی کہ جس وقت اُنھوں نے وزارت کا عہدہ سنبھالا اُس وقت بھی نہ تو غلام محمد مسلم لیگ کے بنیادی رکن تھے اور نہ ہی اُنکا کوئی سیاسی پس منظر تھا۔بلکہ غلام محمد تو صرف ایک تجربہ کار بیوروکریٹ تھے۔ بہرحال 7ِ جون 1948ء کو غلام محمد مجلس ِ دستور ساز کے رُکن بن گئے۔
جب بھی دنیا کے نقشے پر کوئی نیا ملک معرض ِ وجود میں آتا ہے تو اُس ملک کو کسی حد تک تو ابتدائی مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن پاکستان کیلئے ذرا زیادہ ہی کٹھن امتحان تھا کیونکہ ایک تو ہندو قوم نے ہندوستان کی اس تقسیم کو دِل سے قبول ہی نہیں کیا تھا اور دوسرا مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان تقریباً ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ تھا اور درمیان میں ہندوستان جسکی وجہ سے دونوں صوبوں میں بے یک وقت بہتر انتظام کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ غلام محمد کو بھی اس کا علم تھا کہ اُنھیں اس نئے ملک کیلئے اپنے ماضی کے تمام تجربوں کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کام کرنا پڑے گا۔
اُنھوں نے یکم ستمبر 1947ء کو کراچی میں امریکہ کے ایک نمائندے سے غیر رسمی گفتگو کر کے مستقبل میں پاکستان کیلئے قرضے اور امداد کے متعلق حکومتی سطح پر مذاکرات کا طریقہ دریافت کیا جس کے متعلق اُنھیں امریکی نمائندے کا مُثبت جواب ملا اور جب غلام محمد نے اس ملاقات کے متعلق محمد علی جناح کو بتایا تو اُنھوں نے بھی غلام محمد کی تائید کرتے ہوئے پاکستانی حکام کو امریکی حکام سے گفت و شنید کا آغاز کرنے کیلئے کہا۔
پاکستان میں مرکزی بنک کے قیام میں چونکہ ابھی کچھ وقت درکار تھا۔ غلام محمدنے اس بات کو قرین احتیاط سمجھا کہ ریزرو بنک آف انڈیا کم و پیش ایک سال کیلئے پاکستان کے مالیاتی امور کا انتظام کرے اور پھر اس مسئلے پر محمد علی جناح اور لیاقت علی خان سے مشورے کے بعد ہندوستان کے ساتھ غلام محمد نے پہلا مالیاتی سمجھوتہ کیا جس کے تحت مرکزی بنک کے قیام تک ریزرو بنک آف انڈیا نے چار ارب روپے کیش بیلنس میں سے 75 کروڑ روپے پاکستان کو ادا کرنے تھے۔ بعد ازاں پاکستان کی معیشت تباہ کرنے کیلئے صرف 20کروڑ روپے ہندوستان نے نقد ادا کیئے اور بقایا رقم پاکستان حکومت پر یہ الزام لگاتے ہوئے ادا نہ کی کہ پاکستان 55کروڑ روپے کی رقم سے اسلحہ اور گولہ بارود خریدنا چاہتا ہے تاکہ کشمیر میں بھارت سے جنگ کے خلاف استعمال کر سکیں۔ حکومت ِ پاکستان کی مالی حالت ہندوستان کی طرف سے اچانک بقایا رقم روکنے سے کافی حد تک خراب ہو گئی۔ یہاں تک کہ بہت سے سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے ذخائر بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ غلام محمد جو کہ ایک جرآت مند شخصیت کے مالک تھے ان حالات میں ذرا بھی نہ گھبرائے۔
اُنھوں نے سب سے پہلے تو نظام ِ حیدرآباد دکن سے اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر غیر منقسم ہندوستان کی حکومت کے تمسکات مالیتی 25کروڑ روپے جو نظامِ حیدر آباد دکن کے قبضہ میں تھے 10ِ جنوری 1948 ء کو اُن سے حکومت ِ پاکستان کیلئے منتقل کروا لیئے۔جب اسکی خبر پریس میں چھپی تو اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دے دیا گیاتاکہ کہ کہیں پاکستان کی عوام ان حالات میں بد نظمی کا شکار نہ ہو جائے۔ اس کے بعد اُنھوں نے دوسرا کام یہ کیا کہ مرکزی بنک کا قیام جس میں ابھی تقریباً نو دس ماہ لگنے تھے چھ ماہ میں کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِ س سے پہلے 3ِ جنوری 1948 ء کو حکومت ِ پاکستان کی طرف سے نئے نوٹ و سکے جاری کروا کر انگریز دور کی کرنسی منسوخ کی۔
وزیر خزانہ غلام محمد بعدنے 28 ِ فروری 1948ء کو جب پاکستان کا پہلا متوازن بجٹ پیش کیا تو محمد علی جناح نے اُن کی قابلیت اور مہارت کا اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں گلے سے لگا لیا اور غیر تو اُنھیں فنانشل ویزرڈ (جادوگر) کہتے ہی تھے اُس دن محمد علی جناح نے بھی اُنھیں ویزرڈ کا خطاب دے دیا۔ دشمن جو قیام ِ پاکستان کی تقسیم کو نہ مانتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہچانے کے در پر تھے حیران رہ گئے کہ پہلا ہی بجٹ متوازن کیسے ہو گیا اور دوست خوش تھے کہ اس بجٹ کے نتیجے میں پاکستان کی تجارت، اقتصادیات اور بنکاری کے نظام کو تقویت ملے گی۔ پاکستان بھاری مشینوں کی درآمدی مشکلات کے باوجود کپڑے اور دیگر صنعتیں لگانے میں کامیاب و کامران ہوگا۔ اس بجٹ نے پاکستان کی بیرونی تجارت میں بھی اپنی عظمت کے پرچم نصب کر دیئے کیونکہ اس سے پہلے دُنیا بھر کے ماہرین ِاقتصادیات پاکستان کی اقتصادی صلاحیتوں کے منکر تھے۔
پاکستان کی معیشت 1949ء کے اختتام تک غلام محمد کی کوششوں سے کسی حد تک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی تھی اور پھر اسکے بعد کوریا کی جنگ کی وجہ سے جب بیرونی منڈیوں میں پاکستان کی زرعی اجناس کی مانگ اور قیمتیں بڑھ گئیں تو اسے بیرونی تجارت کا توازن بھی پاکستان کے حق میں ہو گیا جس سے غلام محمد نے مستقبل میں مزید فائدے اُٹھانے کی کی پالسیاں مرتب کرنی شروع کر دیں اور پھر ایسا وقت آیا کہ عالمی بنک و بھارت نے بھی پاکستانی سکے کی اہمیت اور قیمت کو تسلیم کر لیا۔
غلام محمد وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ کے سب سے بااختیار وزیر تھے۔ اس لیئے اُنھیں خزانے کے محکمے کے علاوہ دوسرے مسائل میں بھی شریک کیا جاتا تھا تاکہ اُن مسائل کے حل میں بھی اُن سے رہنمائی حاصل کی جاسکے۔ اسی سلسلے میں جب اپریل 1948ء میں حکومت ِہند نے پاکستان میں آنے والی نہر میں پانی کی رسد منقطع کر دی تو اُسے سنٹرل دوآب کا نہری نظام، دیپال پور کا نہری نظام اور ریاست بہاول پور کی نہری شاخ متاثر ہو گئی۔ پریشانی کے اس عالم میں حکومت ِ پاکستان نے اس مسئلے کے حل کیلئے پاکستان سے غلام محمد کی قیادت میں ایک وفد ہندوستان بھیجا جس نے 4ِمئی 1948ء کو چند شرائط پر حکومت ِ ہند سے معاہدہ کر کے نہری پانی کا مسئلہ حل کروا لیا۔ تاہم جولائی 1948 ء کو اُنھوں نے ایک بیان دیا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان اور بھارت کا مشترکہ گورنر جنرل بننے کی ناکامی کے سبب برصغیر میں پانچ لاکھ افراد کا قتل کروایا۔ جس پر برطانوی حکومت کی وزارت دولت ِ مشترکہ نے اِن الزامات کا جواب دیا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بے قصور ثابت کرنے کیلئے بعض اقدامات کی ذمہ داری خود قبول کر لی۔
غلام محمد 1949ء کے وسط میں لندن میں منعقد دولت ِ مشترکہ کے ممبر ممالک کے وزراء ِ خزانہ کی کانفرنس میں گئے۔ نومبر1950 ء میں غلام محمد دولت ِ مشترکہ کے ہی ممبر ممالک کے وزراء ِ خارجہ کی کانفرنس میں شرکت کیلئے سری لنکا کے دارلحکومت اور وہاں کے سب سے بڑے شہر کولمبو گئے جہاں "کولمبو پلان "وجود میں آیا۔ اس دوران ستمبر 1949ء میں غلام محمد بحیثیت وزیر ِخزانہ امریکہ بھی گئے اور مستقبل میں امریکہ کی طرف سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروا کر پاکستان واپس آئے۔ اُنھوں نے وہاں یہ بھی کوشش کی کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہِ امریکہ کیلئے جلد تاریخ حاصل کی جا سکے۔ اس دورے میں اُنکے ساتھ ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ غلام محمد نے بذریعہ ہوائی جہاز لندن سے نیویارک ایئر پورٹ پہنچنا تھا اور اسکی اطلاع پاکستانی سفارت خانے اور حکومت ِ امریکہ کے وزارت ِ خزانہ کے محکمے کو کر دی گئی تھی.لیکن جب غلام محمد نیویارک ایئر پورٹ پر پہنچے تو اُنھیں وی۔ آئی۔ پی کی حیثیت سے کوئی بھی لینے نہیں آیا ہوا تھا۔ لہذا امریکہ کے امیگریشن کے ڈیپارٹمنٹ نے اُنھیں بھی اُس قطار میں کھڑا کر دیا جس میں غیر امریکی کھڑے تھے۔ اُس وقت تو اُنھیں مجبوراً کھڑا ہونا پڑا لیکن اس پر اُنکے غصے کی بھی انتہاء ہو گئی اور کہنے لگے کہ امریکہ کا کوئی حکومتی نمائندہ پاکستان آیا تو اُس کے ساتھ اس سے بھی زیادہ بُرا سلوک کیا جائے گا۔ بہرحال اس اثناء میں پاکستانی سفارت خانے کے پروٹوکول سیکرٹری پہنچ گئے۔ جو شاید ہوائی جہاز کے انتظار میں کیف ِ ٹیریا میں چائے پینے چلے گئے تھے۔ بس پھر اُنکو دیکھتے ہی غلام محمد نے پہلے اُن سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی اور پھر اُنکی ایسی طبیعت صاف کی کہ وہی جانتے تھے۔
٭(جاری ہے)٭


Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 310013 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More