جمعہ نامہ : فلسفۂ ہجرت اور اسلامی سالِ نو

 

ارشادِ ربانی ہے: ’’اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بڑے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا ‘‘۔ اس آیت میں رب کائنات نے ہجرت کی ترغیب فرمائی اور مہاجرین کوخوشخبری سنائی ہے ۔ ہجرت میں تنگی سے کشادگی کا پیغام ہے اور جو لوگ اس کے لیے پیش قدمی کریں گے ان کی خاطر رب کائنات آسانیوں کا در کھول دے گا ۔ آگے یہاں تک کہا گیا کہ :’’اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے گا، پھر اس کو موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے لازم ہوگیا اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ یعنی اگر کوئی مہاجر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے قاصر رہے تب بھی اخروی و انعام و اکرام اور قدرو منزلت سے سرفزاز ہوگا۔ ناگزیر حالات میں مستقل دب کر کمزور بنے رہنے کے بجائے ایسے علاقے سے ہجرت کے بعد اپنی قوت کو مجتمع کرنے اور پھر سے مقابلے میں کھڑے ہونے کا حوصلہ فلسفۂ ہجرت میں مضمر ہےلیکن یاد رہے ہر نقل مکانی ہجرت نہیں ہے۔ ہجرت یہ ہے کہ مسلمان دین پر قائم رہنے کی خاطرایسے مقام پر منتقل ہوجائے جہاں وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکے پھر چاہے وہ اصحاب کہف کی طرح کسی غار ہی میں پناہ لیناکیوں نہ ہو ۔

ہجرت و جہاد کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مذکورہ بالا آیت سے قبل جہادِ اسلامی کے حوالے سے فرمانِ قرآنی ہے:’’مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اُس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے ۔ اُن کے لیے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ‘‘۔جہاد کی فضیلت بیان کرنے کے بعد ارشادِ حقانی ہے:’’جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے‘‘۔ اس آیت میں ہجرت سے گریز کرنے والوں کو وعید سنانے کے بعد یہ رخصت بھی دی گئی کہ:’’ ہاں جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے ‘‘۔

ہجرت کے حوالے سے عام طور صرف نبیٔ کریم ﷺ کے سفر ِمدینہ کا خیال ذہن میں آتا ہے حالانکہ سیرت کی کتابوں میں ہجرت حبشہ کا بھی تفصیل سےذکر ہے۔ اسلامی تاریخ میں حضرت ابراہیمؑ کا عراق سے ہجرت کر کے شام‘ مصر اور ارض مقدس کی طرف جانا اور پھر مکہ مکرمہ میں حضرت اسماعیل ؑ کی مدد سے مرکزتوحید کے قیام ذکر موجود ہے۔ ان کے بھتیجے سیدنا لوط ؑ نے پہلے تو اپنے چچا کے ساتھ رختِ سفر باندھا اور پھر کاعلاقہ سدوم کی جانب ہجرت فرمائی ۔ حضرت یعقوب ؑ اوران کے فرزند ارجمند یوسف ؑکی ہجرت مصر کی طرف تھی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے پہلی ہجرت مدین کے لیے کی اور پھر دوسری بار پوری قوم کے ساتھ اللہ کے حکم سے فلسطین کاسفر کیا ۔حضرت امام حسین ؓ کا کربلا کی جانب کوچ کرنا بھی اسی زرین سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان پاکیزہ نفوس نے دین کی خاطر دنیا کی ہر شئے داوں پر لگا دی یہاں تک کہ وطن چھوڑنا بھی گوارہ کرلیا ۔ یہ واقعات گواہ ہیں کہ ہجرت مسلمانوں کے لیے عروج وسربلندی اور فتح و نصرت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے نہایت بے سرو سامانی کے عالم ہجرت فرمائی مگر ایک قلیل عرصہ بعد فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ لوٹے اور مرکز توحید کوبتوں کی نجاست سے پاک فرمادیا۔

حضرت عمر ؓ نے اسلامی سال کےابتداء کی بابت مشورہ کیا تو چار رائے آئیں ۔ کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کے سال سے آغازچاہتے تھے۔ ایسے صحابہ بھی تھے جنھوں نے نبوت کے سال کی رائے دی ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ آپ ﷺ کی وفات کے سال سے ابتداء کی جائے اور ایک جماعت نے ہجرت کے سال سے آغاز کامشورہ دیا ۔ بحث ومباحثہ اور غور وخوض کے بعد فاروق اعظم ؓنے ولادت یا نبوت کی تاریخ میں اختلاف کے سبب اس رائے کو مسترد کردیا ۔ وصال ِ نبویؐ کے سال کو رنج وغم کے سبب نا مناسب قرار دے کر ہجرت والی تجویز کی توثیق فرمادی کیونکہ ہجرت نے حق وباطل کے درمیان واضح امتیاز پیدا کیا تھا۔ اسی سال سے نبی کریم ﷺ اور صحابہٴ کرام امن وسکون کے ساتھ بلاخوف وخطر پروردگار کی عبادت کرنے لگے تھےنیزدینِ اسلام کی نشرواشاعت کے مرکز مسجدِ نبوی کی بنیادبھی رکھی تھی ۔

اسلامی سن کا تعین ہوجانے کے بعد ابتدائی مہینے پر مشورہ ہوا توکسی نے رجب کا مشورہ دیا اور کچھ لوگوں نے رمضان کی فضیلت بیان کرکے اس کی وکالت کی۔ تیسری رائے محرم کی تھی کیونکہ اس مہینے میں حجاج کرام حج سے لوٹتے تھے اور چوتھی جماعت نے ربیع الاوّل کے مہینےسے سال کی ابتداء کا مشورہ دیاکیونکہ اسی ماہ میں ہجرت بھی ہوئی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے محرم الحرام کو ترجیح دی کیونکہ تقریباً دو سو سال سے زمانہٴ جاہلیت میں بھی یہی سال کا پہلامہینہ تھا ۔ اس لیے ہجرت کے سال سے شروع ہونے والی تقویم کا پہلا مہینہ محرم الحرام قرار پایا۔ اس طرح نظامِ سابقہ اپنی اصلی حالت پر باقی رہا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی پڑی ۔ ان واقعات سے اسلامی خلافت کے اندر نہایت توانا مشاورت کی روایت کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے جو جمہوری تماشے سے بدرجہا ممتاز اور ممیز ہے۔ اس میں شور غوغا سے اکثریت کی دھونس کو تھوپنے کے بجائے جذبات سے اٹھ کر اسلامی اقدارو وقار کے مطابق فیصلے کیے جاتے تھے۔ یہاں عوام کی آسانی کا خیال رکھتے ہوئے فلسفۂ ہجرت کو بھی ملحوظ خاطررکھا گیا ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448218 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.