میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب احادیث کا ہماری زندگی پر اثر کے عنوان سے جو سلسلہ میں نے شروع کیا ہے اس کے اب تک پانچ حصے آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی ہے آج اس سلسلے کا چھٹا حصہ یعنی حصہ ششم اپ تک پہنچارہا ہوں اج کی حدیث جامع ترمزی سے لی ہوئی ہے جس میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ " جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے "۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جامع ترمزی کی اس حدیث کا نمبر 1972 ہے اور اس کے راوی ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس حدیث کے مطابق جھوٹ بولنے والے شخص کے منہ سے جو بدبو نکلتی ہے وہ عام انسان کے سونگھنے سے بالاتر ہے اور اس کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ فرشتہ اس شخص سے ایک میل کے فاصلے تک دور چلاجاتا ہے کسی نے سرکار علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا مومن جھوٹ بول سکتا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بڑا ہی پیارا جواب ارشاد فرمایا جسے ہڑھ کر ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اہل ایمان کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا لیکن اگر کسی نے جھوٹ بولا تو وہ مومن ہو نہیں سکتا اب اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم کس جگہ کھڑے ہیں فی زمانہ جھوٹ اتنی شدت سے عام ہوگیا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں شیطان مردود نے یہ بات بٹھادی ہے کہ جھوٹ کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننا اور سمجھنا ہوگا کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں ؟ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کسی بھی بات کو اس کی حقیقت کے خلاف بیان کردینا جھوٹ ہے ہمارے یہاں عام طور پر جھوٹ ہر بات صحیح ثابت کرنے کے لیئے کھلے عام بولا جاتا یے اور بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ سچ بولنے والے کی بات پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے جتنا جھوٹ بولنے والے کی بات پر کر لیتے ہیں میرے پیارے یاروں جھوٹ بولنا سخت گناہ اور انسان کو تباہ کرنے والا عمل ہے جھوٹ بہت تیزی سے دوڑتا ہے اور بھاگتا یے لیکن ہمیشہ یاد رکھیئے کہ اپنی منزل پر صرف سچ ہی پہنچ پاتا ہے کیوں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں یوتے۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جھوٹ بولنے کی سزا اور اس کے انجام پر آپ لوگوں نے سینکڑوں کہانیاں اور قصے سنے ہوں گے اور دنیاوی اعتبار سے اپنی آنکھوں سے بھی جھوٹ کی سزا اور انجام کے معاملات دیکھیں ہوں گے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اگر کاروبار میں ترقی کرنی ہو تو ہمیں جھوٹ کا سہارہ لینا پڑتا ہے اگر نوکری میں پروموشن درکار ہو تو جھوٹ کا سہارہ لینا پڑتا یے کیوں کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ جھوٹ بولنے سے ہی سارے مسائل حل یوسکتے ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین لوگ تھے ایک کوڑھ کا مریض ایک گنجہ اور ایک نابینا اللہ تعالی نے ان کے پاس ایک فرشتہ کو بھیجا سب سے پہلے فرشتہ کوڑھ کے مریض کے پاس آکر پوچھتا ہے کہ تمہیں کیا پسند ہے ؟ تو اس نے کہا کہ اچھا رنگ اور جلد کیوں کہ کوڑھ ہونے کی وجہ سے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں فرشتہ نے جیسے ہی اپنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرا تو اللہ تعالی کے حکم سے اس کا رنگ بھی خوبصورت ہوگیا اور جلد بھی صاف ہوگئی جبکہ بیماری بھی جاتی رہی پھر کہا کہ تم کیسا مال پسند کرتے ہو تو اس نے کہا مجھے اونٹ پسند ہے تو فرشتہ نے اسے ایک اونٹنی جو حاملہ تھی دی اور کہا کہ اللہ تعالی اس میں برکت عطا کرے گا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد فرشتہ گنجے کے پاس جاتا ہے اس سے پوچھتا ہے کہ تمہیں کیا پسند ہے تو وہ کہتا ہے کہ عمدہ اور خوبصورت بال تاکہ میرا عیب ختم ہوجائے کہ لوگ میرے عیب کی وجہ سے مجھے پسند نہیں کرتے تو فرشتہ نے اپنا ہاتھ اس کے سر ہر پھیرا تو اللہ تعالی کے حکم سے اس کے سر پر خوبصورت بال آگئے پھر فرشتہ نے ہوچھا کہ کیسا مال تم ہسند کروگے تو اس نے کہا گائے تو فرشتہ نے اسے ایک حملہ گائے دی اور کہا کہ اللہ تعالی اس میں برکت عطا کرے میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد فرشتہ نابینا کے پاس جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تم کیا پسند کروگے ؟ تو اس نے کہا کہ میری آنکھوں کی روشنی مجھے واپس مل جائے میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی آنکھوں سے دنیا کو دیکھ سکوں تو فرشتہ نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالی کے حکم سے اس کی بینائی واپس اگئی اور وہ دیکھنے لگا تو فرشتہ نے پوچھا کہ تم کونسا مال پسند کرتے ہو تو اس نے کہا کہ بکری تو فرشتہ نے اسے بکریاں دیں اور کہا کہ اللہ تعالی اس میں برکت دے گا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کچھ ہی عرصہ میں اتنی برکت ہوگئی کہ کوڑھ کے مریض کی اونٹنی سے بچے ہوئے اور پوری وادی اونٹوں سے بھر گئی جبکہ گنجے کی گائے سے بچے ہوئے اور گائیوں کے ریوڑ کے ریوڑ ہوگئے اور نابینا کی بکریوں کے بچے ہوئے اور بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ ہوگئے اب اللہ تعالی نے ان کا امتحان لینے کی غرض سے فرشتہ کو ایک مسکین شکل والے آدمی کے روپ میں بھیجا تاکہ دیکھ سکے کہ ان کا رویہ کیسا ہے میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے فرشتہ کوڑھ کے مریض کے پاس جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ میں ایک مسافر ہوں اور مسکین ہوں سفر کا سارا سامان و اسباب ختم ہوچکا ہے اللہ تعالی کے سوا اب کوئی سننے والا نہیں میں تم سے اس ذات کا واسطہ دیتا ہوں جس نے تمہیں اتنا خوبصورت رنگ اور خوبصورت جلد دی ہے مجھے ایک اونٹ دے دو تاکہ راہ سفر میں آسانی ہوجائے اور میں سفر کی ضروریات پوری کرسکوں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے فرشتہ سے کہا کہ میرے پاس اور بہت سے کام ہیں تمہارے لئے گنجائش نہیں تو اس فرشتہ نے کہا کہ میں تمہیں جانتا ہوں تم کوڑھ جیسے مرض میں مبتلہ تھے اور فقیر کی دعا سے تمہیں اللہ تعالی نے اتنا مال دیا تو اس نے کہا کہ ایسا نہیں ہے یہ مال و دولت تو میرے پاس نسل در نسل چلی آرہی ہے تب فرشتہ نے کہا کہ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالی تجھے واپس اپنی پچھلی حالت میں لے آئے گا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد وہ فرشتہ روپ بدل کر گنجے کے پاس پہنچتا ہے اور ساری باتیں وہی دہراتا ہے اور اس نے بھی کچھ دینے سے انکار کیا تو اس سے بھی یہ ہی کہا کہ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالی تجھے واپس اپنی پرانی شکل میں لوٹادے اور پھر آخر میں وہ فرشتہ نابینا کے پاس پہنچتا ہے اور جب اس سے ساری بات کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ہاں میں اندھا تھا اور اللہ کے حکم سے کسی کے ہاتھ لگانے سے میری بینائی آگئی تھی تم جو چاہو اس مال میں سے لے سکتے ہو یہ سب اسی کا صدقہ ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کی بات سن کر فرشتہ نے کہا کہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیئے یہ تو اللہ تعالی کی طرف سے ایک امتحان تھا جس میں تم سرخرو ہوئے جبکہ باقی دونوں اشخاص اس امتحان میں ناکام ہوگئے ۔( صحیح البخاری ) تو میرے معزز یاروں یہ یے جھوٹ بولنے اور اپنے بات سے پھر جانے کا انجام فی زمانہ ہمارے ارد گرد کئی لوگ موجود ہیں جنہیں اللہ تعالی نے بیشمار مال و دولت اور ضروریات زندگی کی ہر نعمت سے نوازہ ہوا ہوتا ہے لیکن وہ اسے اپنی محنت اور کوشش کا ثمر کہتے ہیں۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایسے لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کی محنت اور کوشش کے باوجود اگر اللہ تعالی کی مرضی منشاء اور مصلحت شامل نہ ہوتی تو یہ سب کچھ نہ ہوتا دنیا میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو دن رات محنت کرتے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہوتا ہے کیوں کہ اللہ تعالی کی مرضی اور منشاء ان کے لئے کچھ اور ہوتی ہے اللہ رب العزت جس حال میں بھی رکھے صرف سچ کے ساتھ چلیں اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کریں کہ یہ ہی ایک اہل ایمان مومن کی پہچان ہے نشانی ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سرکار علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ کو لازم پکڑو کہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی یے اور جب انسان سچ پر یکسوئی کرلیتا ہے سچ کی کوشش میں رہتا ہے تو اللہ تعالی کے یہاں اس کانام سچے لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کا راستہ دکھاتا یے جب انسان جھوٹ پر اکتفا کرکے اس کی کوشش میں لگ جاتا ہے تو اللہ تعالی کے یہاں اس کانام جھوٹوں میں لکھ دیاجاتا ہے (صحیح البخاری ،صحیح مسلم )۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں ایک رواج اور بھی پایا جاتا ہے کہ اکثر لوگوں کی آپس کی محفلوں میں جب ہنسی مذاق کیاجاتا ہے تو وہاں جھوٹ کا بولنا لازم و ملزوم ہوتا ہے اور وہ لوگ وہاں پر موجود دوستوں میں کسی ایک کو نشانہ بناکر صرف ہنسی مذاق کی خاطر جھوٹ پر جھوٹ بول کر دوسروں کو ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں یاد رکھیئے جھوٹ صرف جھوٹ ہے اگر وہ ہنسی مذاق می بھی بولا جائے تو بھی حرام ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے یہاں اکثر مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو جب وہ روتے ہیں تو چپ کروانے کی کوشش میں کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ دیکھو باہر بابا آیا ہے وہ اٹھاکر لے جائے گا یا کہتی ہیں کہ اچھا چپ ہوجائو ورنہ بھوت آجائے گا تو یہ بھی جھوٹ میں شمار ہوگا اور عورتوں کو اس سے بچنا چاہیئے مطلب یہ بات ثابت یوتی یے کہ جھوٹ مذاق میں بولا جائے یا سنجیدگی میں کسی طرح بھی حلال نہیں ہے اور اس کا انجام سوائے بربادی کے کچھ بھی نہیں امام احمد نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان اس وقت تک پورا اور مکمل مومن ہو نہیں سکتا جب تک وہ جھوٹ کو ترک نہ کردے چاہے وہ مذاق میں ہی کیوں نہ ہو ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب ایک سوال اور اتا ہے کہ جھوٹ ایک کبیرہ گناہ ہے تو کیا اسلام میں کہیں جھوٹ کی اجازت بھی دی گئی ہے ؟ تو اس سلسلے میں ایک حدیث پیش خدمت ہے حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کبھی نہیں سنا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نےجھوٹ بولنے کی اجازت دی ہو سوائے تین مواقعوں پر آپ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم فرماتے تھے کہ ایک وہ شخص جو کسی کی مصالحت کراتے ہوئے جھوٹ بولے ایک وہ شخص جو جنگ کے دوران جھوٹ بولے اور بیوی گفتگو کرتے ہوئے شوہر سے اور شوہر بیوی سے جھوٹ بولے تو میں ان لوگوں کو جھوٹا نہیں مانتا ( ابودائو ، کتاب الادب ، صحیح مسلم )۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں معلوم یہ ہوا کہ جھوٹ بولنے کی اجازت عام طور پر نہیں دی گئی اور جن تین صورتوں کا ذکر مذکورہ حدیث میں ہے وہ مخصوص اور استشنائی صورتیں ہیں لوگوں کے درمیان مصالحت کے لئے جھوٹ بولنے کا مطلب یہ یے کہ ایک شخص دوسرے تک وہ بات پہنچائے جس سے ان کے درمیان ہونے والی تلخیوں کو دور کیا جاسکے اور خوسگواری قائم ہو چاہے وہ بات اس نے دوسرے سے سنی ہو یا نہیں اسی طرح شوہر اور بیوی کی گفتگو میں جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر بیوی سے یا بیوی شوہر سے یہ کہے کہ میں تم سے بہت پیار کرتا یا کرتی ہوں اب چاہے دل میں ایسا کچھ ہو یا نہیں لیکن ازواجی زندگی خوشگوار بنانے کے لئے ایسے کرنے میں حرج نہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جنگ میں جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان فوجی اپنے سپاہیوں سے ایسی بات کرے جس سے ان میں حوصلہ بیدار ہو اور انہیں اپنی طاقت پر پورا بھروسہ آجائے اور دشمن دھوکے میں پر جائے ۔لہذہ ان تین مواقعہ پر جھوٹ بولنے کی اجازت پر غالبا سارے علماء متفق ہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اللہ کی قسم کھاکر کہو کہ تم کو مجھ سے محبت ہے ؟ تو عورت نے کہا کہ تم نے قسم دے کر پوچھا ہے تو میں تم سے صحیح بات کروں گی کہ مجھے تم سے زرا بھی محبت نہیں ہے میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں عورت کی یہ بات سن کر اس شخص کو غصہ آگیا اور اس نے اس عورت کو طلاق دے دی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو بلوایا اور ہوچھا کہ کیا تم نے اپنے شوہر سے یہ کہا کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے ؟ تو عورت نے کہا کہ اے امیرالمومنین اس نے مجھے قسم دے کر پوچھا تو میں جھوٹ کیسے بولتی ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ایسے موقع ہر تمہیں جھوٹ بولنا چاہیئے تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ " تمام خاندانوں کی بنیاد محبت پر قائم نہیں ہوتی لیکن لوگ اسلامی تعلیمات اور خاندانی روابط کی وجہ سے ساتھ رہتے ہیں ۔" میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول میں اگر آپ غور کریں تو بڑی حکمت اور دانائی پائی جاتی ہے یعنی وہ جوڑے واقعی خوش قسمت ہوتے ہیں جن کے درمیان باہمی اور سچی محبت پائی جاتی ہو ورنہ عام طور پر ایسے جوڑے پائے جاتے ہیں جن میں مزاجی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی سرپرستوں کے ذریعے وہ نکاح کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں لیکن ایک عرصہ گزرجانے کے باوجود ان کے درمیان محبت پروان نہیں چڑھتی قران کی تعلیم یہ ہی ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک دوسرے کو اگر ناپسند کرتا ہو تو بھی اسے اظہار ناپسندیدگی سے اجتناب کرنا چاہیئے اور آپس میں خوشگوار تعلق رکھنا چاہیئے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں معلوم یہ ہوا کہ میاں بیوی کے رشتے میں صرف اس لئے کہ دونوں کے درمیان خوشگوار زندگی ہو اور تعلق اچھا رہے تو جھوٹ بول کر اظہار محبت ظاہر کرنا گناہ نہیں ہے میرے معزز پڑھنے والوں یہ بات ہر اہل ایمان مسلمان کو معلوم ہے اگر نہیں تو ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالی کے حکم سے ہمارے ساتھ فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں جو ہمارے ہر عمل کو اللہ تعالی کی بارگاہ تک اور سرکار علیہ وسلم کی بارگاہ تک پہنچانے کا کام سر انجام دیتے ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم کوئی نیک کام کرتے ہیں تو وہ بھی اللہ تعالی کی بارگاہ میں پہنچادیاجاتا ہے اور اگر کوئی گناہ سرزرد ہوجائے تو وہ بھی اور اگر ہم درود پاک یا کچھ بھی سرکار علیہ وسلم کو پڑھکر پیش کرتے ہیں یا آپ علیہ وسلم کی کسی سنت پر عمل کرتے ہیں تو وہ فرشتے آپ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کردیتے ہیں یعنی پہنچادیتے ہیں تو پھر ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیئے جس کی وجہ سے ان فرشتوں کو تکلیف ہو جیسے کہ آج کی ہماری حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ جھوٹ بولنے والے کے منہ سے اتنی شدید بدبو آتی ہے کہ فرشتے ایک میل دور چلے جاتے ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی حدیث سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جھوٹ ایک کبیرہ گناہ ہے اس کی عادت سوائے بربادی کے کچھ بھی نہیں ہے ہمیں ہر جگہ اور ہر موقع پر اس سے بچنا چاہیئے چاہے کتنی ہی مشکل ہو پریشانی ہو یا نقصان کا اندیشہ ہو سچ کے ساتھ ہی رہنا ہوگا اس میں برکت بھی یے بھلائی بھی ہے اور یہ اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا پسندیدہ عمل بھی ہے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے دلوں میں جھوٹ سے نفرت اور سچ سے محبت پیدا کردے اور یہ ہمیشہ قائم رہے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلیہ وسلم۔
|