غصہ اور اس کے اثرات

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
دینی علم کے حصول کے خوہشمند لوگ اور اولیاء کرام بزرگان دین کے بارے میں پڑھنے والوں کے لیئے حکیم افلاطون کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں افلاطون سقراط کا شاگرد تھا انہوں نے اپنے علم اور تجربات کی بنیاد پر ایسی ایسی باتیں ہم لوگوں کے لیئے کہی ہیں جنہیں ہمارے مفسرین اور لکھنے والوں نے اقوال کی شکل میں محفوظ کرکے اپنی اپنی کتابوں میں آتی قیامت تک کے اہل ایمان مسلمانوں کے لیئے محفوظ کرلیئے ہیں افلاطوں کا ایک قول میں جب بھی پڑھتا ہوں مجھے اپنے نفس کی تربیت میں اور اپنے آپ کو غصہ کے وقت قابو میں رہنے میں بڑی مدد ملتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حکیم افلاطون فرماتے ہیں کہ " اپنی باتوں میں غصہ کی مقدار اتنی رکھو جتنی کھانے میں نمک کی ہوتی ہے اگر متوازن ہے تو ہاضمہ کے لیئے صحیح ہوتا ہے اور اگر کمی بیشی ہوجائے تو یہ ہی نمک ہاضمہ کے لیئے فاسد ہوجاتا ہے " آپ انداہ لگایئے کہ افلاطون نے غصہ کی اہمیت اور حیثیت دونوں کا اپنے اس قول میں خلاصہ فرمادیا اور واضح کہ دیا کہ غصہ انسان کے لیئے وبال جان ہے اور اسی لیئے غصہ کو حرام کہا گیا ہے غصہ کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث جس کا نمبر ہے 6114
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”طاقتور وہ نہیں جو کشتی میں دوسرے کو پچھاڑنے والا پہلوان ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے“۔  
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی قوت جسم کے کسی عضو کے اندر طاقت کا ہونا نہیں ہے بلکہ حقیقی طاقت وہ ہے کہ غصے کے وقت اور اس کی شدت کے وقت اپنے نفس کا مجاہدا کرکے اس پر قابو پالے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے اپنے نفس پر قابو ہے اور شیطان پر غلبہ حاصل ہے اسی طرح سورہ العمران کی آیت 134 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مفسرین نے اس آیت کی تفصیل کا یہ خلاصہ کیا ہے کہ اللہ تعالی نے اہل جنت کا وصف بیان کیا ہے کہ وہ سختی میں آسانی میں خوشی میں غمی میں تندرستی میں بیماری میں یعنی ہر حال میں وہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں کوئی انہیں اللہ تبارک و تعالی کی اطاعت سے روک نہیں سکتا یہ وہ لوگ ہیں جو غصہ کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں کی برائیوں سے درگزر کرنے والے ہیں
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں غصہ پر قابو پانا اور غصہ کو پی جانے کے بارے میں کئی روایات ہمیں ملتی ہیں اللہ تبارک و تعالی ایک جگہ ارشاد فرماتا ہے کہ اے ابن آدم ! اگر غصہ کے وقت تو مجھے یاد رکھے گا یعنی میرے حکم کی پیروی کرتے ہوئے غصہ کو پی جائے گا تو میں بھی غصہ کے وقت تجھے یاد رکھوں گا یعنی ہلاکت کے وقت تجھے ہلاکت سے بچا لوں گا ( ابن ابی حاتم ) حدیث میں آیا یے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کو غصہ اگیا تو آپ بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے کسی نے پوچھا یہ کیا ہے تو فرمایا کہ میں نے سرکار علیہ وسلم سے سنا ہے کہ " جسے غصہ آجائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر غصہ ہھر بھی نہ جائے تو لیٹ جائے " ( مسند احمد 152/5 )
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ عروہ بن محمد رحمہ اللہ کو غصہ آگیا تو آپ اسی وقت وضو کرنے بیٹھ گئے فرمایا کہ میں نے اپنے استادوں سے سنا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا یے اور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے اور کو بجھانے والی چیز پانی ہے پس تم غصہ کے وقت وضو کرنے بیٹھ جایا کرو ( مسند احمد 226/4 ::ضعیف ) ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ رب العزت کو دنیا کا کوئی گھونٹ پینا اتنا عزیز نہیں جتنا غصہ کے گھونٹ کو پی جانا ہسند ہے ایسے لوگوں کا ایمان مظبوط ہوجاتا یے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " جو کوئی باوجود قدرت کے اپنے غصے کو ضبط کرلے تو اللہ تعالی تمام مخلوق کے سامنے اسے بلاکر اسے اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے پسند کرلے ( سنن ابودائود 4777 ،قال اسیخ الالبانی :حسن) ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انسان کے اندر موجود بیشمار کمزوریوں میں سے ایک کمزوری غصہ کا آنا ہے جب انسان کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجائے تو اسے اشتعال آجاتا ہے اور وہ اشتعال اسے غصہ کی حالت میں لے آتا ہے اور پھر وہ اپنی زبان اور ہاتھوں کا بے دریغ استعمال کرکے وہ وہ کام کرجاتا ہے جو کسی بھی نارمل انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی حالانکہ بعد میں کئی مرتبہ اسے اپنے کیئے پر پچھتاوہ اور شرمندگی بھی ہوتی ہے لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور ویسے بھی کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں آسکتی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں غصہ کو کنٹرول نہ کرنا انسان کی اخلاقی برائیوں میں شمار بھی کیا جاتا ہے اور یہ اس کے اپنے لیئے کئی نقصانات کا باعث بھی بنتا ہے اسی لیئے ہمارے مذہب یعنی اسلام میں غصہ کو ایک خطرناک بیماری اور قابل مذمت فعل قرار دیا ہے قران مجید فرقان حمید میں اللہ تعالی اپنے جن جن محبوب اور ہسندیدہ لوگوں کا ذکر فرمایا ہے وہاں ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ غصہ کے وقت اپنے آپ کو کنٹرول کرتے اور غصہ کو پی جاتے تھے اور درگزر سے کام لیتے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پروفیسر محمد یونس جنجوعہ نے اپنے ایک مضمون " غصہ کے برے نتائج اور علاج " کے عنوان سے لکھاتھا اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ انہیں ایک جیل کے دورے پر جانے کا اتفاق ہوا مختلف جرائم میں ملوث لوگ اپنی اپنی سزا کے دن گزار رہے تھے وہ کہتے ہیں کہ میری کچھ لوگوں سے بات چیت بھی ہوئی اور زیادہ تر مجرم کا یہ ہی کہنا تھا کہ غصہ کی حالت میں ہی سب کچھ ہوا بات بڑھ گئی اور انجام یہ جیل کی سلاخیں ہیں وہ لوگ جوقتل جیسی گھنائونے جرم میں سزائے موت یا عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے ان کا کہنا بھی یہ ہی تھا کہ غصہ آگیا اور ہم نے فائر کرکے سامنے والے کو ڈھیر کردیا اس کے بعد سرمایہ بھی کیس میں ختم ہوگیا اور انجام سزائے موت یا عمر قید کی شکل میں ہمارے لیئے لکھ دی گئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو یہودیوں نے کیسی کیسی اذیتیں اور تکالیف پہنچائیں لیکن بجائے غصہ کرنے کے ہمیشہ درگزر سے کام لیا ایک دفعہ ایک یہودی مسجد میں مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا گیا وہ رات میں مسجد کو گندہ کرکے نجاست پھیلا کر وہاں سے بھاگ گیا صبح فجر سے پہلے جب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور صحابہ کرام تشریف لائے تو دیکھا کہ مسجد میں نجاست پڑی ہوئی ہے یہ دیکھکر صحابہ کرام کو بہت غصہ آیا لیکن سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " غصہ نہ کرو اور پانی لیکر آئو تاکہ پانی سے مسجد کو دھو دیا جائے " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مسجد کو دھویا جارہا تھا کہ اس یہودی کو یاد آیا کہ وہ اپنی تلوار مسجد میں ہی بھول آیا ہے اس نے سوچا کہ ابھی اندھیرا ہے میں جاکر اپنی تلوار لے آئوں وہ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ مسجد دھوئی جارہی ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی نظر جب اس یہودی مہمان پر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے یہ بھی نہیں کہا کہ " تم نے یہ کیا حرکت کی ہے " بلکہ بڑے تحمل اور صبر سے اس سے کہا کہ " تم اپنی تلوار یہاں بھول گئے ہو وہ لے جائو" اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ کیا صبر و تحمل اور درگزر کی اس سے بڑی کوئی مثال ہوسکتی یے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جہاں غصہ کے بیشمار نقصانات اور منفی پہلوئوں کی طرف ہم دیکھتے ہیں وہیں اس کے کچھ فوائد بھی ہیں یعنی مثبت پہلو بھی نظر آتے ہیں دراصل غصہ انسان کے لیئے ایک فطری عمل یے اس کرہ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا انسان ہوگا جسے زندگی میں کبھی غصہ نہ آیا ہو اور فی زمانہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس شخص کو غصہ نہیں آتا وہ شاید غیرتمند اور خوددار بھی نہیں ہوگا اس لیئے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ " جو غصہ کی حالت میں غضبناک نہ ہوا وہ انسان نہیں گدھا ہے ( احیا علوم الدین ، باب جلد نمبر 3کتاب ذم الغضب والعقد والحسد )۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ کہ ایک غیرت مند اور خوددار انسان ہی اپنے دشمن سے مقابلہ کرسکتا ہے یعنی اللہ تعالی نے انسان کو جو قوتیں بخشی ہیں ان میں کوئی بیکار یا بے معنی نہیں ہیں بلکہ ہر قوت کا اپنی جگہ جائز اور صحیح مصرف ہے غصہ اور غضب کا بھی کچھ اسی طرح کا حال ہے غصے کی صلاحیت انسان کے اندر محض فضول اور بیکار نہیں ہے بلکہ انسان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ایک نعمت کے طور پر انسان کو عطا کی گئے ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں درحقیقت یہ غصہ ہی ہے جس کی وجہ سے انتقام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنی حفاظت ، مکروہات اور ناگوار چیزوں کے خلاف مشتعل ہوکر اپنے اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت میں مددگار ثابت ہوتا ہے بس اس کا استعمال اگر صحیح ہے تو یہ نعمت خداوندی ہے اور اگر استعمال غلط ہے تو حرام ہے جیسے انگور کا عرق انسان کی صحت کے لیئے انتہائی مفید ہے لیکن اگر اس سے نشہ پیدا کردیا جائے تو یہ حرام ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں غصہ کو حرام کیوں کہا گیا ؟ دیکھیں اگر کوئی انسان غصہ کی حالت میں اپنی عقل اور ہوش و حواس کھو بیٹھے اور پھر اسی حالت میں اس سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجائے تو یہ اس کے پورے گھرانے یا شاید خاندان کے لیئے ایک لمحئہ فکریہ ہوجائےگا فی زمانہ ہمارے اس معاشرے میں جو بےجا غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں یہ سب اسی غصے کا نتیجہ ہے دوسری برادری میں شادی اور اپنی پسند کی شادی پر لڑکی کو اس کے بھائی اور والد کی طرف سے قتل کردینا یہ سب غصہ کی بدولت ہوتا نظر آتا ہے اسی لیئے ہر وہ کام جو غصہ کی حالت میں کیا گیا ہو اور وہ خلاف شرعہ ہو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو اسے حرام کہا گیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ساتھ جو پریسانیوں اور تکالیف کا ایک طویل سلسلہ ہمیشہ سائے کی طرح رہتا ہے اس کی وجہ بھی یہ ہی غصہ ہے آپ کہیں بھی نظر دوڑائیں معمولی معمولی باتوں پر آپے سے باہر ہوجانا لڑائی جھگڑا کرلینا اور بات کورٹ کچھری تک پہنچادینا یہ سب اسی غصہ کا نتیجہ ہے ایک روایت پیش خدمت ہے غور کیجیئے
بیہقی نے روایت ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ایک باندی تھی۔وہ ان کو گرم پانی وضوکرارہی تھی اچانک ایساہواکہ لوٹااس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور حضرت حسن کے سرپرگڑا جس کی وجہ سے ان کاسرزخمی ہوگیا۔ حضرت حسن نے خشمگیں نگاہوں سے باندی کی طرف دیکھاتواس نے موقع محل کی نزاکت سمجھتے ہوئے آیت کریمہ کاایک ٹکراتلاوت کیا۔والکاظمین الغیظ،حضرت حسن نے فرمایا میں نے اپناغصہ پی لیا اس نے آگے کا ٹکراتلاوت کیا۔والعافین عن الناس حضرت حسن نے فرمایا میں نے تجھ کو معاف بھی کردیا۔اس نے آیت کریمہ کاآخری ٹکراتلاوت کیاکہ واللہ یحب المحسنین اس پر حضرت حسن نے فرمایاجائو میں نے تم کوخداکیلئے آزادکردیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں غصہ کو پی جانا اور دبالینا ایک بہترین عمل اور سامنے والے کی غلطی کو درگزر کرتے ہوئے اسے معاف کردینا اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا موجب ہے اور اللہ تعالی کا یہ پسندیدہ عمل ہے اس رب العزت نے قران پاک میں ایسے لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کو معاف کردیتے ہیں اسے احسان سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا " ولا یحب المحسنین " اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے یعنی وہ عمل جو نہ صرف اس خالق کائنات کی پسند کا موجب ہے بلکہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں فی زمانہ دین سے دوری اور دنیا سے محبت کے نتیجہ میں ہم ڈپریشن ، شوگر ، بلڈپریشر اور ایسی کئی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر اسی وجہ اکثر و بیشتر غصہ کا شکار ہوکر ہم سے وہ کام ہوجاتے ہیں جو سراسر اسلام کے منافی ہیں اور قابل گرفت ہیں لہذہ کوشش یہ کرنی چاہیئے کہ اپنے اپ کو ایسے ماحول میں مصروف عمل رکھیں جہاں صرف اللہ تعالی کا ذکر ہو اس کے حبیب کریم رئوف الرحیم کا ذکر ہو اور غیر ضروری یعنی بےکار باتوں کا کوئی عمل دخل نہ ہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہاں اگر ہم نے کسی بات پر بھی اپنے غصے کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں غصہ پینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں معاف کردیتے ہیں تو ہھر اپنے ایمان کی سلامتی اور اس کی حفاظت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور ساتھ ہی اللہ تعالی کے نزدیک ہم اس کے پسندیدہ بندوں میں شمار کیئے جائیں گے ان شاء اللہ ہمارے بیشتر گناہوں کی جڑ یہ غصہ ہی ہے بس اس غصہ کو کنٹرول کرتے ہوئے پی جانا اور برداشت کرنا ہوگا اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ رب ہمیں شیطان کی طرف سے حاوی ہونے والے اس غصہ کی حالت میں اپنا کرم جاری رکھتے ہوئے ہمیں اس کو کنٹرول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کرکے اسے معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے ان شاءاللہ آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ۔

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78141 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.