چین کے انتہائی متحرک شہروں میں سے ایک چھنگ دو ،اس وقت ورلڈ سمر یونیورسٹی گیمز کی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے تقریباً 40 ہزار افراد کے مجمع اور متعدد ریاستی رہنماؤں اور بین الاقوامی شخصیات کی موجودگی میں کھیلوں کے افتتاح کا اعلان کیا۔ورلڈ یونیورسٹی گیمز کووڈ 19 وبائی صورتحال کے بعد چین کی جانب سے منعقد کیا جانے والا پہلا بین الاقوامی کھیلوں کا ایونٹ ہے۔ 2001 میں بیجنگ اور 2011 میں شینزین کے بعد اب چھنگ دو سمر یونیورسٹی گیمز کی میزبانی کرنے والا چائنیز مین لینڈ کا تیسرا شہر بھی بن گیا ہے۔یہاں اس حقیقت کو مدنظر رکھا جائے کہ کھیلوں کے اس عالمی میلے کو سجانے کا چین کا راستہ چیلنجوں سے خالی نہیں تھا کیونکہ چھںگ دو یونیورسٹی گیمز کو وبائی صورتحال کے باعث سامنے آنے والے مسائل کی وجہ سےدو بار ملتوی کیا جا چکا تھا ۔اس کے باوجود ، منتظمین کھیلوں کے لئے سب کچھ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ، اور میزبان شہر نے 49 مقامات اور سہولیات کی تعمیر ، تزئین و آرائش اور توسیع مکمل کی ، جو اعلیٰ درجے کے بنیادی ڈھانچے اور خدمات فراہم کرنے کے قابل ہیں۔ جدید سہولیات کی دستیابی گیمز کے حوالے سے دستیاب سہولیات کا تذکرہ کیا جائے تو براڈکاسٹنگ سے لے کر سیکیورٹی اور طبی خدمات تک، 5 جی، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت جیسی جدید ترین ٹیکنالوجیز کی ایک وسیع رینج کو اسمارٹ یونیورسٹی گیمز بنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ایکویٹک مرکز میں ایک انٹیلی جنٹ واٹر ٹریٹمنٹ نظام فعال ہے ، جو خود بخود پانی کے معیار کی نگرانی کرتا ہے اور درجہ حرارت کو کنٹرول کرتا ہے ، اور اسکورنگ سسٹم ایک سیکنڈ کے دس ہزار ویں حصے کی درستگی تک پہنچ سکتا ہے۔یہ گیمزسبز ترقی کو فروغ دینے میں بھی چین کی پیش رفت کا عمدہ مظہر ہیں ، کیونکہ تمام مقامات پر لو کاربن اخراج کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ کولنگ اقدامات کے ساتھ ساتھ ، نئی توانائی کی گاڑیوں کا سیلف ڈرائیونگ تجربہ بھی ایک قابل ذکر خصوصیت ہے۔ تقریباً 20 ہزار نوجوان رضاکار جامع خدمات پیش کرنے کے لئے گیمز کے وینیوز، پارک گرین ویز، نقل و حمل کے مراکز اور دیگر مقامات پر کام کر رہے ہیں، تاکہ دنیا بھر سے آنے والے نوجوانوں اور حکام کا گرم جوشی سے استقبال اور مہمان نوازی کی جا سکے۔ ورلڈ یونیورسٹی گیمز اور نوجوانوں کے درمیان دوستانہ تبادلے آرگنائزنگ کمیٹی کے مطابق ورلڈ یونیورسٹی گیمز نوجوانوں اور دوستانہ تبادلے کے لئے کھیلوں کا ایک عالمی ایونٹ ہے، اور کمیٹی نے وسیع پیمانے پر تیاریاں کی ہیں، جس کا مقصد ایک ہموار، محفوظ اور شاندار کھیلوں کا انعقاد ہے۔اس ضمن میں وبائی اثرات کو کم سے کم کرنے اور طلباء کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ، شرکاء کی زیادہ سے زیادہ عمر 25 سے بڑھا کر 27 کردی گئی ، اور ضابطے میں نرمی کے بعد 2020 ، 2021 اور 2022 میں گریجویشن کرنے والے تمام طلباء کو شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ 28 جولائی سے 8 اگست تک جاری رہنے والےان یونیورسٹی گیمز کے دوران 113 ممالک اور خطوں سے تعلق رکھنے والے کل 6500 طلباء ایتھلیٹس 18 کھیلوں کے 269 مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔چین نے گیمز کے لئے 700 سے زائد ارکان پر مشتمل ایک وفد تیار کیا ہے ، جس میں 100 سے زیادہ یونیورسٹیوں کے 411 ایتھلیٹس شامل ہیں جو تمام کھیلوں میں حصہ لیں گے۔ کھیل باہمی افہام و تفہیم کے لیے ایک اہم پل اس میں کوئی شک نہیں کہ کھیل لوگوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور دوستی کو بڑھانے کے لیے ایک اہم پل ہیں۔ 62 سال قبل انٹرنیشنل یونیورسٹی اسپورٹس فیڈریشن کے بانی پال شلیمر نے ورلڈ یونیورسٹی گیمز ڈیکلریشن جاری کرتے ہوئے اسے "دوستی کا عظیم اجتماع" قرار دیا تھا اور بعد میں ان گیمز کا مقصد "دوستی، بھائی چارہ، انصاف، استقامت، سالمیت، تعاون، جدوجہد" رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چینی صدر شی جن پھنگ نے استقبالیہ ضیافت میں کھیلوں کے ذریعے اتحاد کو فروغ دینے، عالمی برادری کے لیے مثبت توانائی کو یکجا کرنے اور عالمی چیلنجوں کا مشترکہ جواب دینے پر زور دیا۔انہوں نے واضح کیا کہ کھیل نہ صرف عالمی سطح پر روحانی روشن خیالی فراہم کرتے ہیں بلکہ عہد حاضر، زمانے اور تاریخ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مفید حوالہ بھی فراہم کرتے ہیں۔اتحاد کے ساتھ، مشترکہ طور پر عالمی چیلنجوں جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، خوراک کے بحران اور دیگر مسائل سے نمٹںا ممکن ہے ، لہذا ایک بہتر مستقبل کی تشکیل کے لیے تعاون کیا جائے۔ چھنگ دو ورلڈ یونیورسٹی گیمز سے وابستہ امیدیں چین میں کامیابی سے منعقدہ کھیلوں کے سابقہ عالمی ایونٹس کی روشنی میں امید کی جا سکتی ہے کہ چھنگ دو ورلڈ یونیورسٹی گیمز دنیا کے نوجوانوں کے لیے ایک عظیم الشان کھیلوں کا ایونٹ ہو گا۔ اس دوران نوجوان رنگین دنیا اور متنوع تہذیبوں کو مساوات، رواداری اور دوستی کے نقطہ نظر سے دیکھ سکیں گے، مختلف ثقافتوں کے درمیان باہمی احترام اور باہمی سیکھنے کے رویے کو فروغ ملے گا اور عالمی امن و ترقی میں کردار ادا کیا جا سکے گا۔
|