زیارتِ قبور جائز و مستحب بلکہ
مسنون ہے۔ بلکہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے احد کی زیارت کو
تشریف لے جاتے اور ان کے لیے دعا کرتے اور یہ فرمایا بھی ہے کہ تم لوگ
قبروں کی زیارت کرو، وہ دنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے۔
قبر کی زیارت کو جانا چاہیے تو مستحب یہ ہے کہ پہلے اپنے مکان میں دو رکعت
نماز نفل پڑھے، ہر رکعت میں بعد فاتحہ آیت الکرسی ایک بار اور قل ہو اللہ
تین بار پڑھے اور اس نماز کا ثواب مےّت کو پہنچائے، اللہ تعالیٰ میّت کی
قبر میں نور پیدا کریگا اور اس شخص کو بہت بڑا ثواب عطا فرمائے گا۔ اب
قبرستان کو جائے تو راستہ میں فضول باتوں میں مشغول نہ ہو۔ جب قبرستان
پہنچے جوتے اتارے اور پائنتی کی طرف سے جا کر اس طرح کھڑا ہو کر قبلہ کو
پیٹھ ہو اورمیّت کے چہرے کی طرف منہ، سرہانے سے نہ آئے کہ میّت کے لیے باعث
تکلیف ہے یعنی مےّت کو گردن پھیر کر دیکھنا پڑتا ہے کہ کون آیا اور اس کے
بعد یہ کہے:
السلام علیکم یا اھل القبور یغفر اللہ لنا ولکم انتم لنا سلف ونحن بلاثر
یایوں کہے: السلام علیکم اھل دارقوم مومنین انتم لنا سلف وانا ان شآ ء اللہ
بیکم لا حقون oاور سورئہ فاتحہ و آیت الکرسی اور سورئہ اذازلزلت و الھاکم
التکاثر oپڑھے۔ سورئہ ملک اور دوسری سورتیں بھی پڑھ سکتا ہے اور اس کا ثواب
مردوں کو پہنچائے اور اگر بیٹھنا چاہے تو اتنے فاصلہ سے بیٹھے کہ اس کے پاس
زندگی میں نزدیک یاد ور جتنے فاصلے پر بیٹھ سکتا تھا
چار دن زیارت کے لیے بہتر ہیں، پیر ، جمعرات، جمعہ، ہفتہ اور جمعہ کے دن
قبل نمازِ جمعہ افضل ہے اور ہفتہ کے دن طلوع آفتاب تک اور پنجشنبہ کو دن کے
اوّل وقت اور بعض علماء نے فرمایا کہ پچھلے وقت میں افضل ہے اور متبرک
راتوں میں بھی زیارتِ قبو ر افضل ہے۔ مثلاً شبِ برأت، شبِ قدر۔ اسی طرح
عیدین کے دن اور عشرئہ ذی الحجہ میں بھی بہتر ہے ا ور اولیائے کرام کے
مزارات پر سفر کرکے جانا جائز ہے، وہ اپنے زائر کو نفع پہنچاتے اور زیارت
کرنے والے کو برکات حاصل ہوتی ہیں اور عورتوں کو مزارات پر نہ جانا چاہیے۔
مردوں کو چاہیے کہ انھیں منع کریں۔
ہم اہلسنّت کے نزدیک زندوں کے ہر عمل نیک اور ہر قسم کی عبادت مالیّہ یا
بدنیّہ ، فرض و نفل اور خیر خیرات کا ثواب مردوں کو پہنچایا جا سکتا ہے اور
اس میں کچھ شک نہیں کہ زندوں کے ایصالِ ثواب سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اب رہیں یہ تخصیصات مثلاًتیسرے دن یا دسویں یا چالیسویں دن ، تویہ تخصیصات
نہ شرعی ہیں نہ انھیں شرعی سمجھا جاتا ہے یعنی یہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ
اسی دن میں ثواب پہنچے گا، اگر کسی دوسرے دن کیا جائے گا تو نہیں پہنچے گا۔
یہ محض رواجی اور عرفی بات ہے جو اپنی سہولت کے لیے لوگوں نے بنا رکھی ہے،
بلکہ انتقال کے بعد ہی سے قرآن مجید کی تلاوت اور خیر خیرات کا سلسلہ جاری
ہو جاتا ہے اور اکثر لوگوں کے یہاں اسی دن سے بہت دنوں تک جاری رہتا ہے تو
یہ کیونکرکہا جا سکتا ہے کہ مخصوص دن کے سو ا دوسرے دنوں میں لوگ ناجائز
جانتے ہیں؟
الغرض یہ تیجا اور چالیسوں وغیرہ سب اسی ایصالِ ثواب کی صورتیں ہیں اور
قطعی جائز ہیں مگر یہ ضرور ہے کہ سب کام اچھی نیت سے کیا جائے، نمائشی نہ
ہوں ورنہ ثواب ہے نہ ایصال ثواب بلکہ بعض صورتوں میں تواور الٹا وبال پڑ
جاتا ہے۔ مثلاًبعض لوگ ایسے موقعوں پر ادھار، قرض بلکہ سودی روپیہ سے محض
اپنی برادری میں ناک اونچی رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں، یہ جائز ہونا
کیسا بلکہ الٹا گناہ ہے یونہی اس موقعہ پر رشتہ داروں کی دعوت کی جاتی ہے،
یہ غلط ہے، یہ موقع دعوت کا نہیں بلکہ محتاجوں ، فقیروں کو کھلانے کا ہے جس
سے مےّت کو ثواب پہنچے ، بااثر حضرات کو اپنی اپنی قوم و برادری میں اس کی
اصلاح کرنی چاہیے
بزرگانِ دین کی نیاز کا کھانا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ باعثِ برکت بھی
ہے۔ رجب شریف کے کونڈے ، محرم کا شربت یا کھچڑا، ماہِ ربیع الا آخر کی
گیارہویں شریف کہ حضور سیدناغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ دلائی
جاتی ہے اور رجب کی چھٹی تاریخ حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی فاتحہ دلائی جاتی ہے یونہی حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا توشہ
یا حضرت شیخ عبدالحق ردولوی قدس سرہ کا توشہ، یہ وہ چیزیں ہیں جو صدیوں سے
مسلمانوں کے عوام و خواص علماء فضلا ء میں جاری ہیں، اور ان میں خاص اہتمام
کیا جاتا ہے اور امراء بھی اس میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں اور طعام
تبرک سے فیض پاتے ہیں۔
جس طرح دوسرے دنوں میں سب کی فاتحہ ہو سکتی ہے محرم کےدنوں میں بھی ہو سکتی
ہے یہ خیال غلط ہے کہ محرم میں سوائے شہدائے کر بلا کے دوسروں کی فاتحہ نہ
دلائی جائے۔
عرس بزرگانِ دین جو ہر سال ان کے وصال کے دن ہوتا ہے ، یعنی اس تاریخ
میںلوگ جمع ہوتے، قرآن مجید پڑھتے اور دوسرے اذکار خیرخیرات کرتے ہیں یا
میلاد شریف وغیرہ کیا جاتا ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایسے کام جو باعثِ خیرو
برکت ہیں جیسے اور دنوں میں جائز ہ ہیں، ان دنوں میں بھی جائز ہیں۔ پھر
اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری مسلمان کے لیے سعادت، باعثِ برکت ہے۔ رہے
وہ امور جو شرعاً ممنوع ہیں وہ تو ہر حالت میں مذموم ہیں ۔ |