جان کنی کی علامت
: پاؤں کاسُست ہو جانا کہ کھڑے نہ ہو سکیں، ناک کا ٹیڑھا ہو جانا، دونوں
کنپٹیوں کا بیٹھ جانا، مُنہ کی کھال کا سخت ہو جانا وغیرہ۔
جان کنی کے وقت
جب موت کا وقت قریب آئے اور علامتیں پائی جائیں تو سُنّت یہ ہے کہ میّت کا
مُنہ قبلہ کی طرف کر دیں اور قبلہ کی طرف کرنا دشوار ہو کہ اس کو تکلیف
ہوتی ہو تو جس حالت پرہے چھوڑ دیں اور جب تک رُوح گلے نہ آئی اسے تلقین
کریں یعنی اس کے پاس بلند آواز سے کلمہ طیبّہ یا کلمہ ہ شہادت پڑھیں ، مگر
اُسے اِس کہنے کا حکم نہ کریں۔ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تو اب تلقین موقوف
کردیں ہاں اگر کلمہ پڑھنے کے بعد اس نے کوئی بات کی تو پھر تلقین کریں تاکہ
اس کا اخیر کلام لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ o ہو ۔ خوشبو اس کے پاس
رکھیں مثلاًلوبان یا اگر بتیاں سُلگادیں، مکان میں کوئی تصویر یا کتا وغیرہ
ہو تو اس کو فوراً نکال دیں کہ جہاں یہ ہوتی ہیں وہاں ملائکہ رحمت نہیں آتے،
اس وقت اس کے پاس نیک اور پرہیز گار لوگ رہیں تو بہت بہتر ہے کہ نزع کے وقت
اپنے اور اس کے لیے دعائے خیر کرتے رہیں۔ کوئی بُرا کلمہ منہ سے نہ نکالیں
، نزع میں سختی دیکھیں تو سورئہ یٰسین اور سورہ رعد پڑھیں۔
جب میت کا دم نکل جائے۔
جب رُوح نکل جائے تو ایک چوڑی پٹی جبڑے کے نیچے سے سر پر لے جاکر گرہ دے
دیں کہ منہ کھلا نہ رہے۔ نہایت نرمی اور شفقت سے آنکھیں بند اور انگلیاں
اور ہاتھ پاؤں سیدھے کر دیں۔ آنکھیں بند کرتے وقت یہ دعا پڑھیں:
بسم اللہ وعلٰی ملۃ رسول اللہ اللھم یسر علیہ امرہٗ وسھل علیہ ما بعدہٗ و
اسعدہٗ بلقآ ئک واجعل ماخرج الیہ خیرا مما خرج عنہo
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول اللہ کی ملت پر، اے اللہ ! تو اس کے
کام کو اس پر آسان کر اور اس کے مابعدکو اس پر سہل کر اور اپنی ملاقات سے
تو اسے نیک بخت کر اور اس کی آخرت اس کے لیے دنیا سے بہتر کر۔
پھر جن کپڑوں میں وہ مرا ہے وہ اتارلیں اس کے سارے بدن کو کسی کپڑے سے
چھپادیں اس کے پیٹ پر لوہا یا گیلی مٹی یا کوئی اور بھاری چیز رکھ دیں کہ
پیٹ پھول نہ جائے مگر زیادہ وزنی نہ ہو کہ باعثِ تکلیف ہے۔ میت کو چارپائی
وغیرہ کسی اونچی چیز پر رکھیں کہ زمین کی سیل نہ پہنچے۔ اس کے ذمہ قرض
وغیرہ ہو تو جلد از جلد ادا کر دیں۔ پڑوسیوں اور اس کے دوست واحباب کو
اطلاع دیں کہ نمازیوں کی کثرت ہوگی اور غسل و کفن دفن میں جلدی کریں کہ
حدیث میں اس کی بہت تاکید آئی ہے۔
میت کے پاس تلاوتِ قرآن مجید وغیرہ
میت کے پاس تلاوتِ قرآن مجید جائز ہے جب کہ اس کا تمام بدن کپڑے چھپا ہو
ااور تسبیح اور دوسرے اذکار میں تو کوئی حرج نہیں۔
میت کو غسل دینا
میت کو غسل دینا یعنی نہلانا فرض کفایہ ہے کہ بعض لوگوں نے غسل دے دیا تو
سب سے ساقطِ ہوگیا اور باوجود علم کسی نے غسل نہ دیا تو سب پر گناہ ہوا۔
میت کو نہلا نا
میت کو نہلانے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تختے پر نہلانے کا ارادہ ہو اس کا تین
یا پانچ یا سات باردھونی دیں یعنی جس چیز میں وہ خوشبو سلگتی ہے اسے اتنی
بار اس کے گرد پھرائیں اور اس پر میت کولٹا کر ناف سے گھٹنوں تک کسی کپڑے
سے چھپادیں اور مستحب یہ ہے کہ جس جگہ غسل دیں ، وہاں پردہ کر لیں کہ
نہلانے والے اور اس کے مددگار کے سِوا دوسرا نہ دیکھے۔ اب نہلانے والا جو
باطہارت ہو اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر پہلے استنجا کرائے پھر نماز کا سا
وضو کرائے۔ مگر میت کے وضو میں گٹوں تک پہلے ہاتھ دھونا اور کلی کرنا اور
ناک میں پانی ڈالنا نہیں ہے لہٰذا پہلے میت کا منہ اور پھر کہنیوں سمیت
دونوں ہاتھ دھوئیں، پھر سر کا مسح کریں پھر پاؤں دھوئیں او ر کوئی کپڑا یا
روئی کی پھریری بھگو کر دانتوں اور مسوڑھوں اور ہونٹوں اور نتھنوں پر پھیر
دیں، اس کے بعد سر اور داڑھی کے بال گل خیرویا بیسن یا کسی اور پاک چیز
مثلاً اسلامی کارخانے کے بنے ہوئے صابن سے دھوئیں ورنہ خالی پانی بھی کافی
ہے۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر سر سے پاؤں تک بیری کے پتے جوش دیا ہوا پانی
بہائیں کہ تختہ تک پہنچ جائے پھر دا ہنی کروٹ پر لٹا کر اسی طرح کریں، خاص
نیم گرم پانی بھی کافی ہے۔ پھرٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی کے ساتھ نیچے کو
پیٹ پر ہاتھ پھیریں اگر کچھ نکلے دھو ڈالیں، وضو و غسل کا اعادہ نہ کریں،
پھر آخر میں سر سے پاؤں تک کافور کا پانی بہائیں اور اس کے بدن کو کسی پاک
کپڑے سے آہستہ پونچھ لیں، ایک مرتبہ سارے بدن پر پانی بہانا فرض ہے اور تین
بار سنت۔
میت کوکون نہلائے
بہتر یہ ہے کہ نہلانے والا میت کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہو، وہ نہ ہو
یا نہلانا نہ جانتا ہو تو کوئی اور شخص جو متقی او ر امانت دار ہو کہ پوری
طرح غسل دے اور جو اچھی بات دیکھے اسے لوگوں کے سامنے بیان کر ے اور بری
بات دیکھے تو اسے کسی سے نہ کہے، ہاں اگر کوئی بد مذہب بدعقیدہ مرا اور اس
کی کوئی بری بات ظاہر ہوئی تو اس کا بیان کر دینا چاہیے تاکہ لوگوں کو عبرت
ہو اور مرد کو مرد نہلائے عورت کو عورت ۔ میت چھوٹا لڑکا ہے تو اسے عورت
بھی نہلا سکتی ہے اور چھوٹی لڑکی کو مرد بھی غسل دے سکتا ہے۔
میت کے غسل کے لیے نئے گھڑے بدہنے ضروری نہیں، گھر کے استعمالی گھڑے لوٹے
سے بھی غسل دے سکتے ہیں اور غسل کے بعد انھیں تو ڑ ڈالنا ناجائز و حرام ہے،
زیادہ سے زیادہ یہ کہ انھیں دھو ڈالیں اور اپنے استعمال میں لائیں یا مسجد
میں رکھ دیں ، لیکن اس خیال سے نہیں کہ ان کا گھر میں رکھنا نحوست ہے کہ یہ
تو نری حماقت ہے بلکہ نیت یہ ہو کہ نمازیوں کو آرام پہنچے گا اور مردے کو
اس کا ثواب۔
میت کو کفن دینا
میت کو کفن دینا فرض کفایہ ہے کہ ایک کے دینے سے سب پر سے گناہ اٹھ جائے گا
ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔
مرد کے لیے کفن
مر د کے لیے سنت تین کپڑے ہیں، لفافہ یعنی چادر جو میت کے قد سے اس قدر
زیادہ ہو کہ دونوں طرف باندھ سکیں ازار یعنی تہ بند چوٹی سے قدم تک یعنی
لفافہ سے اتنا چھوٹا جو بندش کے لیے زیادہ تھا اور قمیص جسے کفنی کہتے ہیں،
گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور یہ آگے اور پیچھے دونوں طرف برابر ہو، چاک
اور آستین اس میں نہ ہوں۔
عورت کے لئے کفن
عورت کے لیے کفن میں پانچ کپڑے سنت ہیں، تین تو یہی اور اوڑھنی، اس کی
مقدار تین ہاتھ یعنی ڈیڑھ گز ہے، سینہ بند، سینہ سے ناف تک اور بہتر یہ ہے
کہ ران تک ہو ہاں مرد اور عورت کی کفنی میں فرق ہے۔ مرد کی کفنی مونڈھے پر
چیریں اور عورت کے لیے سینہ کی طرف یعنی مرد کی کفنی کا گر بیان مونڈھے کی
طرف ہوگا اور عورت کی کفنی کا سینہ کی طرف ہے۔
اگر کسی کو کفنِ سنت میسر نہ ہو
کفنِ کفایت مرد کے لیے دو کپڑے ہیں لفافہ اور ازار ، اور عورت کے لیے تین،
لفافہ ، ازار، اوڑھنی یا لفافہ ، قمیص، اوڑھنی اور یہ بھی نہ ہو سکے تو
کفنِ ضرورت دونوں کے لیے یہ کہ جو میسر آئے اور کم از کم اتنا تو ہو کہ
سارا بدن ڈھک جائے۔
کفن کیسا ہو
کفن اچھا ہونا چاہیے یعنی مرد عیدین اور جمعہ کے لیے جیسے کپڑے پہنتا تھا
اور عورت جیسے کپڑے پہن کر میکے جاتی تھی اس قیمت کا ہونا چاہیے۔ حدیث میں
ہے کہ مردوں کو اچھا کفن دو کہ وہ باہم ملاقات کرتے اور اچھے کفن سے تفاخر
کرتے یعنی خوش ہوتے ہیں اور بہتر سفید کفن ہے اور کسم یا زعفران کا رنگا ہو
ا یا ریشم کا کفن مرد کو ممنوع ہے اور عورت کے لیے جائز ، یعنی جو کپڑا
زندگی میں پہن سکتا ہے اس کا کفن بھی دیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔
کفن پہنانے کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو غسل دینے کے بعد بدن کسی پاک کپڑے سے
آہستہ پونچھ لیں کہ کفن تر نہ ہو اور کفن کو دھونی دے کر یوں بچھائیں کہ
بڑی چادر، پھر تہ بند، پھر کفنی، پھر میّت کو اس پر لٹائیں، اور کفنی
پہنائیں اور داڑھی اور تمام بدن پر خوشبو ملیں اور مواضع سجود یعنی ماتھے ،
ناک ، ہاتھ گھٹنے قدم پر کافور لگائیں ، پھر ازار یعنی تہ بند لپیٹیں ،
پہلے بائیں جانب سے پھر دا ہنی جانب سے ، پھر لفافہ لپیٹیں ، پہلے بائیں
پھر دائیں طر ف سے تاکہ دائیں طر ف سے تاکہ داہنا اوپر رہے اور سر اور پاؤں
کی طرف باندھ دیں کہ اڑنے کا اندیشہ نہ رہے اور عورت کو کفنی پہنا کراس کے
بال کے دو حصے کرکے کفنی کے اوپر سینہ پر ڈال دیں اور اوڑھنی نصف پشت کے
نیچے سے بچھا کر سر پر لا کر منہ پر مثل نقاب ڈال دیں کہ سینے پر رہے پھر
بدستور ازار اور لفافہ لپیٹیں پھر سب کے اوپر سینہ بند، سینہ سے ران تک
لاکر باندھ دیں۔
سنت یہ ہے کہ چار شخص جنازہ اٹھائیں اور ہر ایک یکے بعد دیگرے چاروں پایوں
کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے اور پوری سنت یہ ہے کہ پہلے داہنے سر
ہانے کندھا دے پھر دا ہنی پائنتی، پھر بائیں سرہانے پھر بائیں پائنتی اور
دس دس قدم چلے تو کل چالیس قدم ہوئے۔ حدیث میں ہے کہ جو چالیس قدم جنازہ لے
چلے اس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔ چلنے میں چار پائی کا
سرہانہ آگے رکھیں اور جنازہ معتدل تیزی سے لے جائیں مگر نہ اس طرح کہ میّت
کو جھٹکا لگے اور چھوٹا بچہ شیر خوا ر یا اس سے بڑا اس کو اگر ایک شخص ہاتھ
پر اٹھا کر چلے تو حر ج نہیں اور یکے بعد دیگرے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے رہیں
ورنہ چھوٹے کھٹولے یا چار پائی پر لے جائیں۔
جنازہ کے ساتھ جانے والوں کے لیے افضل یہ ہے کہ جنازہ سے پیچھے چلیں، دائیں
بائیں نہ چلیں اور اگر کوئی آگے چلے تو اتنی دور رہے کہ ساتھیوں میں شمار
نہ ہو، نیز ساتھ چلنے والوں کو سکوت کی حالت میں ہونا چاہیے ، موت اور قبر
کو پیش نظر رکھیں ، دنیا کی باتیں نہ کریں، نہ ہنسیں اور ذکر کرنا چاہیں تو
دل میں کریں او بلحاظِ زمانۂ حال اب علماء نے زکرِ جہر کی بھی اجازت دے دی
ہے۔
:جوشخص جنازہ کے ساتھ ہو اسے بغیر نماز پڑھے واپس نہ ہونا چاہیے اور نماز
کے بعد اولیائے میت سے اجازت لے کر واپس ہو سکتا ہے۔ اور میّت دفن کر دی
جائے تو اولیائے میّت سے اجازت کی ضرورت نہیں۔
نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے کہ ایک نے بھی پڑ ھ لی تو سب بری الذمہ ہو گئے
ورنہ جس جس کو خبر پہنچی تھی اور نہ پڑھی، گنہگار ہوا، اس کی فرضیت کا جو
انکار کرے وہ کافر ہے اور جماعت اس کے لیے شرط نہیں، ایک شخص بھی پڑھ لے تو
فرض اد ا ہو گیا۔
نماز جنازہ میں دو رکن ہیں چار بار اللہ اکبر ، قیام کرنا اور تین چیزیں
سنت مٔوکدہ ہیں اللہ عزوجل کی حمد و ثنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود
شریف اور میّت کے لیے دعا، اور بعض علماء اسے واجب کہتے ہیں اور جن چیزوں
سے تمام نمازیں فاسد ہو تی ہیں نماز جنازہ بھی ان سے فاسد ہو جاتی ہے۔
نمازِ جنازہ میں دو طرح کی شرطیں ہیں، ایک مُصَلّیِ سے متعلق ، دوسری میّت
سے متعلق، مصلّی کے لحاظ سے تو وہی شرطیں ہیں جو مطلق نماز کی ہیں اور میّت
سے تعلق رکھنے والی چند شرطیں ہیں جو یہ ہیں: (۱)میّت کا مسلمان ہونا
(۲)میّت کے بدن و کفن کا پاک ہونا(۳)جنازہ کا وہاں موجود ہونا ، لہٰذا غائب
کی نمازِ جنازہ نہیں ہو سکتی اور نجاشی کی نماز جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے پڑھائی وہ حضور کے خواص میں شامل کی گئی ہے، دوسروں کو ناجائز ہے
(۴)جنازہ کا زمین پرہونا یا ہاتھ پر ہو تو قریب ہو (۵)جنازہ مُصَلّیِ کے
آگے قبلہ کو ہونا (۶)میّت کا وہ حصہ بدن جس کا چھپانا فرض ہے چھپا ہونا
(۷)میت کا امام کے محاذی ہونا۔
جن کی نمازِ جنازہ نہیں
باغی جو بغاوت میں مارا جائے، ڈاکو کہ ڈاکہ میں مارا گیا، وہ لوگ جو ناحق
پاسدار سے لڑیں او ر وہیں مر جائیں ، جس نے کئی شخص گلا گھونٹ کر مارڈالے،
شہر میں رات کو ہتھیار لے کر لوٹ مار کریں اور اسی حالت میں مارے جائیں ،
جس نے اپنی ماں یا باپ کو مار ڈالا، جو کسی کا مال چھین رہا تھا اور اسی
حالت میں مارا گیا، ان کے علاوہ ہر مسلمان کی نماز پڑھی جائے اگرچہ وہ کیسا
ہی گنہگار اور مرتکب کبائر ہو، یہاں تک ہ جس نے خود کشی کی حالانکہ یہ بہت
بڑا گناہ ہے مگر اس کی بھی پڑھی جائے گی، یونہی بے نمازی کی بھی نماز پڑھنا
ہم پر فرض ہے
نمازِ جنازہ پڑھنے کا طریقہ
میت کے سینے کے سامنے میت سے قریب امام کھڑا ہو اور مقتدی تین صفیں کر لیں۔
اب امام اور مقتدی نیت کرکے (کہ نیت کی میں نے نمازِ جنازہ کی مع چار
تکبیروں کے واسطے اللہ تعالیٰ، دعاواسطے اس میت کے، منہ میرا کعبہ شریف کی
طرف۔ امام امامت کی اور مقتدی اقتداء کی نیت کرے، کانوں تک ہاتھ اٹھا کر
تکبیر تحریمہ کہتا ہوا ہاتھ نیچے لائے اور ناف کے نیچے حسبِ دستور باندھ لے
اور ثناء پڑھے پھر اللہ اکبر کہہ کر درود پڑھے اور بہتر وہ درود ہے جو نماز
میں پڑھا جاتا ہے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنے اور میت اور تمام مسلمان
مردوں کے لیے دعا کرے۔ یہ تین تکبریں ہوئیں، چوتھی تکبیر کے بعد بغیر کوئی
دعا پڑھے ہاتھ کھول کر سلام پھیر دے، تکبیر اور سلام کو امام جہر کے ساتھ
کہے مقتدی آہستہ ، باقی تمام دعائیں آہستہ پڑھی جائیں گی، اور صرف پہلی
مرتبہ تکبیر کہنے کے وقت ہاتھ اٹھائے جائیں پھر ہاتھ اٹھانا نہیں۔
جنازہ میںدعاؤں کاذکر
میت بالغ ہو تو یہ دعا پڑھیں:
اللھم اغفر لحینا ومیتنا وشاھدنا وغآ ئبنا وصغیرنا وکبیرنا وذکرنا وانثا نا
اللھم من احییتہٗ منا فاحیہٖ علی الا سلام ومن توفیتہٗ منا فتوفہٗ علی
الایمانo
ترجمہ: اے اللہ تو بخش دے ہمارے زندے اور مردے اور ہمارے حاضر و غائب کو
اور ہمارے چھوٹے بڑوں کو اور ہمارے مردوعورت کو ، اے اللہ ہم میں تو جسے
زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے وفات دے اسے ایمان پر
وفات دے۔
اگر نابالغ لڑکا ہو تو یہ دعا پڑھیں:
اللھم اجعلہ لنا فرطا واجعلہ لنا اجرا وذخرا واجعلہ لنا شافعا ومشفعاo
ترجمہ: اے اللہ تو اس کو ہمارے لیے پیشرو کردار اس کو ہمارے لیے اجر و
ذخیرہ کر اور اس کی ہماری شفاعت کرنے والا اور مقبول الشفاعت بنا۔
اور لڑکی ہو تو :اجعلہا اور شافعۃ ومشفعۃ کہے
اور جو شخص اچھی طرح یہ دعائیں نہ پڑھ سکے تو جو دعا چاہے پڑھے مگر وہ دعا
ایسی ہو کہ امور آخرت سے متعلق ہو۔
اگر کئی جنازے ہوں
کئی جنازے جمع ہوں تو ایک ساتھ سب کی نماز پڑھ سکتے ہیں یعنی ایک ہی نماز
میں سب کی نیت کر لے اور افضل یہ ہے کہ سب کی علیٰحدہ علیٰحدہ پڑھے اور اس
صورت میں پہلے اس کی پڑھے جو ان میں افضل ہے پھر اس کی جو اس کے بعد سب میں
افضل ہے،وعلیٰ ہذالقیاس، اور ایک ساتھ پڑھیں تو اختیار ہے کہ سب کو آگے
پیچھے رکھیں، یعنی سب کا سینہ امام کے مقابل ہو یا برابر برابر رکھیں یعنی
ایک کی پائنتی یا سر ہانے دوسرے کو۔
میت کی قبر پر نماز پڑھنا
میت اگر بغیر نماز پڑھے دفن کر دی گئی اور مٹی بھی دے دی گئی ، تو اب اس کی
قبر پر نماز پڑھی جائے جب تک پھٹنے کا گمان نہ ہو اور اگر مٹی نہ دی گئی ہو
تو میّت کو قبر سے نکال لیں اور نماز پڑھ کر دفن کریں۔ اور قبر پر نماز
پڑھنے میں دنوں کی کوئی تعداد مقر رنہیں بلکہ یہ موسم اور زمین اور مےّت کے
جسم اور مرض کے اختلاف پر موقوف ہے مثلاً گرمی میں جسم جلد پھٹے گا اور
جاڑوں میں دیر سے فربہ جسم جلد لاغر اور لاغر دیر میں تر یا شور زمین میں
جلد ااور خشک وغیرہ شور میں بدیر۔
مسجد میں نماز جنازہ مطلقاً مکروئہ تحریمی ہے خواہ میّت مسجد کے اندر ہو یا
باہر سب نمازی اندرہوں یا بعض کہ حدیث میں نماز جنازہ پڑھنے کی ممانعت آئی
ہے۔
میت کو قبلہ کی جانب سے قبر میں اتاریں اور دا ہنی طرف کروٹ کو لٹائیں اور
اس کا منہ قبلہ کو کریں ، عورت کا جنازہ اتار نے والے اس کے محرم ہوں، یہ
نہ ہوں تو دوسرے رشتہ والے اور یہ بھی نہ ہوں تو پرہیز گار اجنبی اتاریں
اور عورت کا جنازہ ہ وتو قبر میں اتارنے سے تختہ لگانے تک قبر کو کپڑے
وغیرہ سے چھپائے رکھیں، میّت کو قبر میں رکھتے وقت یہ دعا پڑھیں: بسم اللہ
وبا للہ وعلیٰ ملتہ رسول اللہ oاور قبر میں رکھنے کے بعد کفن کی بندش کھول
دیں اور لحد کو کچھی اینٹوں سے بند کر دیں اور زمین نرم ہو تو تختے لگانا
بھی جائز ہے اور تختوں کے درمیان جھری رہ گئی تو اسے ڈھیلے وغیرہ سے بند کر
دیں ، قبر صندوق نما ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
قبر کو مٹی دینے کا طریقہ۔
مستحب یہ ہے کہ سرہانے کی طرف سے دونوں ہاتھوں سے تین بار مٹی ڈالیں، پہلی
بار کہیں : منھا خلقنٰکم (اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا) دوسر ی بار وفیھا
نعیدکم (اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے) اور تیسری بار ومنھا نخرجکم تارۃ
اخرٰی o(اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے) باقی مٹی ہاتھ یا پھاوڑے وغیرہ
سے قبر پر ڈالیں اور جتنی مٹی قبر سے نکلی اس سے زیادہ ڈالنا مکروہ ہے اور
ہاتھ میں جومٹی لگی ہے اسے جھاڑ دیں یا دھو ڈالیں اختیار ہے اور قبر چو
کھونٹی نہ بنائیں بلکہ اس میں ڈھال رکھیں جیسے اونٹ کا کوہان اور اونچائی
میں ایک بالشت یا کچھ زیادہ ہو ااس پر پانی چھڑ کنے میں کچھ حرج نہیں بلکہ
بہتر ہے
دفن کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب ہے جتنی دیر میں اونٹ ذبح
کرکے گوشت تقسیم کر دیا جائے کہ ان کے رہنے سے میّت کو انس ہوگا اور نکیرین
کا جواب دینے میں وحشت نہ ہوگی اور اتنی دیر تک تلاوتِ قرآن مجید اور میّت
کے لیے استغفار و دعا کریں کہ سوال نکیرین کے جواب میں ثابت قدم رہے اور
مستحب یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر پر سورہ بقرہ کا اوّل و آخر پڑھیں، سرہانے
الٓمٓ سے مفلحون تک او رپائنتی اٰمن الرسول سے آخرتک
قبر پر قرآن پڑھنے اور اس کا ثواب میت کو بخشنے کے لیے حافظ مقرر کرنا جائز
ہے جبکہ پڑھنے والے بلِااجرت پڑھتے ہوں کہ اجرت پر قرآنِ کریم پڑھنا اور
پڑھوانا ناجائز نہیں، اگر بِلا اجرت پڑھنے والا نہ ملے اور اجرت پر پڑھوانا
چاہے تو اپنے اپنے کام کاج کے لیے نوکر رکھے پھر یہ کام لے۔
شجرہ یا عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میت کے منہ کے
سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھیں کہ امیدِ مغفرت ہے۔
جنازہ پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں حرج نہیں ، یونہی قبر پر پھول ڈالنا
بہتر ہے کہ جب تک تر رہیں گے، تسبیح کریں گے اور میت کا دل بہلے گا، اسی
لیے قبر پر سے ترگھاس نوچنانہ چاہیے کہ اس کی تسبیح سے رحمت اترتی ہے اور
میت کو انس ہوتا ہے اور نوچنے میں میت کا حق ضائع کرنا ہے۔
احادیث کریمہ میں وارد ہے کہ جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور مردے سے
سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے تو شیطان اس پر ظاہر ہوتا اور اپنی طرف
اشارہ کرتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں، اس لیے حکم آیا کہ میت کے لیے جواب میں
ثابت قدم رہنے کے لیے دعا کریں۔ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میت کو
دفن کرتے وقت دعا فرماتے ’’ الٰہی اسے شیطان سے بچا‘‘ اور صحیح حدیثوں سے
ثابت ہے کہ جب مؤذن اذان کہتا ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ تو
قبر پر اذان دینے کا یہ فائدہ تو ظاہر ہے کہ بفضلہ تعالیٰ میت کو شیطانِ
رجیم کے شر سے پناہ مل جاتی ہے اور اسی اذان کی برکت سے میت کو سوالاتِ
نکیرین کے جوابات بھی یاد آ جاتے ہیں، یہ دوسرا فائدہ ہوا، پھر اذان ذکرِ
الٰہی ہے اور جہاں ذکرِ الٰہی ہوتا ہے وہاں رحمت نازل ہوتی ہے۔ آسمان کے
دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، عذابِ الٰہی اٹھا لیا جاتا ہے، اور یہ تو ظاہر
ہے کہ ذکرِ الٰہی وحشت کو دُور کرتا ہے اور دل کو اطمینان بخشتا ہے، تو قبر
پر اذان سے میت سے عذاب اٹھ جانے اور اس کی وحشت دور ہوجانے کی قوی امید
ہے، اس لیے اذان زندوں کی طرف سے میت کے لیے ایک عجیب نفع بخش تحفہ ہے۔
کسی قبر پر ، سونا، چلنا، پاخانہ پیشاب کرنا حرام ہے۔ قبرستان میں جو نیا
راستہ نکلا گیا ہے اس سے گزرنا ناجائز ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کی قبر تک
جانا چاہتا ہے مگر قبروں پر گزرنا پڑے گا تو وہاں تک جانا منع ہے دور ہی سے
فاتحہ پڑھ لے اور قبرستان میںجوتیاں پہن کر نہ جائے اسی طرح وہ تمام باتیں
ممنوع ہیں جو باعثِ غفلت ہوں جیسے کھناپینا سونا، ہنسنا ، دنیا کا کوئی
کلام کرنا وغیرہ۔
کسی مسلمان کی موت پر اپنے مسلمان بھائی کو جو میت کے اقارب سے ہے، صبر کی
تلقین کرنا تعزیت ہے، تعزیت مسنون اور کارِ ثواب ہے۔ اس کا وقت موت سے تین
دن تک ہے اور کوئی عذر ہو تو بعد میں بھی حرج نہیں، تعزیت میںیہ کہنا چاہیے
کہ اللہ تعالیٰ میت کی مغفرت فرمائے اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو
صبر روزی کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے۔ |