حق ہی اصل طاقت ہے

جس کی لاٹھی اس کی بھینس یا مائٹ از رائٹ "طاقتور صحیح ہے" ایک مقولہ ہے جس میں صورتِ حال کے مطابق مثبت اور منفی دونوں صفات ہیں ، یہ زیادہ تر بیان کرتا ہے کہ اقتدار پر براجمان وہ لوگ ہیں جو طے کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ بیشتر یہ منفی صفت میں استعمال ہوتا ہےکہ طاقتور کو اپنے اعمال پہ پورا اختیار ہے جو غلط کام بھی کر سکتا ہے اور اس غلط کو صحیح ثابت کرنے کا پورا حق رکھتا ہے ۔جس میں آزادئیِ رائے یا اختلافِ رائے کی کسی کو قطعئی اجازت نہیں ہوتی۔ زمانہ قدیم میں بادشاہوں نے اپنے قابلِ اعتبار جنگجوؤں کے ذریعے کمزور بادشاہتوں کو اپنے قبضہ میں لیا اور یوں طاقتور سے طاقتور بادشاہتیں جنم لیتی گئیں۔ طاقتور بادشاہ اپنے مطلب اور فائدے کے قوانین بناتے گئے جن کو بادشاہ کے حامیوں کی حمایت جاری رہی جبکہ مخالفوں کو ایسی سیاسی صورت حال سےاخلاقی طور پر اختلاف ہی رہا اور وہ اس کو ناانصافی سمجھتے رہے۔
طاقتور کو طاقتور مان لینا ایک کمزور کی مجبوری ضرور ہے لیکن جرمنی کے ڈکٹیٹرایڈولف ہٹلر اور شہنشاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی مانند کمزور کے ساتھ زیادتیوں وناانصافیوں کے باوجود کس بُرے انجام کے ساتھ دونوں کو اقتدار اور اس دنیا سے رخصت ہونا پڑا جبکہ ہٹلر سمجھتا تھا کہ جس کے پاس طاقت ہے وہ تا قیامت حکمراں رہے گا اور اسی طرح رضا شاہ سمجھتا تھا کہ اس کے حامی تا قیامت قائم و دائم رہیں گے اور وہ کبھی بھی بادشاہ سے عام آدمی کی سطح پر نہیں آئیگا۔بنی نوع انسان کی حالیہ تاریخ بھی ان دونوں کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتی۔
ایک منفی صفات والی طاقت کی ناانصافیاں جب حد سے آگے نکلتی ہیں تو اس سے بڑی طاقت اس کو رد کرنے کے لئے جنم لے لیتی ہے جیسے عراق کے صدام حسین کےعوام پر مظالم حد سے بڑھ کر کویت پر قبضہ کی جانب بڑھے تو اس سے بڑی قوتیں اکٹھی ہو کر اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے وجود مین آ گئیں اور بالآخر صدام حسین کا وجود ہی ختم کر ڈالا۔ گویا ایک طاقتور بادشاہت کے خاتمے کے لئے اس سے زیادہ طاقتور بادشاہتیں اکٹھی ہو گئیں اور دنیا کو ماننا پڑا کہ یہی حق ہے، پس وقت کی مناسبت سے "جس کی لاٹھی اس کی بھینس " کی صفات بھی بدل جاتی ہیں۔
اصل مدعا یہاں یہ ہے کہ ہم اپنا عمل فطرت سے ہم آہنگ کیسے کریں جس کے لئے سادہ سا اصول اپنا لیں کہ اپنے سے زیادہ طاقتور کو "طاقتور" مان لیں یا پھر اس سے زیادہ "طاقتور" بن کر ثابت کریں کہ وہ غلط ہے اور آپ صحیح ہیں۔
طاقتور کو طاقتور مان لینا ہی ایک فطری امر ہے تو فطرت سے ہم آہنگی کے لئے طاقتور کے حکم کی تعمیل کرنے میں ہی عافیت ہے جس کے نتیجے میں کوئی فساد کھڑا نہیں ہوتا۔ قدیم تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت طاقتور بادشاہتیں بھی طویل عرصہ قائم نہ رہ سکیں ، چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ "حق ہی اصل طاقت ہے"۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 216 Articles with 162357 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More