لوکل بس کا سفر تحریر محمد وسیم بلوچ
(Muhammad Waseem, Lahore)
لوکل بس کا سفر
کل صبح صبح تقریباً آٹھ بجے لاری اڈے پر کھڑا بس کا انتظار کر رہا
تھا لیکن بس کی آمد کے آثار پاکستان کے خرانے کی طرح کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے
اب پتہ نہیں مجھے جلدی تھی یا بس ہی لیٹ تھی آس پاس پھیلے کچرے کی بدبو کی وجہ سے
پہلے ہی وہاں کھڑے ہونا محال ہو رہا تھا جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آ رہے تھے وہ
لاری اڈا کم اور کچرا کنڈی زیادہ لگ رہی تھا پتھر کی چند کرسیاں پڑی تھی جو پہلے سے
ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ان کو بس حسرت سے دیکھا ہی جا سکتا تھا کیونکہ استعمال کے
قابل تو وہ تھی ہی نہیں اس دوران ایک بدتمیز مکھی نے آکر ناک پر ڈیرا جما لیا نا
چاہتے ہوئے بھی سردی کے موسم میں ناک پر بیٹھی مکھی کو ہاتھ کے اشارے سے اڑانا چاہا
جس کا اس نے فوری کوئی نوٹس نا لیا آخر ایک زوردار تھپڑ نے میری ناک لال کر دی تو
وہ بھنبھناتی ہوئی بڑی نزاکت سے اڑ کر وہاں سے رفو چکر ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ میں
کچرے کی بدبو سے بہوش ہو کر گرتا بس دور سے خراماں خراماں چلتی ہوئی دکھائی دی۔ بس
کی رفتار اتنی تیز تھی کہ بندہ بھاگ کر اس سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ سکتا تھا۔
وہاں پر موجود ہجوم امڈ کر سڑک پر آگیا بس ابھی پہنچی نہیں تھی جبکہ دھکم پیل پہلے
ہی شروع ہوگئی تھی ہر کوئی سب سے پہلے بس میں گھس کر سیٹ پر قبضہ جمانے کے چکروں
میں تھا جیسے بس کی نہیں قومی اسمبلی کی سیٹیں ہوں کہ ہر کوئی ان پر بیٹھنے کا
مشتاق ہے بس میں سیٹیں پہلے ہی کم تھی کیونکہ گاڑی تو پہلے ہی فل تھی اب ٹن ہوگئی
تھی۔
بس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ جنگ عظیم اول میں یہی بس استعمال ہوئی ہے
جگہ جگہ سے اس کا پینٹ اترا ہوا تھا ہارن کے علاوہ اس کی ہر چیز بج رہی تھی۔ شیشے
نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی جس کی وجہ سے گاڑی میں اے سی لگوانے کی قطعی
ضرورت نہ تھی کیونکہ قدرتی اے سی دستیاب تھا حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ابھی سڑک
پر بکھر جائے گی ڈرائیور کو بریک پر کھڑے ہو کر بریک مارنی پڑی تب جا کر محترمہ
اپنے سٹاپ سے بھی دو سو میٹر دور جا کر رکی تھی۔
بس میں جگہ تو مل گئی پر سیٹ ملنا نا ممکن نظر آ رہا تھا بس کی رفتار دیکھ کر
اندازہ ہو رہا تھا کہ ان شاءاللہ شام تک تو اپنے سٹاپ پر پہنچ کر ہی دم لے گی اچانک
ہی ایک خوف ناک قسم کے کھڈے میں بس کا ٹائر آیا اور سواریاں گیلری میں کرتب دکھاتی
ہوئی نظر آئی تھی کچھ نے تو باقاعدہ بندر کی طرح قلابازیاں بھی کھائی تھی جس کا کسی
نے کوئی خاص برا نہیں منایا کیونکہ وہ اکثر ایسی قلابازیاں کھانے کے عادی تھے اس
لیے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر چپ ہوگئے سڑک کی حالت دیکھ کر مجھے تو یقین ہو چلا
تھا کہ بس اپنے سٹاپ تک سلامت پہنچے نا پہنچے سواریاں سلامت نہیں پہنچیں گی جتنی
بھی آیتیں یاد تھی سب ایک ساتھ پڑھ ڈالی ہر ہر کھڈے پر پوری گاڑی میں کلمہ طیبہ کا
ورد اور اللہ ہو اکبر کی صدائیں بلند ہوتی تھی بس کے انجن سے لے کر کھڑکیاں دروازے
تک کھڑک رہے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا میں کسی بس میں نہیں ہیلی کاپٹر میں سوار
ہوگیا ہوں اور اتنی سردی میں بھی بس کے اندر ہجوم کی وجہ سے اچھا خاصہ حبس محسوس ہو
رہا تھا میرے ماتھے پر تو باقاعدہ پسینہ آگیا تھا اب پتہ نہیں یہ اس خوفناک سفر کا
ڈر تھا یا گاڑی میں موجود انسانوں کا ہجوم۔
چند کلو میٹر کا سفر سیکڑوں میل کا سفر محسوس ہو رہا تھا خدا خدا کرکے وہ سٹاپ آ ہی
گیا جہاں مجھے اترنا تھا باہر نکلتے ہی سب سے پہلے ایک لمبا سانس لے کر اپنی رکتی
ہوئی سانسوں کو بحال کیا اور پھر الحمدللہ پڑھ کر اپنی منزل کی طرف قدم بڑھا دئیے
لیکن ایک شعر اس وقت میرے دماغ میں مسلسل گردش کر رہا تھا
بڑے بے آبرو ہو کر جاناں
تیرے کوچے سے ہم نکلے
ختم شد