یہ بندے مٹی کے بندے تحریر محمد وسیم بلوچ

(Muhammad Waseem, Lahore)

کیپٹن آصف نے کرنل اعجاز حسین کے آفس میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے سلیوٹ کیا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا کیپٹن آصف کرنل اعجاز کا سگا بھیتجا تھا لیکن اس کے باوجود اس کی سفارش کی اور نا ہی کبھی اس کو کسی معاملے میں رعایت دی

آپ نے بلایا تھا سر
کیپٹن آصف نے اسی طرح کھڑے کھڑے سوال کیا

میں چاہتا ہوں کہ ہم دونوں چائے پر بیٹھ کر کچھ دوستانہ گفتگو نا کر لیں ؟
کافی عرصہ بیت گیا ہم دونوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر چائے نہیں پی
انہوں نے مسکراتے ہوئے آفر کی تو آصف نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا کیونکہ انہوں نے آج ایک طویل عرصے بعد اسے یہ آفر کی تھی

سر
آصف کہ منہ سے بس اتنا ہی نکلا تھا کیونکہ ان تین سالوں میں اس کا سامنا صرف ایک سخت گیر کرنل سے ہی ہوا تھا اس وردی میں اس کو چچا کہیں نظر نہیں آیا تھا لیکن آج خلاف توقع وہ نرمی سے بات کر رہا تھا آج اس کو کرنل اعجاز نہیں ایک شفیق چچا جو اس سے بے حد محبت کرتا تھا نظر آ رہا تھا

ایسے کیا دیکھ رہے ہو برخوردار بیٹھ جاؤ
کرنل صاحب نے اس کو بت بنے دیکھا تو مسکراتے ہوئے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور خود ریسیور اٹھا کر چائے اور کچھ کھانے پینے کا آرڈر کیا اتنی دیر میں کیپٹن آصف اپنی سیٹ سنبھال چکا تھا

آصف تمہیں پتہ ہے کہ آج میں بہت خوش ہوں کیونکہ تم نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے تم نے میری وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بل بوتے پر اس مقام تک پہنچے ہو
پوری یونٹ تمہاری خداد صلاحیتوں کی معترف ہے تم نے اپنا ہر ٹاسک بہت اچھے طریقے سے پورا کیا اب ہم تمہیں ایک خطرناک مشن پر بھیج رہے ہیں اور میں امید کرتا ہوں تم پہلے کی طرح اپنا فرض بخوبی نبھاؤ گے لیکن اس سے پہلے میں تم سے چند باتیں کرنا چاہتا تھا
کرنل اعجاز نے ریسیور کریڈل پر رکھتے ہی بڑے نرم لہجے میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا

میں اپنا فرض احسن طریقے سے پورا کرنے کےلیے اپنی جان تک لڑا دوں گا سر
آصف نے دایاں ہاتھ سینے پر رکھ سر کو ہلکا سا خم دیا

شاباش میرے بہادر مجھے تم سے یہی توقع ہے
کرنل اعجاز کی چھاتی فخر سے چوڑی ہوگئی

بیٹا یہ پاکستان اس لیے آزاد نہیں ہوا کہ ہم چودہ اگست اور یوم پاکستان کے موقعوں پر پاکستانی پرچم کو موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر لہرا کر سارا دن سڑکوں اور پارکوں میں دندناتے پھریں یا سارا دن بائیکس پر بیٹھ کر لڑکیوں کا پیچھا کرتے رہیں
ہم ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری کوئی تاریخ نہیں یا ہم نے بیٹھے بٹھائے یہ ملک حاصل کر لیا
ہم سے پہلے ہمارے بڑوں نے اپنا خون دے کا کر اس گلشن کی حفاظت کی ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں امن اور سکون کے ساتھ رہہ سکیں اور اس امن کی ہم نے بھاری قیمت چکائی ہے
اتنی دیر میں چائے اور کھانے کےلیے چند لوازمات ان دونوں کے سامنے رکھ دئیے گئے تھے لیکن آصف کی پوری توجہ کرنل اعجاز کی باتوں پر تھی

آزادی کیا ہے ؟
اس کی قدر وقیمت جاننا چاہتے ہو تو کشمیر اور فلسطین کو دیکھ لو کئی سالوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لاکھوں کو شہید کر دیا گیا اور ان کی عزتوں کو پامال کیا گیا ہر طرف خون کی بدیاں بہا دی گئی کشمیر میں کرفیو کو ایک سال سے اوپر ہوگیا ہے لیکن یہ تمام مظالم بھی ان کے حوصلے کو نہیں توڑ سکے وہ پھر بھی بڑی جواں مردی سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان شاءاللہ ایک دن ضرور آزادی ان کا مقدر بنے گی کیونکہ ان کو آزادی کی اصل قدر وقیمت معلوم ہے

لیکن یہاں کچھ لوگ ہیں جو اپنی ہی دھرتی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں پر بھونکتے رہتے ہیں کیونکہ ان کو اس چیز کےلیے فنڈنگ کی جاتی ہے ان کا مقصد ہماری عوام کا ہم پر سے اعتبار کم کرنا ہے لیکن ہم نے ان کی خوش فہمیوں کو ختم کرنا ہے
ہم بیک وقت کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں ایک وہ دشمن ہے جو سرحد پار بیٹھا ہے جس کا ہم سب کو پتہ ہے اور ایک وہ دشمن ہے جو ہمارے اپنوں میں دوست کے روپ میں چھپ کر بیٹھا ہے جس کا کسی کو پتہ نہیں ہے وہ کبھی بھی چھپ کر کسی بھی روپ میں ہم پر وار کر سکتا ہے کبھی خود کش حملوں کے ذریعے اور کبھی چند ضمیر فروش صحافیوں کے ذریعے جو کھاتے تو پاکستان کا ہیں لیکن ان کی زبانیں دشمنی کی بولی بولتی ہیں
الحمدللہ پاکستانی فوج ہر محاذ اور ہر مشن سے سرخرو ہو کر نکلی ہے اور ان شاءاللہ ایک دن ہم اس اندرونی دشمنی کا مکمل طور پر صفایا کر دیں گے جو اندر ہی اندر سے ہماری جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور بیرونی طاقتوں کے دانت کھٹے کرنے کےلیے یہ ضروری ہے کہ پہلے ہم گھر میں بیٹھے غداروں کا صفایا کریں
کرنل اعجاز نے چائے کا کپ اٹھایا اور ایک سپ لینے کے بعد دوبارہ سامنے رکھ دیا

میں نے اکثر لوگوں کو پاکستان میں برے حالات کا رونا روتے دیکھا ہے لیکن پاکستان کی یہ حالت کس نے کی ہے ؟
کرنل اعجاز کے لہجے میں تلخی در آئی

پاکستان کی اس حالت کے ذمہ دار ہم سب ہیں
کیونکہ ہم نے خود کو مثالی قوم ثابت کرنے کی بجائے ترکی کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں ہم خود کو ایسا کیوں نہیں بناتے کہ دوسرے ہماری مثال دیں
ترکی ایک شاندار قوم ہے اور اس نے یہاں تک پہنچے کےلیے بہت قربانیاں دیں ہیں ان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے وہ اپنے اصل کو نہیں بھولے ان لوگوں نے اپنی روایات کو یاد رکھا اور اپنی آنے والی نسل کو بھی اس سے رُوشناس کروایا
لیکن ہم نے کیا کیا ؟
ہم نے اپنا ماضی بھلا دیا ہم لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری فوج کے کتنے جوان ہمارے امن کی نظر ہوگئے ہیں یہ جو ہم گھروں میں سکون کی نیند سوتے ہیں یہ سب ان کی بدولت ہے جن کو ہم بجٹ کھانے والی فوج کہتے ہیں
وہ سرحدوں پر چوکس کھڑے ہمارے امن کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں اور ہم ٹی وی پر بیٹھ کر اور ایک ٹوئٹ کرکے خود کو ملک وقوم کا خیرخواہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

چند ضمیر فروشوں اور غداروں کی وجہ سے ہم پوری قوم کو موردالزم نہیں ٹھہرا سکتے جن کو شناخت پاکستان نے دی لیکن ان کے قلم وفاداری دشمنوں کی کر رہے ہیں لیکن ان شاءاللہ ایسے لوگوں کا انجام بھی عبرت ناک ہوگا
کرنل اعجاز سانس لینے کےلیے ایک لمحہ رکا

یہ ساری باتیں تم سے کرنے کا مقصد تمہیں سمجھانا ہے بیٹا کہ کبھی اپنے ماضی اور اپنی روایات کو مت بھولنا یہ مت بھولنا کہ ہم نے پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت کرنے کی قسم کھائی ہے جس کی حفاظت میں ہمارے کئی شہیدوں کا خون شامل ہے اگر ضرورت پڑے تو اپنے خون کا نذرانہ دے کر اپنے ملک اور قوم کی لاج رکھ لینا
خدا کی قسم پوری قوم کو تم پر ناز ہوگا اور تمہارا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا
کرنل اعجاز نے جھک کر کیپٹن آصف کے ہاتھ پر تھپکی دیتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا

میں اپنا سب کچھ اپنے وطن پر قربان کرنے کا عزم لے کر ہی پاک فوج کا حصہ بنا تھا میں جانتا ہوں یہاں کم ضرف اور بزدلوں کےلیے کوئی جگہ نہیں ہے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے ملک اور قوم کی خاظر جان دینے کےلیے ہمہ وقت تیار ہوں میں اس سبز ہلالی پرچم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے ملک وقوم کے دشمنوں اور اس میں گھس کر اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں کے خلاف لڑتا رہوں گا
کیونکہ ہمارے کمانڈر کا حکم ہے کہ ہمارا ہر سپاہی اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑے گا ان شاءاللہ
کیپٹن آصف نے کھڑے ہو کر سینہ تان کر جواب دیا

شاباش میرے بہادر شاباش جاؤ یہ زمین ملک دشمن عناصر پر تنگ کر دو اللہ تمہارا حامی وناصر ہو
پاکستان زندہ باد
جواب میں کرنل اعجاز نے بھی کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے سلیوٹ کیا اور دعاؤں کے ساتھ الوداع کیا

اگرچہ تیرا آج لہو رنگ ہے مگر
میں تیرا کل تو سنوار سکتا ہوں

اک عمر کیا میں ہزار عمریں اے وطن
تیرے سبز ہلالی پرچم پہ وار سکتا ہوں

ختم شد
# نوٹ
خدارا اپنے ملک ا ور اپنی افواج کی قدر کریں چند ملک دشمن عناصر ایک پروپیگنڈے کے تحت عوام میں پاک فوج کے خلاف زہر اگل رہے ہیں تاکہ عوام کا اعتماد اپنی افواج سے کم ہو جائے لیکن ان شاءاللہ ہم ہر جگہ ہر پلیٹ فارم پر اپنی افواج اور اپنے ملک کا دفاع کریں گے اور خود کو ایک مثالی قوم بنائیں گے ان شاءاللہ
اور یہ سب ہم تب ہی کر سکیں گے جب ہم سب ملکر کام کریں گی کیونکہ زندہ قومیں ہی تاریخ کا حصہ بنتی ہیں
میری اس ادنی سی کاوش پر اپنی رائے دینا مت بھولیں شکریہ

Muhammad Waseem
About the Author: Muhammad Waseem Read More Articles by Muhammad Waseem: 7 Articles with 9384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.