آخر دنیا میں غریب اور مشکلات میں گھرے انسان کیوں ہیں
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
جب تک خالقِ کائنات کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کو پسِ پشت نہ ڈالا اور "جو تیری مرضی" پہ اکتفا نہ کیا ، اس وقت تک اس کا جواب بھی نہ ملا کہ آخر دنیا میں غریب اور مشکلات میں گھرے انسان کیوں ہیں۔یوں تو کوئی نہ کوئی توجیح نکال کر اپنے آپ کو تسلی دے دیتا تھا لیکن کل جب ایک اوپن ائیر ریسٹورنٹ کی کرسی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا تو ایک بچہ آیا اور پوچھنے لگا 'صاحب ! آپ کی چپل پر پالش کر دوں ، میں نے ہاں کردی۔ اس بچے نے اتنی عمدہ پالش کی کہ میری چپل بالکل نئی ہو گئی، سوچا کہ اس نے جو اپنی مزدوری مانگی ہے اس سے کچھ زیادہ پیسے اس کو دے دوں لیکن اچانک خیال آیا کہ اگر وہ محنت کرکے اپنا پیٹ پالنا و دیگر ذمہ داریاں پوری کرنا چاہتا ہے تو میں بِلا محنت کے پیسے اس کو نہ دوں تو بہتر ہے۔ اس نے پیسے لئے اور آگے بڑھ گیا۔ گھر آکر مجھے اتنا سکون محسوس ہؤا کہ بیان سے باہر کیونکہ یقین ہوگیا کہ خالقِ کائنات نے کسی کو زیادہ دے دیا اور کسی کو کم، جس کی وجہ سمجھ آ گئی ۔ فطرت کا نظام بے عیب ہے، اس نظام کو تخلیق دینے والا، اس کا بانی ہی اس کو سب سے بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے، لہٰذا اس کی مرضی۔ اگر وہ اس انداز میں نظام کی تخلیق نہ کرتا تو غریب محنت کش تو بھوکا ہی مر جاتا اور امیر کی وہ ضروریات کون پوری کرتا جنہیں وہ خود سر انجام نہیں دے پاتا۔ گویا ہمیں بلاوجہ اپنے تفویض کردہ دائرے سے باہر نکل کر فضول باتیں سوچ کر ابلیس کی ٹیم میں شامل ہونے کے خطرات مول لینے کے بجائے اپنے ہر عمل اور اپنی سوچ کو فطرت سے ہم آہنگ رکھنا چاہئے تاکہ خالقِ کائنات ہم سے راضی رہے۔
|