خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

خاتم الانبیاء والمرسلین کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلہ نبوت ختم کر دیا۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ۔ آپ کی ذات پاک پر نبوت کا خاتمہ ہو گیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت سید نا آدم علیہ السلام کے زمانہ سے روز قیامت تک تمام مخلوقات کو عام ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام جن و انسان اور فرشتوں کو شامل ہے بلکہ تمام حیوانات ، جمادات، نباتات آپ کی رسالت کے دائرہ میں داخل ہیں تو جس طرح انسان کے ذمہ حضور کی اطاعت فرض ہے یونہی ہر مخلوق پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمانبرداری ضروری ہے اور یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بادشاہ زمین و آسمان ہیں اور خدا کی ساری مخلوق کے لیے نبی ورسول بنا کر بھیجے گئے ہیں تو تمام نبیوں اور رسولوں کے بھی آپ رسول ہوئے اور جب حضور ان کے رسول ہوئے تو یہ حضرات آپ ہی حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ٹھہرے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں:
قرآن شریف میں ارشاد فرمایا گیا :
ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبین o
ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور سب نیبوں میں پچھلے۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم النبین اور آخری نبی ہونا اور آپ پر نبوت کا ختم ہوجانا،آپ کے بعد کسی نئے نبی کا نہ قطعی ایقانی اجماعی عقیدہ ہے، نصِ قرآنی بھی یہی بتاتی ہے اور بکثرت احادیثِ صحیحہ، جو حدِ تواتر تک پہنچتی ہیں، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی ہونے والا نہیں اور تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ اقدس کے بعد جب بھی دنیا کے کسی گوشہ سے کسی مجنون لایعقل کے منہ سے دعویٔ نبوت ہوا، امتِ مسلمہ نے اس کے دعویٰ کو ٹھکرا کر اسی کے منہ پر ماردیا۔

صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت میں مدعیانِ نبوت کے خلاف تمام صحابۂ کرام کا جہاد بتا رہا ہے کہ انہوں نے خاتم النبین کے یہی معنی سمجھے اور اسی پر کاربند رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کسی نئے نبی کی گنجائش نہیں اور مسیلمہ کذاب کا جو حشر ہوا وہ سب پر روشن ہے۔

خاتم النبین کے معنی چار قسم پر ہیں، لغوی، شرعی، عرفی عام وخاص۔

یہاں شرعی معنی کے لحاظ سے تو خاتم النبیین کے معنی آخر الا نبیاء ہی متعین ہیں، کسی اور معنی کا ادنیٰ سے ادنیٰ احتمال بھی نہیں اور عرفِ عام بھی اسی معنی شرعی پر ہے اور معنی لغوی کے اعتبار سے بھی خاتم بمعنی مُہر یا بمعنی افضل مراد لینا ، قطعاً باطل ہے۔ عربی کی تمام معتبر اور مشہور لغات سے یہی بات ثابت ہے کہ خاتم (بفتحِ تائ) ہو یا خاتم (بکسرِتائ) آخر ’’ شی ‘‘ اس کے حقیقی معنی ہیں اور جب کسی شخصیت کے لیے بولا جائے تو آخر القوم مراد ہوتے ہیں تو خاتم النبین کے معنی ہوئے آخر الانبیاء اور خاتم الانبیاء تب ہی صحیح ہوگا کہ آنے والا آخری نبی ہو، اور لغت و شرع و عرف عام سے ہٹ کر اپنی اپنی اصلاح قائم کرنا اور کسی لفظ کے ایک نئے معنی گھڑنا یا خاص کر لینا نہ صر ف نرِی گمراہی بلکہ کھلا زندقہ والحاد ہے کہ اگر ایسے دعوے قابلِ سماعت ہوں تو دین و دنیا کے تمام کارخانے درہم برہم ہو جائیں۔

اوراگر خاتم بمعنیٰ مہرہی لیا جائے اور خاتم النبین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘کے کئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح کسی چیز کے ختم پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ اس تحریر یا شئے کا اختتام ہو گیا اور اب اس میں کسی بھی اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہی تو نبیوں کی مہر‘‘ کا مطلب بھی یہی ہو ا کہ اب فہرست انبیاء و مرسلین میں کسی اصافے کی گنجائش نہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے اور ہمیشہ زہین نشین رکھنی چاہیے کہ قرآنِ کریم کا حکیمانہ طریقہ استد لال یہ ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف اسلوب سے ادا فرمادیتا ہے اور ایک آیت دوسری آیت کی خود ہی تفسیر بن جاتی ہے اور حقیقت حال روشن ہو کر سامنے آجاتی ہے چنانچہ یہاں بھی یہی صورتِ حال موجود ہے، قرآنِ حکیم کا وہ اعلان بھی آپ سن چکے کہ الیوم اکملت لکم دینکم o

اس آیت میں نہ خاتَم ہے نہ خاتِم کہ خواہ مخواہ کے احتمالات پیدا کئے جائیں، صاف صاف بتادیا گیا کہ شریعتِ خداوندی رفتہ رفتہ اب اس حد تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد اب ترقی کا خاتمہ ہے اس لیے کہ وہ کامل و مکمل ہر کر سامنے گئی اور جب کسی نئے پیغام کی ضرورت باقی نہ رہی تو نئے پیغمبر کی ضرورت خود بخود باقی نہیںرہتی اور رہتی دنیا تک یہی پیغام و پیغمبر کا فی ہے۔

پھر جبکہ خود صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بکثرت احادیث میں یہ معنی بیان فرما دئیے کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں تو کسی اور معنی کے تصور کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

الغرض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نئی نبوت کا دعویٰ یا اقرار یا اس کی تصدیق کرنے والا زندیق و مرتد ہے اور ختمِ نبوت بمعنیٔ مشہور کا منکر نہ صرف منکر بلکہ اس میں شک کرنے والا، نہ صرف شک کرنے والا بلکہ اس میں نئے معنی کا ادنیٰ یا ضعیف سے ضعیف احتمال ماننے والا ملعون ، دائرئہ اسلام سے خارج اور جہنمی ہے۔

نہ صرف دو چار، دس بیس بلکہ احادیث اس باب میں متواتر ہیں اور ان کا ماحصل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۱۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا (معنیٰ یہ کہ ان کا حشر میرے بعد ہوگا) میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (بخاری، مسلم ،ترمذی شریف)
۲۔ میں سب انبیاء میں آخری نبی ہوں۔ (مسلم وغیرہ)
۳۔ بالیقین میں اللہ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم البنین لکھا تھا اور ہنوز آدم اپنی مٹی میں تھے۔ (احمد و حاکم)
۴۔ بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول نہ کوئی نبی (احمد، ترمذی)
۵۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور دنیا جانتی ہے کہ عمر فاروق اعظم نبی نہ تھے، تو ثابت ہو گیا کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔
۶۔ میری امت میں (یعنی امتِ دعوت میں میں کہ مومن و کافر سب کو شامل ہے) قریب تیس کے دجال نکلیں گے، ان میں ہر ایک کا گمان یہ ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں (مسلم)
۷۔ میری اور سب انبیاء کی مثال ایک محل کی سی ہے جسے خوب بنایا گیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی، دیکھنے والے آتے اور اس کی خوبی تعمیر سے تعجب کرتے مگر وہی ایک اینٹ کی جگہ نگاہوں میں کھٹکتی ، میں نے تشریف لا کر اس خالی جگہ کو بھر دیا ہے اب وہ عمارت میری وجہ سے مکمل ہو گئی ، مجھ سے رسولوں کی انتہا ہوئی ہیں قصرِ نبوت کی وہ پچھلی اینٹ ہوں اور خاتم الانبیاء۔ (بخاری ، مسلم)
۸۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنا دی گئی، ارشاد فرماتے ہیں (ﷺ) جعلت لی الارض مسجدا وطھورا (مسلم)یعنی میرے لیے ساری زمین مسجد گاہ او ر طاہر و مطہر (پاک کرنے والی) قرار دی گئی ۔

یہودی اپنے کنیسہ اور عیسائی اپنے کلیسا کے بغیر نماز نہ پڑھا کرتے تھے، مجوسی بھی آتشکدہ کے بغیر اور ہندوں مندروں کے بغیر سرگرمِ عبادت نہ ہوا کرتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کے مطابق، مسلمانوں کی نماز نہ محرابِ عبادت کی محتاج ہے ، نہ کسی مکان و مسجد کی موجودگی پر ان کی سجدہ ریزی موقوف ، ان کا گرمایا ہوا دل اور روشن آنکھیں آگ کی حرارت و رشنی سے بے نیاز ہیں اس لیے روئے زمین کا ہر ایک بقعہ اور ہر ایک قطعہ ان کی سجدہ ریزی کے لیے موزوں ہے اور اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو حضور کی مسجد بنا دیا ہے ۔

یونہی طہارت نماز کے لیے شرط ہے لیکن کیا نماز ، پانی کی غیر موجودگی کی صورت میں ان مسلمانوں پر معاف ہو جاتی جو گھاس کے پتے پتے اور زمین کے ذرہ ذرہ سے معرفتِ الٰہی کے خزانے سمیٹتے ہیں اور ڈالی ڈالی ، پتہ پتہ ان کی نگاہوں میں معرفتِ الٰہی کا سرچشمہ ہے۔

انسان مٹی ہی سے بنا ہے ،مٹی ہی اس کی اصل ہے اور مٹی ہی اس کو بن جانا ہے، مٹی ہی مخلوقات کا گہوارہ ہے اور مٹی ہی سے زمین کی کائنات اپنی خوراک حاصل کرتی ہے، اس لیے مٹی ہی کو طہور، پانی کے قائم مقام ، طاہر و مطہر بنا دیا گیا۔

۹۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوامع الکلم کا عطیہ بخشا گیا۔

عالِم اعلم سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اعطیت بجو امع الکم’’مجھے جامع کلام دیا گیا(لفظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ) (بخاری و مسلم)

جب کوئی شخص ان مبارک لفظوں پر غور کرے گا جو حضور پرنور کے دل وزبان سے گوش عالمیاں (مخلوق کے کانوں) تک پہنچے اسے یقین ہو جائے گا کہ بے شک یہ کلام نبوت ہے، مختصر سادہ، صاف، صداقت سے معمور، معانی کا خزینہ، ہدایت کا گنجینہ۔

ایک اور حدیث شریف میں ہے اختصر لی اختصارا یعنی میرے لیے کمال اختصار کیا گیا۔
(۱) مجھے اختصارِ کلام بخشا کہ تھوڑے لفظ ہوں او ر معنی زیادہ۔
(۲) میرے لیے زمانہ کو مختصر کیا کہ میری امت کو قبروں میں کم وقت کے لیے رہنا پڑے گا۔
(۳) میرے لیے امت کی عمریں کم کیں کہ دنیا کے مکروہات سے جلد خلاصی پائیں، گناہ کم ہوں اور نعمتِ باقی تک جلدپہنچیں۔
(۴) میرے غلاموں کے لیے پل صراط کی راہ (کہ پندرہ ہزار بر س کی ہے) اتنی مختصر کر دی گئی کہ چشم زدن میں گزر جائیں گے جیسے بجلی کَوند گئی۔ (بخاری ومسلم)
(۵) قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہے، میرے غلاموں کے لیے اس سے کم دیر میں گزر جائے گا جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھا کرتے ہیں۔ (احمد و بہیقی)
(۶) میری امت کے تھوڑے عمل پر اجز زیادہ دیا۔
( ۷) وہ علوم و معارف جو ہزار سال کی محنت دریاضت میں حاصل نہ ہو سکیں ، میری چند روزہ خدمت گاری میں میرے اصحاب پر منکشف فرمائے۔
(۸) زمین سے عرش تک لاکھوں برس کی راہ میرے لیے ایسی مختصر کر دی کہ آنا اور جانا اور تمام مقامات کو تفصیلاً ملاحظہ فرمانا سب تین ساعت میں ہو لیا۔
(۹) مجھ پر وہ کتاب اتاری جس کے معدود ورقوں میں تمام گذشتہ اور آئندہ چیزوں کا روشن، مفصل بیان ہے، جس کی ہر آیت کے نیچے ساٹھ ساٹھ ہزار علم، جس کی ایک آیت کی تفسیر سے ستر ستر اونٹ بھر جائیں۔
(۱۰) مشرق تا مغرب اتنی وسیع دنیا کو میرے سامنے ایسا مختصر کر دیا کہ میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے، سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسا اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔ (طبرانی وغیرہ)
(۱۱) اگلی امتوں پر جو اعمال شاقہ (مشقت طلب) طویلہ تھے ، میری امت سے اٹھا لیے پچاس نمازوں کی پانچ رہیں اور حسابِ کرم وثواب میں پوری پچاس ، زکوٰۃ میں چہارم مال کی جگہ چالیسواں حصہ فرض رہا اور اجر و ثواب میں وہی چہارم کا چہارم، وعلیٰ ہذالقیاس۔
یہ حضور کے اختصارِ کلام سے ہے کہ ایک لفظ کے اتنے کثیر معنی (افادیت رضویہ)
(۱۲) حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منصبِ شفاعت دیا گیا۔
ارشادِ گرامی ہے:
واعطیت الشفاعۃ o
ترجمہ: یعنی مجھے شفاعت کا حق دیا گیا۔

شفاعت کی حدیثیں بھی متواتر ہیں اور ہر مسلمان صحیح الایمان کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ قبائے کرامت، اس مبارک قامت، شایانِ امامت، سزااور سیادت کے سوا کسی قدِ بالا پر راست نہ آئی، نہ کسی نے بارگاہِ الٰہی میں ان کے سوا یہ وجاہت عظمٰی و محبوبیتِ کبریٰ واذنِ سفارش واختیار گذارش کی دولت پائی۔

روزِ قیامت کہ تمام اولین و آخرین ایک مدیان وسیعے و ہموار میں جمع ہوں گے اور گرمی آفتاب سے طاقت طاق ہوگی خود ہی تجویز کریں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے، ان کے پاس جائیں گے ، شفاعت کے لیے عرض کریں گے ، آپ فرمائیں گے نفسی نفسی اذھبو آ الیٰ غیری oمجھے اپنی جان کی فکر ہے تم نوح کے پاس جاؤ اور یونہی باری باری تمام لوگ حضرتِ نوح علیہ السلام ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور سب جگہ سے مایوس ہو کر تھکے ہارے، مصیبت، کے مارے، ہاتھ پاؤں چھوڑے ، چاروں طرف سے امیدیں توڑے، مولائے دو جہاں حضور پر نور محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عرش جاہ بیکس پناہ میں حاضر ہوں گے اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں ان کی سفارش فرما کر ان کی بگڑی بنا ئیں گے۔

تمام اہل محشر کا حضور سے پہلے دیگر انبیائے کرام کے پاس حاضر ہونا اور دفعۃً حضور کی خدمت میں حاضری نہ دینا اور میدانِ قیامت میں (کہ صحابہ و تابعین ، ائمۂ محدثین اور اولیائے کا ملین بلکہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء سبھی موجود ہوں گے) اس جانی پہچانی بات کا ان کے دلوں میں سے بھلا دیا جانا، صاف بتا رہا ہے کہ یہ سارے انتظامات اس لیے کیے گئے کہ اولین و آخرین، موافقین و مخالفین پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و وجاہت کا راز کھل جائے اور کسی شخص کو یہ شبہہ باقی نہ رہے کہ اگر ہم سرورِ عالم کے سوا کسی دوسرے کے پاس جاتے تو ممکن تھا کہ وہ بھی شفاعت کر ہی دیتے، اب جبکہ ہر جگہ سے صاف جواب مل جائے گا تو سب کو بالیقین معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصبِ رفیع حضور ہی کی خصوصیتِ خاصہ کا مظہر ہے۔

٭ لطیفہ ٭
ہم کہتے ہیں شفاعت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق ہے اور ہم قطعاً حق پر ہیں ان کے کرم سے ہمارے لیے ہوگی، منافق کہتے ہیں شفاعت محال ہے اوروہ ٹھیک کہتے ہیں ، کہ ان کے لیے نہ ہوگی۔

گر بر تو حرامست ، حرامت بادہ

خود حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں روزِ قیامت میری شفاعت حق ہے تو جو اس پر یقین نہ لائے وہ اس کے لائق نہیں۔ الغرض حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص کی پانچ دس کیا سو اور دو سو پر بھی انتہاء نہیں، امامِ سیوطی نے ڈھائی سو کے قریب خصائص شمار کئے ، ان سے زیادہ علم والے زیادہ جانتے تھے اور علمائے ظاہر سے علمائے باطن کو زیادہ معلوم ہے پھر صحابہ کرام کا علم ہے اور ان کے علوم سے ہزاروں منزلیں آگے حضورنبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم ہے جس قدر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے فضائل و خصائص جانتے ہیں، دوسرا کیا جانے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ان کا مالک و مولیٰ ہے جس نے ہزاروں فضائل عالیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دئیے اور بے حدوبے شمار ابد الآباد کے لیے رکھے، اسی لیے حدیث میں ہے’’ اے ابو بکر! مجھے ٹھیک ٹھیک جیسا ہوں، میرے رب کے سوا کسی نے نہ پہچانا‘‘ (مطالع المسرات)

تُرا چناں کہ توئی دیدئہ کجا بیند
بقدرِ بینش خود، ہر کسے کندادراک

صلی اللہ علیک وآلک وسلم یا حبیب اللہ
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1359701 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.