شفاعت کے معنی ہیں کسی شخص کو
اپنے بڑے کے حضور میں اپنے چھوٹے کے لیے سفارش کرنا۔ شفاعت دھمکی اور دباؤ
سے کسی بات کے منوانے کو نہیں کہتے اور نہ شفاعت ڈر کر یا دب کر مانی جاتی
ہے۔ اتنی بات تو عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ دب کر بات ماننا قبول سفارش نہیں
بلکہ نامردی و بزدلی اور مجبوری و ناچاری ہے اور دباؤ سے کام نکالنے کو
دھمکی اور دھونس کہتے ہیں نہ کہ شفاعت و سفارش ۔
شفاعت کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ
خاصانِ خدا کی شفاعت حق ہے، اس پر اجماع ہے اور بکثرت آیات قرآن اس کی شاہد
ہیں، احادیث کریمہ اس باب میں درجہ شہرت بلکہ تواترِ معنو ی تک پہنچی ہیں۔
کتب دینیہ اس سے مالا مال ہیں۔ اس عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ واحد قہار
جل جلالہٗ خالق و مالک و شہنشاہ حقیقی ہے۔ اس کو کسی سے کسی قسم کا نہ لالچ
ہے نہ ڈر، وہ تمام عالم سے غنی ہے اور سب اس کے محتاج ہیں، اسی نے اپنی
قدرت کاملہ و حکمت بالغہ سے اپنے بندوں میں سے اپنے محبوبوں کو چن لیا اور
اپنے محبوبوں کا سرادار مدنی تاجدار احمدِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا۔
وہ باکمال بے نیازی اپنے کرم سے اپنے محبو ب کرام کی ناز بر داری فرماتا ہے۔
اس نے اپنے محبوبوں کی عظمت و جلالت اور شانِ محبوبیت ظاہر فرمانے، ان کی
شوکت و وجاہت دکھانے کے لیے ان کو اپنے بندوں کا شفیع بنایا، اسی نے اپنے
محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اولیائے کرام کو یہ مرتبہ بخشا کہ اگر
وہ اللہ تبارک وتعالیٰ پر کسی بات کی قسم کھالیں تو رب کریم جل جلالہ ان کی
قسم کو سچا کر دے۔ (حدیث شریف)
اسی نے ہمارے مالک و آقا سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا
خلیفہ اعظم و حبیب اکرم بنایا اور ارشاد فرمایا کہ: ’’اے محبوب! تم کو
تمھارا رب ضرور اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جائے گے‘‘ اور اس ارشاد الٰہی پر
اس نازنین حق، محبوب اجمل صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ناز اٹھانے والے رب
بے نیاز کی بارگاہ کریم میں عرض کی کہ ’’جب تو میں راضی نہ ہوں گا اگر میرا
ایک امتی بھی دوزخ میں رہ گیا‘‘۔
اللہ اکبر! کیا شانِ محبوبیت ہے۔ قرآن پاک نے کس اہتمام و شکوہ کے ساتھ
حضور کی شفاعت کا اثبات فرماتا ہے۔ کریم بندہ نواز نے اپنے حبیب سے کیسے
کیسے وعدے فرمائے ہیں۔ اپنی شانِ کرم سے انھیں راضی رکھنے کا ذمہ لیا ہے۔
اور حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شانِ ناز سے فرمایا کہ جب یہ کرم ہے تو
ہم اپنا ایک امتی بھی دوزخ میں نہ چھوڑیں گے۔ فصلی اللہ تعالیٰ وسلم وبارک
علیہ وآلہ ابد اً۔
قرآن کریم نے اثبات شفاعت کو دو اصول میں منحصر رکھا ہے۔ اول قبل از شفاعت
اذان الٰہی یعنی کسی کی شفاعت میں کلام کرنے سے پہلے اجازت خداوند حاصل
ہونا، دوم شفیع کا نہات صادق و راست باز اور پوری معقول اور ٹھیک بات کہنے
والا ہونا اور احادیث کریمہ اور کتب عقائد کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
انبیاء و اولیاء ، وعلماء وشہدا ، وفقرا کی شفاعت مولائے کریم اپنے کرم سے
قبول فرمائے گا، بلکہ حفظ حجاج اور ہر وہ شخص جس کو کوئی منصبِ دینی عنایت
ہو اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کریں گے بلکہ نابالغ بچے جو مر گئے ہیں اپنے
ماں باپ کی شفاعت کریں گے یہاں تک کہ علماء کے پاس آکر کچھ لوگ عرض کریں
گے۔ ہم نے آپ کے وضو کے لیے فلاں وقت میں پانی بھر دیا تھا۔ کوئی کہے گا کہ
میں نے آپ کو استنجے کے لیے ڈھیلا دیا تھا اور علماء ان کی شفاعت کریں گے۔
بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ مومن جب آتش دوزخ سے خلاصی پائیں تو اپنے بھائیوں
کی رہائی کے لیے جو آتش دوزخ میں ہوں گے، اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت و سوال
میں مبالغہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے اذان پاکر مسلمانوں کی کثیر تعداد
کو پہچان پہچان کر دوزخ سے نکالیں گے۔
:احادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ ہر مومن طلب گارِ شفاعت ہوگا اور تمام مومنین
اولین و آخرین کے دل میں یہ بات الہام کی جائے گی کہ وہ طالب شفاعت ہوں اور
شارحین حدیث نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ طالب شفاعت وہی لوگ ہوں گے جو
دنیا میں اپنی حاجات میں انبیاء علیہم السلام سے توسل کیا کرتے تھے۔ انھیں
کے دل میں یہ بات قدرتاً پیدا ہوگی کہ جب انبیاء کرام دنیا میں حاجت برآری
کا وسیلہ تھے تو یہاں بھی حاجت روائی انھیں کے زریعہ سے ہوگی۔ چنانچہ تمام
اہل محشر کے مشورہ سے یہ بات قرار پائے گی کہ ہم سب کو حضرت آدم علیہ
السلام کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے چنانچہ افتاںو خیزاں کس کس مشکل سے ان
کے پاس حاضر ہوں گے اور ان کے فضائل بیان کر کے عرض کریں گے کہ آپ ہماری
شفاعت کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مصائب محشر سے نجات دے۔ آپ انھیں حضرت
نوح علیہ السلام کی خدمت میں بھیجیں گے۔ نوح علیہ السلام فرمائیں گے۔ تم
ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجیں
گے، موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجیں گے وہ فرمائیں
گے، تم ان کے حضور حاضر ہو جن کے ہاتھ پر فتح رکھی گئی ہے جو آج بے خوف ہیں
اور تمام اولادِ آدم کے سردار ہیں، وہ خاتم النبےین ہیں وہ آج ہماری شفاعت
فرمائیں گے، تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ‘
ہمارے حضور پر نور شافع یوم النشور خود ارشاد فرماتے ہیں کہ : انا اول شافع
و اول مشفع میں ہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور میری شفاعت سب سے
پہلے قبول ہوگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تک باب شفاعت نہ کھولیں گے کسی
کو مجالِ شفاعت نہ ہوگی بلکہ حقیقتہً جتنے شفاعت کرنے والے ہیں، حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے دربار میں شفاعت لائیں گے اور اللہ عزوجل کے حضور
مخلوقات میں صرف حضور شفیع ہیں
عیسیٰ علیہ السلام کے فرمانے پر لوگ پھرتے پھراتے ، ٹھوکریں کھاتے ، دہائی
دیتے۔ بارگاہِ بیکس پناہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میںحاضر ہو کر حضورصلی
اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فضائل بیان کرکے جب شفاعت کے لیے عرض کریں گے تو
حضور جواب میں ارشاد فرمائیں گے: انا لھا انا لھا انا صا حبکم میں اس کام
کے لیے ہوں میں اس کام کے لیے ہوں میںہی وہ ہوں جسے تم تمام جگہ ڈھونڈ آئے
، یہ فرما کر بارگاہِ عزت میں حاضر ہوں گے اور سجدہ کریں گے ارشاد ہوگا:
’’اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری بات سنی جائے گی، اور مانگو، جو
کچھ مانگو گے ملے گا، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت مقبول ہے‘‘۔
اللہ اللہ ! یہ ہے کرم الٰہی کی ناز برداری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
شان محبوبی کہ حبیب کا سر سجدئہ نیاز میں ہے اور ابھی حرفِ شفاعت زبان اقدس
پر نہیں آیا کہ رحمت حق نے سبقت کی اور اپنے حبیب کی دلداری ورضا جوئی
فرمائی کہ اے محمد ! سر اٹھائیے جو کہنا ہو ،کہےئے سنا جائے گا، مانگئے جو
آپ مانگیں گے دیا جائے گا۔ غرض پھر شفاعت کا سلسلہ شروع ہوگا۔ یہاں تک کہ
جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہوگا اس کے لیے بھی شفاعت فرما
کر اسے جہنم سے نکالیں گے۔ اور اب تمام انبیاء اپنی اپنی امت کی شفاعت
فرمائیں گے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کئی قسم پر ہے مثلاً (۱)شفاعت
کبریٰ(۲)بہتوں کو بلا حساب جنت میں داخل فرمائیں گے جن میں چار ارب نوے
کروڑ کی تعداد معلوم ہے اس سے بہت زائد اور ہیں جو اللہ و رسول کے علم میں
ہیں۔ (۳)بہتیرے وہ ہوں گے جو مستحق جہنم ہو چکے۔ ان کو جہنم میں جانے سے
بچائیں گے۔ (۴)بعضوں کی شفاعت فرما کر جہنم سے نکالیں گے۔ (۵)بعضوں کے
درجات بلند فرمائیں گے۔ (۶)بعضوں سے تخفیف عذاب فرمائیں گے۔ (۷)جن کے حسنات
(نیکیاں) وسیات (برائیاں) برابر ہوں گی انھیں بہشت میں داخل فرمائیں گے
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ شفاعت جو تمام مخلوق مومن ، کافر ،
فرمانبردار نافرمان ، موافق ، مخالف اور دوست ، دشمن سب کے لیے ہوگی وہ
انتظار حساب جو سخت جانگز ا ہوگا۔ جس کے لیے لوگ تمنائیں کریں گے کہ کاش
جہنم میں پھینک دئیے جاتے اور اس انتظار سے نجات پاتے، اس بلا سے چھٹکارا
کفار کو بھی حضور کی بدولت ملے گا جس پر اولین و آخرین ، موافقین و
مخالفین، مومنین و کافرین سب حضور کی حمد کریں گے، اس کا نام مقام محمود ہے
۔ مرتبہ شفاعت کبریٰ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص سے ہے۔
شفاعت بہ اجماعِ امت ثابت ہے۔ بہ کثرت آیات اور بے شمار احادیث اس میں وارد
ہیں، اس کا انکار وہی کرے گا جو گمراہ ہے اور قرآن کریم میں جس شفاعت کی
نفی کی گئی ہے۔ وہ بتوں اور کافروں کا شفاعت ہے ۔ مسئلہ شفاعت تو کافروں
اور یہودونصاریٰ میں بھی تسلیم کیا جاتا تھا لیکن یہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ
شفیع کو وہ ذاتی اقتدار و اختیار حاصل ہے۔ کہ جسے چاہے اسے اللہ کے عذاب سے
چھڑا سکتا ہے۔ بلکہ کفار بت پرست تو یہ سمجھتے تھے کہ بت بارگاہ الٰہی میں
شفیع ہیں۔ قرآن عظیم نے کافروں، یہودیوں اور عیسائیوں کے اس عقیدے کو باطل
ٹھہرایا اور بتا یا کہ یہ کفار و مشرکین جن لوگوں کو اللہ عزوجل کے سوا
پوجتے ہیں ان میں کوئی شفاعت کا مالک نہیں، کیونکہ شفاعت مقر بین کی ہو
سکتی ہے۔ نہ کہ مغضوبین کی کہ یہ تو خود عذاب الٰہی میں گرفتار ہوں گے۔ تو
جو آیتیں بتوں اور کافروں کے حق میں نازل ہوئیں انبیاء ، واولیاء کوان کا
مصداق ٹھہرانا اور اللہ تعالیٰ نے جو حکم کافروں اور بتوں پر صادر فرمایا
ہے۔ وہ اس کے محبوبوں اور مقربیوں پر لگانا اور یہ کہہ دینا کہ کوئی کسی کا
وکیل و سفارشی نہیں قرآن وحدیث کی صریح مخالفت بلکہ خدا و رسول پر بہتان
اٹھانا اور نئی شریعت گھڑنا ہے۔ قرآن کریم میں جا بجا بتوں اور کافروں کی
شفاعت کے انکار کے ساتھ مومنین و محبین کی شفاعت کا اثبات کیا گیا ہے اور
مقبولانِ بارگاہ کا استشناء فرمایا گیا ہے۔ |