ہماری انگلیاں ہیں فِگار بہت

آپ میں سے اکثر نے کہیں نا کہیں یہ جملہ لکھا ہوا ضرور پڑھا ہو گا کہ %95 سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں ۔ ہم چونکہ ایک بےہدایت پاکستانی ہیں اور امریکہ میں رہ کے بھی نہیں سدھرے لہٰذا ہمارا شمار باقی کی ناہنجار پانچ فیصد آبادی میں کیا جا سکتا ہے ۔ ہم رات کا کھانا نو بجے کھاتے ہیں کبھی دس بجے بھی ۔ سردی گرمی کے موسم کے حساب سے اوقات طعام مختلف ہوتے رہتے ہیں یا جب دل کرتا ہے تب کھاتے ہیں دل نہ کرے تو نہیں بھی کھاتے ۔ ہر سال ماہ رمضان المبارک میں کھانا پینا غروب آفتاب کے بعد افطار کی صورت میں ہوتا ہے اور نماز مغرب کے بعد اس کا ایک دور پھر چلتا ہے تو اکثر ہی رات کا کھانا کھانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی پھر وہ سحری ہی میں کھایا جاتا ہے ۔ ویسے تو گھر میں ساڑھے چار لوگ ہی ہوتے ہیں وہ ایسے کہ چھوٹا بیٹا عاصم ماشاء اللہ یونیورسٹی آف ٹیکسس ڈیلس پہنچ چکا ہے مگر دیکھنے میں اپنی عمر سے آدھا نظر آتا ہے اسی لئے ہم نے اسے آدھا شمار کیا ۔ سوکھا پتلا بانس جیسا ۔۔۔ کھا پی کر ڈبوتا ہے شکر ہے کہ نام نہیں ڈبویا اپنے اسکول کے لائق طلبہ میں شمار ہوتا تھا ۔ اتنی تو اس کی عمر نہیں تھی جتنے اسے عمدہ کارکردگی پر اعزازات ملے ۔ گھر کے سامنے لان میں اسکول والوں کی طرف سے “ All A Honor Roll “ کا بورڈ بھی اسی کی جانِ ناتواں کی بدولت لگنے کا شرف حاصل ہؤا ۔ اسکالر شپ بھی ملی ہوئی ہے اب ایسے پڑھاکو بچے کو آج کے دور میں کتاب کا تو نہیں کمپیوٹر کا کیڑا کہہ سکتے ہیں ۔ اچھا خاصا چٹورا بھی ہے شہر کا کوئی دیسی ریسٹورنٹ اس نے نہیں چھوڑا ہے ۔ شاید اس کا کھایا پیا سب دماغ کو لگتا ہے اسی لئے برداشت کر لیتے ہیں اس کی قحط زدہ سی حالت کو ۔ اس پر سے موصوف نے جم بھی جوائن کر رکھا ہے جہاں قدم رنجہ فرمانے کی فرصت جناب کو مشکل سے ہی میسر آتی ہے ۔
پھر ایکمرتبہ برخوردار کو بیٹھے بٹھائے شوق ہوا کہ بھنڈی گھر میں اُگائی جائے اور گھر کی سبزی کا مزہ لیا جائے، گھر کے عقبی صحن میں بھنڈی کے بیج لا کر کیاری میں بو دیئے ۔ دو چار پودے اُگ آئے جن میں سے ایک کی نشو نما غیر معمولی رفتار سے ہونے لگی اور پھر اس میں بھنڈیاں بھی لگ گئیں ۔ مصروفیت اور عدیم الفرصتی کی بِنا پر وہ وقت سے اتاری نہیں جا سکیں اور وہ بھی غیر معمولی جسامت اختیار کر گئیں ۔ عاصم کو تو سر کھجانے کی فرصت نہیں تھی بیج بونے کے بعد پلٹ کر دیکھا نہیں ۔ ایک روز ہم نے اور بڑے بیٹے ناصر نے انہیں اتارنے کی ٹھانی کہ آج یہی بھنڈیاں پکا لیتے ہیں ۔ دونوں مل کر انہیں ٹہنیوں سے توڑنے لگے تو اسی دوران ہم دونوں کے ہاتھوں میں جلن اور خارش شروع ہو گئی اور کام پورا ہونے تک شدت اختیار کر گئی ۔ ہم نے ہاتھ اچھی طرح دھو لیے مگر انگلیوں ہتھیلیوں میں سخت کھجلی تھی اور ہم ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو کھجا کھجا کر بے حال ہو رہے تھے ۔ اور ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ جن بھنڈیوں کو صرف چھونے سے یہ حال ہؤا ہے تو وہ پیٹ میں پہنچ کر کیا حال کریں گی؟ اور اس خیال کے ساتھ ہی بھنڈیاں پکانے کا ارادہ ترک کر کے انہیں تلف کر دیا گیا ۔ اور فوری طبی امداد کے طور پر ہاتھوں پر ناریل کا تیل لگا لیا کہ اگر تکلیف دور نہ ہوئی تو جا کر ڈاکٹر کو دکھا دیں گے ۔ پھر آہستہ آہستہ آرام آنے لگا اور چند گھنٹوں بعد وہ جلن اور خارش برائے نام ہی رہ گئی اور اگلی صبح تک ٹھیک ہو چکی تھی ۔ پھر بعد میں جاننے کی کوشش کی کہ آخر یہ ماجرا کیا تھا؟ تسلی بخش جواب سوشل میڈیا سے ہی ملا ۔ یہ واقعہ حیوانی و نباتاتی حیاتیات سے متعلق ایک گروپ میں لکھ بھیجا تو تیس سے زائد جوابات ملے جن میں بیشتر رومن میں لکھے ہوئے تھے جو ہم سے نہیں پڑھے گئے ۔ عوامی آگاہی کے مقصد سے باقی میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

* زیادہ پک گئی ہوں گی اس لیے ایسا ہوا ہو گا بھنڈیاں زیادہ پک جائیں تو سخت ہو جاتی ہیں اور ان کے اوپر جو نرم ریشے ہوتے ہیں وہ بھی باریک کانٹوں کی طرح سخت ہو جاتے ہیں ۔
* بھنڈی کو قدرت نے تحفظ کے لئے اس کے اوپر روئیں سے دیئے ہیں آپ ہاتھوں پر شاپر چڑھا کر توڑیں جب بھی توڑیں ۔ باقی آپ نے بلاوجہ ہی ضائع کیں بھنڈی کیونکہ یہ جلن تو ہوتی ہی ہے ۔
* بھنڈی توڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس کام کے لئے سپیشل تھیلیاں بنی ہوتی ہیں جو ہاتھوں پہ چڑھا کر بھنڈی توڑی جاتی ہے یا پھر کچھ لوگ ہاتھوں پہ شاپر چڑھا لیتے ہیں بھنڈی کی جلد پہ اللہ تعالیٰ نے باریک کانٹوں کی تہہ چڑھائی ہوتی ہے جو دھیان سے دیکھے بغیر نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے ننگے ہاتھوں بھنڈی توڑنے سے ہاتھوں پہ خارش ہونے لگتی ہے باقی بھنڈی نرم نرم توڑ کر پکا لینی چاہیے اگر بھنڈی کا سائز زیادہ بڑا ہو جائے تو وہ پکانے کے قابل نہیں رہتی ۔
* ہم آلو مکئی چاول اور تھوڑی بہت گندم اور سبزیاں کاشت کرتے تھے ۔ سبزیاں کھاد سپرے کا خرچ نکال جاتیں اور گھر کا نظام بھی چل جاتا ۔ سب سے مشکل سبزی توڑنے میں بھنڈی ہی ہوتی ۔ میری انگلیوں کی پوروں پہ زخم بن گئے تھے خارش الگ ۔ بعد میں جب بھی توڑیں دستانے پہن کے توڑیں ۔ جو سبزی زیادہ ہوتی، وہ پھر مزدور اتارتے جیسے مٹر اور مرچ ۔ باقی بیگھہ دو بیگھے سے خود ہی اتار لیتے متفرق ۔ اصل فصل آلو مکئی کی ہوتی تھی پندرہ بیس ایکڑ ۔
‏* This is because of the micro bristles on the peel/skin of lady finger. It's a common feature of okra of all ages or types. It's not typical for an overgrown okra to have those bristles.
* ہاتھوں پر پلاسٹک کے دستانے پہن کر توڑیں ورنہ زخم بن جاتے ہیں ۔
* اُسی کوکونٹ آئل میں پکا لیتے تو پیٹ میں بھی خارش نہیں ہوتی بھنڈی ضائع کردی 😁
* بھنڈی ایسی ہی ہوتی ہے توڑتے ہوئے احتیاط کرتے ہیں الرجی ہوتی ہے توڑنے والے کو ۔
* بھنڈی توڑتے ہوئے الرجی ہوتی ہے لیکن کھانے کے بعد پیٹ میں نہیں ہوتی 😇
* آج سے تقریبا آٹھ نو سال پہلے میں نے بھنڈی لگائی ہوئی تھی تو میں جب اپنا شناختی کارڈ بنوانے گیا تھا میرا فنگر پرنٹ انگوٹھے کا نہیں آ رہا تھا اس طرح یہ بالکل زخمی کر دیتی ہے تو آپ کا ایک دو پودوں سے اس طرح ہو گیا ہے کوئی بات نہیں تھوڑا کپڑا لپیٹ کے یا دستانے پہن کے توڑا کریں کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں کرتی ۔
* دستانے پہن کر بھنڈی توڑیں پھر کوٰئی خارش نہیں ہوتی اور توڑنے کے بعد ہاتھ پر ریت لگا کر اچھی طرح ملیں پھر ہاتھ دھو دیں ساری خارش وغیرہ ختم ہوجاتی ہے ۔
* بھنڈی کچی بھی ہو تو پودے سے توڑتے ہوئے ہاتھوں میں خارش ہوتی ہے اور ذائقہ اچھا نہیں ہوتا بڑی بھنڈی کا ۔ فصلوں میں سب سے زیادہ مشکل ہے بھنڈی اتارنا ۔
* اس کی ٹہنی میں خارش والے کانٹے ہوتے ہیں جو ہاتھ میں لگتے ہی خارش سوزش شروع کر دیتے ہیں یہ نارمل ہے ۔ ہم گاؤں والے پورے پورے کھیتوں سے ساری بھنڈی توڑتے ہیں کچھ نہیں ہوتا ۔

غرض کہ اپنے اپنے تجربے اور معلومات کی بنیاد پر ہمیں مسئلے کی وجہ بھی بتائی گئی اور اس کا حل بھی ۔ ساتھ ہی مشورے بھی کہ آئندہ کیا کرنا ہے مگر وہ ہمارا پہلا اور آخری تجربہ تھا پھر دوبارہ کبھی ایسی ہمت نہیں کی اور پہلی بار ہمیں پتہ چلا کہ انگریزی زبان میں Okra یا لیڈی فنگر کہلانے والی جو لذیذ سبزی ہمیں اتنی آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہے اس کے پیچھے کسانوں کاشتکاروں کی کتنی محنت اور جسمانی تکلیف بھی شامل ہوتی ہے ۔
اور خود اپنا ہی ایک شعر ہمارے ذہن میں یوں موزوں ہوا

ہمیں بھنڈیاں توڑنی پڑ گئی تھیں
ہماری انگلیاں ہیں فِگار بہت

شعر کا پہلا اصل مصرعہ ہے

ہمیں کانچ اٹھانے پڑ گئے تھے
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1686174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.