اس کائنات کی خوبصورتی و دلکشی اور اس کے رنگ نہ صرف اس میں موجود حسین مناظر کی وجہ سے ہیں بلکہ اس میں رہنے والی ان مخلوقات کی وجہ سے بھی ہے۔ جو اللہ نے انسانوں کی خدمت اور اس دنیا کو رونق بخشنے کے لیے پیدا کر رکھی ہیں۔ کائنات کی رونق نہ صرف انسانوں سے ہے۔ بلکہ اس کا ایک اہم ذریعہ چرند پرند بھی ہے۔ جن کی خوبصورت آوازیں اور حسین بناوٹ اس دنیا کو کچھ اور ہی رعنائی بخشتی ہیں۔ یہ پرندے اپنی خوش احوال آوازوں سےصبح و شام اللہ عزوجل کی تسبیح بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی حسین بناوٹ اور فن کاریوں کو دیکھ کر انسان بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
یہ تمام پرندے اللہ کی عظیم مصوری کا حسین شاہکار ہے۔ یہ سب اپنی اپنی خصوصیات رکھتے ہیں۔ لیکن ان میں کچھ ایسے پرندے بھی ہیں جو اپنی دلچسپ اور حیران کن خصوصیات کی وجہ سے صدیوں سے زیر بحث رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک نام فیونکس پرندہ کا بھی ہے۔ یہ پرندہ اپنی کچھ غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ جس میں سب سے اہم بات اس کا صدیوں تک زندہ رہنا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس کی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس کے متعلق جو سب سے دلچسپ بات ہے وہ یہ ہے۔ یہ پانچ سو سے چھ سو سال تک زندہ رہنے کے بعد خود کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور پھر اسی راکھ سے اس کی نسل کا نیا پرندہ جنم لیتا ہے۔
اس کے متعلق ہر تہذیب کے اپنے اپنے نظریات اور نام ہے۔ مثال کے طور پر چائنا میں اسے فینگ کہا جاتا ہے۔ ایران میں سے سیمرغ عرب میں عنقا کہا جاتا ہے۔ اس کو ایک فرضی یا افسانوی پرندہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالق ایک بات جو تمام تہذیبوں میں یکساں ہے۔ وہ یہ سب اس کو ایک مقدس پرندہ مانتے ہیں۔ شرعی اور مذہبی لحاظ سے بعض ممالک میں اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کا نشان اچھے شگون کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ کے مطابق یہ عرب اور قرون وسطیٰ کے ممالک میں پایا جاتا تھا۔ بعض جگہوں پر یہ کہا گیا ہے کہ یہ عرب ممالک کے پہاڑوں میں درختوں کی چوٹیوں پر بسیرا کرتا تھا اور زیادہ تر صحراؤں کا باسی تھا۔
اس کے علاوہ یہ قرون وسطی کی بہت سی کتابوں کا موضوع سخن بھی رہ چکا ہے۔ جن کے مطابق اس کی سب سے اہم بات اس کا دوبارہ جنم لینا تھا۔ کچھ جگہوں پر یہ کہا گیا کہ پانچ سو سال پورے ہوتے ہی اس کے جسم سے خود ہی آگ کے شعلیں نکلنے لگتے جو اس کو جلا کر راکھ میں بدل دیتے پھر جب سورج کی شعاعیں اس کی راکھ پر پڑتی تو اس راکھ سے دوبارہ اس طرح کا پرندہ جنم لیتا تھا۔ جس کی خصوصیات بالکل اسی جیسی ہوتی تھی۔ بعض روایات کے مطابق یہ چودہ سو سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ عربی اور قدیم یونانیوں کے مطابق اس پرندے کو تمام پرندوں کا بادشاہ مانا جاتا تھا۔
کیونکہ یہ انتہائی طاقتور پرندہ ہوتا تھا۔ اس کی بناوٹ اور ساکت اس قسم کی ہوتی یہ اپنے پنجوں میں کسی ہاتھی کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس پرندہ نے کبھی زمین کو نہیں چھوا۔ یہ اس قدر اونچائی پر اڑتا کہ اس کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔
اس کی ظاہری بناوٹ بھی انتہائی خوبصورت ہوتی ہیں۔ یہ رنگوں کا حسین و خوبصورت امتزاج ہوتا ہے۔ اس کے پر جامنی رنگ کے ہوتے ہیں۔ دم نیلی سبز اور سنہری ہوتی ہیں۔ اور دیکھنے میں بالکل کسی عقاب کی مانند ہوتا ہے۔ قدیم لوگوں کے نظریات کے مطابق اس کی ایک صفت یہ بھی ہے۔ یہ پرندہ دنیا کے تمام علوم سے واقفیت رکھتا ہے اور انتہائی وفادار بھی ہے۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے اسے وفادار پرندہ کا نام بھی دیا گیا۔
مختلف محققین نے اس کے متعلق مختلف رائے دی۔ پانچویں صدی عیسوی میں ہیروڈوٹس نے اس کے متعلق کہا تھا کہ عربی ایک ایسے پرندے پر یقین رکھتے ہیں۔ جسے میں نے صرف تصویروں میں دیکھا ہے۔ یہ پرندہ پانچ سو سال بعد خود کو جلا کر نیا جنم لے لیتا ہے۔ ان کا اس پرندے کے عقیدہ کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ سورج دیوتا کو ماننے والا ہے۔ یہ اپنے باقی ساتھیوں کو سورج دیوتا کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا اور پھر اپنے جسم کو جلا کر راکھ کرتا ہے۔ پھر سورج کی شعاعیں پڑھتے ہی نیا جنم لے لیتا ہے۔ اس کے رنگ اس کو دوسروں پرندوں سے جدا کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور مورخ نے کہا کہ اس کی آنکھیں نیلے رنگ کی ہوتی ہیں اور ٹانگوں پر سنہری رنگ کے پنکھ ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی خوبصورت اور طاقتور ہوتا ہے۔ اس کے متعلق جے کے رولنگ نےکہا تھا کہ اس کے آنسو دفاع امراض کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں بہت سی بیماریوں کی شفاء رکھی گئی ہے۔ اس بات کا ذکر انھوں نے ہیری پوٹر سیریز میں بھی کیا تھا۔ایک اور مورخ کا کہنا تھا کہ یہ خوبصورت میں مور کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے رنگ انتہائی حسین ہوتے ہیں۔ اس کا نام بھی ان رنگوں کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔
یہ تمام داستانیں اور نظریات اس پرندے کے متعلق عرصہ دراز سے چلے آرہے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں اس کا وجود فی الحال کسی نے نہیں دیکھا۔ یہ کائنات ماقوف الفطرت مخلوقات کا مسکن ہے۔ ہم کسی بھی مخلوق کے وجود سے انکار نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اللہ چاہے تو پتھر میں بھی جان ڈال دے۔ اس خالق کائنات کے سامنے کچھ بھی ناممکن نہیں۔
|