رواں سال مارچ میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی ورلڈ واٹر ڈیولپمنٹ رپورٹ 2023 کے مطابق اس قیمتی وسیلہ کی کمی کے باوجود ، پانی کی عالمی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 40 سالوں میں دنیا بھر میں پانی کے استعمال میں ہر سال تقریباً ایک فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 2050 تک جاری رہے گا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کے استعمال میں اضافہ متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں مرکوز ہے،شہری علاقوں میں پانی کی قلت کا سامنا کرنے والی عالمی آبادی 2050 تک دوگنی ہو کر دو ارب سے زیادہ ہو جائے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں بہت سے ممالک کو اب بھی پانی کی خدمات کی توسیع میں چیلنجز کا سامنا ہے ، کم از کم دو ارب افراد پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہیضہ اور دست جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔اس صورتحال میں دنیا کے بڑے ممالک کا کردار انتہائی نمایاں ہے جو اپنے ہاں پانی کی بچت ،عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ غریب ممالک میں بھی آبی منصوبوں کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے چین کا ماڈل موجود ہے ۔ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ایک بڑا ملک ہے جہاں ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں ، تاہم موئثر پالیسی سازی اور دوراندیش قیادت کا یہ خاصہ ہے کہ عوام کو مقدم رکھتے ہوئے بروقت اقدامات اپنائے جاتے ہیں اور عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے۔اس کی ایک عمدہ مثال لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی اور آبی وسائل کا تحفظ بھی ہے۔ محدود آبی وسائل کے ساتھ، پانی کا تحفظ چین کے ایجنڈے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے اور اس حوالے سے کئی محاذوں پر کوششیں کی گئی ہیں، جن میں زراعت، صنعت، شہری علاقوں اور دیگر اہم شعبوں میں پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی تکنیکی اختراعات شامل ہیں۔ چین کی جانب سے پانی کے مزید معقول استعمال اور اس قیمتی نعمت کے زیاں کو روکنے کے ساتھ ساتھ، گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بھی نمایاں کوششیں کی گئی ہیں۔ ملک نے عالمی سطح پر میٹھے پانی کے مجموعی وسائل کے صرف 6 فیصد میں سے دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں بارہ لاکھ سے زائد افراد کو دریاؤں اور جھیلوں کے "نگران" کے طور پر تعینات کیا گیا ہے، تاکہ ملک میں پانی کے ذخائر کے ماحولیاتی تحفظ سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور مقامی حالات کے مطابق آبی آلودگی سے نمٹنے اور آبی ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے درست اقدامات کیے جا سکیں۔ علاوہ ازیں، چین نے کچھ علاقوں میں مٹی کے کٹاؤ اور زمینی پانی کے بے تحاشہ استعمال جیسے مسائل کو حل کرنے میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے زیادہ سے زیادہ آبی زخائر کو بحال کیا گیا ہے۔ چین کی یہ خوبی بھی ہے کہ یہ اپنے کامیاب تجربات کا دیگر دنیا سے بھی تبادلہ کرتا ہے اور حالیہ عرصے میں اس کی عملی مثال دارالحکومت بیجنگ میں 18 ویں "ورلڈ واٹر کانگریس" کا انعقاد ہے، جس میں آبی وسائل اور آبی سلامتی سے متعلق اہم عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے سینکڑوں ماہرین جمع ہوئے۔یہ کانگریس 1973 سے ہر تین سال بعد منعقد ہوتی ہے، جس میں آبی چیلنجوں سے نمٹنے اور پانی کے نایاب وسائل اور فراہمی کے حل پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔رواں برس چین میں منعقدہ کانگریس میں "پانی سب کے لئے ۔ انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی" کے عنوان سے پانی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لئے چھ ذیلی موضوعات پر بات چیت کی گئی، جن میں آفات کی روک تھام، تحفظ آب سے متعلق پیش رفت اور پائیدار ترقی شامل ہیں۔اس اہم سرگرمی کا مقصد مستقبل کے عالمی موسمیاتی چیلنجوں سے اجتماعی طور پر نمٹنے کے طریقے تلاش کرتے ہوئے آبی وسائل کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی برادری کے عزم کی عکاسی رہا۔ قومی سطح پر پانی کے تحفظ کے لیے چین کی عملی کوششوں کو دیکھا جائے تو ملک کی جانب سے حالیہ عرصے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پانی کے قومی نیٹ ورک کی تعمیر میں سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کرے گا۔اس حوالے سے مرکزی بجٹ میں پانی کے نیٹ ورک کی تعمیر کے منصوبوں کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک مقصد سیلاب کی روک تھام اور اناج کی پیداوار کے حوالے سے ملک کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا بھی ہے۔اس ضمن میں مقامی حکومتوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ تعمیری منصوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں اور متعلقہ منصوبوں کے ٹھوس نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔چین نے ویسے بھی اپنے ہاں، پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے، پانی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے، سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ کے موئثر اقدامات اپنانے اور آبی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک ہمہ جہت نظام تشکیل دیا ہے۔آبی وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے درپیش مشکلات پر قابو پاتے ہوئے اس نظام کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں بھی سامنے آیا ہے کہ چین نے گزشتہ دہائی میں طاس پر مبنی روک تھام کے نظام میں مسلسل بہتری، قبل از وقت انتباہی اقدامات، مشقوں اور پیشگی منصوبہ بندی کی مضبوطی اور پانی کے تحفظ کے بنیادی ڈھانچے کو سائنسی اور درست طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے بڑے سیلابوں پر قابو پایا ہے۔ چین اس وقت بھی ایک محفوظ، موثر، سبز اور منظم پانی کے نظام کی تعمیر کو آگے بڑھا رہا ہے، تحفظ آب منصوبوں سے پانی کی فراہمی کی مجموعی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ، آبی ذخائر سے متعلق خطرات میں خاطر خواہ کمی اور آبی وسائل کو مضبوطی ملی ہے جو لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔
|