آئیں شروعات کرئیں شاید بات بن جائے
(Farzana jabeen, Karachi)
آج کل ہم بڑوں کی تربیت میں سے دیگر بہت سی باتوں کی طرح ایک اور عادت تقریباً ختم ہو چکی ہے کہ ہم آنے والی نئی نسل کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر درگزر کا طریقہ نہ سکھا رہے ہیں اور نہ ہی عملی زندگی میں اسے مثال کے طور پر کر کے دکھا رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ پرامن اور پرسکون زندگی گزارنے کے بہترین اوصاف میں سے ایک ہے ۔
پچھلے دنوں میرے گیارہ سال کے بیٹے نے مجھے آئینہ نہ دکھایا ہوتا تو میں بھی اس وصف کو فراموش کیے عرصہ دراز سے بے کل و بے طیب چین جیون جئے جارہی تھی ۔
واقعہ کچھ یوں ہوا کے میرا بیٹا کچھ عرصے دے اپنے ایک بہترین دوست سے فون پر رابطہ منقطع کیے ہوئے تھا ۔ اس بات کا علم مجھے یوں تھا کہ وہ میرے ہی فون سے اس سے وٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کرتا تھا اور لمبی لمبی باتیں کرتا تھا پر کچھ دنوں سے اس نے اس مقصد نہ تو میرا فون مانگا اور نہ ہی اس کے دوست کا فون آیا ۔ چھٹی کے دن میں اسے بور ہوتے دیکھا تو کہا کہ تم نے کافی دن سے اپنے دوست کو فون نہیں کیا ۔ تو اس نے بہت بیزارگی سے کہا “اب وہ میرا دوست نہیں” ۔ مجھے حیرت ہوئی تو پوچھا کیوں؟ جواب ملا کہ اس نے کسی بات پر مجھے ہرٹ کیا ۔
مجھے کافی حیرت ہوئی ۔ میں نے کہا کہ کیا تم نے اسے بتایا کہ تم ہرٹ ہوئے ہو ۔ اسنے کہا بتانا کیا ہے اس نے ہرٹ کیا ہے تو اسے معلوم ہی ہے تب ہی تو ہرٹ کیا ۔میں نے تو اس سے دوبارہ بات ہی نہیں کی ۔
میں نے اپنی طرف سے بڑا ہونے کا فرض سمجھتے ہو اس سے کو سمجھاتے ہو ے کہا ۔ بیٹا ایسے نہیں کرتے دوسرے بندے سے آرام سے بیٹھ کے بات کرتے ہیں اسے بتاتے ہیں کہ کون بات سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے پھر اس کی بات سنتےہیں ہو سکتا ہے بات چیز دے معاملہ حل ئو جائے اور آپ دونوں کہ ناراضگی ختم ہو جائے اور اگلہ بندہ آپ کو اپنی سمجھا سکے یا آپ کی بات سمجھ سکے تو بات کو درگزر کر دینا چاہیے ۔ اگر ہم درگزر نہیں کریں گے تو ہم کیسے اپنے دوستوں اور رشتوں کے ساتھ چل سکتے ہیں ۔
جانتے ہیں اس گیارہ سالہ بچے نے کی جواب دیا ۔ اس نے کہا ماما آپ بھی تو ایسا ہی کرتی ہیں جز کی بات سے آپ کو تکلیف پہنچے آپ نہ اس اس کا فون اٹھاتی ہیں نہ بات کرتی ہیں۔
تب مجھے لگا جو بات میں بچے کو سمجھا رہی ہو سب سے پہلے مجھے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
ہمارے تو ہاتھ کی پانچ انگلیا ایک سی نہیں ۔ ایک ہی ماں کی کوکھ سے پیدا ہوے بچے ایک سے نہیں ہوتے نہ شکل میں نہ عادات و اطوار میں ۔ پھر سب انسان ایک سے کیسے ہو سکتے ہیں پھر کیوں جب کسی کی بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے تاہم اسے ناپسند کرنے لگتے ہیں اس کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں درگزر اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے ۔ کیوں اپنے پچوں کو شروع سے ہی سکھاتے ہیں کہ کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکنا ۔ اپنی منوانا۔ کیوں بچوں میں کمپرمائز کرنے کی عادت کو اجاگر ہی نہیں کر رہے۔یہ بچے جب بڑے ہوں گے تو کیسے اپنے رشتوں کو اپنے معاملات کو لے کر چلیں گے ۔
اپنے ساتھ ساتھ آپ کو یاد کروانا چاہتی ہوں کے آج کل جو ہر طرف نفسا نفسی ہے ہر کوئی اپنی زندگی میں گم ہے ہر کوئی دوسرے سےناراض ہے ۔ کوئی رشتہ ، تعلق پائیدار نہیں اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ہم دلوں کی تنگی کا شکار ہو چکے ہیں ۔درگزر کرنا بھول چکے ہیں
پر ابھی یہ بیماری لاعلاج نہیں ہوئی آئیں دلوں تھوڑی تھوڑی وسعتیں پیدا کرنے کوشش کرئیں ۔ وہ جن سے بہت عرصے بات نہیں ہوئی ان سے بات کرئیں ۔ وہ جن سے ہم کمی کتراتے ہیں ان کی باتوں درگزر کرنا شروع کریں ۔ شائد بات بن جاے .