اتنی خراب دنیا بھی چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا

مجھ سمیت کسی انسان سے پوچھ لیں کہ وہ خوشی سے نہیں تو کیا اپنی مرضی سے یہ دنیا چھوڑ کر جانا چاہتا ہے، کوئی ہاں میں جواب نہیں دے گا مجھ سمیت۔ ہاں البتّٰی وہ انسان جو غیر معمولی ذہنی کیفیت کے باعث خود کشی کی جانب مائل ہو۔جب کبھی انسان کسی بھی عارضہ کے باعث ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں کہ اس کی زندگی بہت کم دن کی باقی ہے تو اس مریض سمیت تمام لواحقین اس کی صحت یابی اور درازئے عمر کی دعائیں مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور وہی زندگی جس سے تھوڑا پہلے ہی بیزاری کی سی کیفیت تھی اس سے ایک مرتبہ پھر شدید محبت ہو نے لگتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ موت سے بچ جانے کی کاوشوں میں ہم اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ہر وہ عمل و علاج معالجہ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں جس کو پہلے تسلیم ہی نہیں کرتے تھے ۔ نہ تو ہمیں اپنے مذہب کا پاس رہ جاتا ہے اور نہ ہی اپنے کسی بھی نظریہ کا، چنانچہ جادو ٹونہ یا سفلی عملیات جن کا ہمیشہ مذاق اڑایا ہوتا ہے ان سب کو اپنے اوپر اس یقین سے آزماتے ہیں کہ ہم ضرور موت سے بچ جائیں گے، بھول جاتے ہیں کہ ہر مذہب و عقیدے میں موت برحق ہے۔ یہ وہ سبب ہے جس کے تحت ہماری ذہنی کیفیت خود کشی کرنے والے شخص کی کیفیت کے مکمل طور پر برعکس ہوجاتی ہے اور ہم ایسے خواب بھی دیکھنے لگتے ہیں کہ ہم موت کے منہ سے واپس آگئے۔ چنانچہ دنیا میں ایسی بے شمار کہانیاں اور قصے مشہور ہیں کہ فلاں شخص کو ڈاکٹروں نے مردہ ڈکلئیر کر دیا لیکن کچھ ہی منٹوں یا گھنٹوں کے بعد وہ زندہ ہو گیا اور اس نے موت کی حالت میں کیا محسوس کیا یا دیکھا وہ کچھ اس طرح سنایا کہ میں مر گیا / گئی ہوں اور ایک اندھیری سرنگ میں لیٹا سرنگ کے انتہائی دوسرے کنارے پر ایک ہلکی یا تیز روشنی کی کرن دیکھ رہا/ رہی ہوں۔ جس کے بعد میں زندہ آپ کے سامنے ہوں۔کوئی بسترِ مرگ پر اس سُرنگ میں لیٹے لیٹے یہ روشنی کی کرن دیکھتا ہے اور کسی کے مطابق وہ کسی سواری پر بیٹھا اس سُرنگ میں سفر کر رہا ہوتا ہے جس کے دوسری جانب وہ یہ چکاچوند دیکھتا ہے۔
میں خود اپنا واقع بلا خوف و تردید شئیر کرنا چاہوں گا کہ 2015 میں اچانک دل کے دورے کی کیفیت طاری ہوئی اور میں اس درجہ تک بے ہوش ہؤا کہ جس کو کومہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مجھے اپنے آس پاس کی تمام آوازیں آ رہی تھیں لیکن میں نہ تو کسی آواز کا جواب دے سکتا تھا اور نہ ہی اپنے جسم کا کوئی عضو ہلا کر اشارہ کر سکتا تھا ، یہاں تک کہ آنکھ کی پلک کو بھی جنبش دے کر ہاں یا نہ کا اشارہ کر سکتا تھا۔ اس وقت میرے دو بائی پاس آپریشن ہو چکے تھے اور تیسرے کے بارے میں ڈاکٹروں کی مختلف آراء تھی، کوئی کہتا ہو سکتا ہے اور کوئی کہتا کہ انجیوگرافی ٹیسٹ ہی نہیں ہو سکتا ، آپریشن تو بعد کی بات ہے، ایسا پاکستان اور انگلینڈ دونوں جگہ کے ڈاکٹروں کے فیصلوں کے بیچ لٹکنے کے دوران یہ واقع پیش آیا جو بیان کر رہا ہوں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے نہایت مشہور اسپتال میں جب مجھے ہوش آیا تو میرا بیان کچھ یوں ہے کہ دورہ پڑنے کی کیفیت میں ایمبولینس میں لے جایا جارہا تھا تو بیان کردہ بے ہوشی کی کیفیت میں دیکھا کہ میں ایک نہایت تیز رفتار ٹرین میں سفر کرتا ہوا پاکستان کے مغرب کی جانب جارہا ہوں جب کہ ٹرین کے دونوں جانب باہر دیکھنے پر دنیا کے نقشہ کے مطابق تمام ممالک اس تیزی سے پیچھے جاتے دکھائی دے رہے ہیں جیسا کہ عام ٹرین میں سفر کرتے ہوئے اسٹیشن گذرتے ہیں۔ انگلینڈ کے بعد ٹرین آسمان کی جاب ایک نہات تاریک سرنگ میں پرواز کرتی ہوئی بحیرہ اوقیانوس پر سے واپس مشرق کی جانب سفر کرتی ہوئی اپنے اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں سے چلی تھی۔ ہوا میں مڑتے وقت اندھیری سرنگ کے دوسرے کنارے پر کسی روشنی کے بجائے مزید شدت کا اندھیرا ہوتا ہے۔ مجھے ان خوابوں و خیالوں کی تعبیر تو معلوم نہیں لیکن یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نہ مرنے کہ طلب و خواہش دماغ میں اس قدر گھر کر لیتی ہے کہ بے ہوشی یا کومہ میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا چنانچہ ایسی کہانیاں "موت کے بعد کے مناظر" کے طور پر سامنی آتی ہیں۔

Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 180 Articles with 149308 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More