بہو کیوں نہ بھائے؟

ہمارے خاندانی نظام میں بہت سارے رشتے ہوتے ہیں اور ان کے مخصوص نام بھی ہوتے ہیں جن سے اُن رشتوں کی شناخت ہوتی ہے ۔ اس ضمن میں اردو کا دامن بہت وسیع ہے مغرب کی طرح نہیں کہ کئی الگ الگ ایکدوسرے سے قطعی مختلف رشتوں کے لئے کوئی ایک ہی لفظ ہوتا ہے ۔ مثلاً خالہ پھوپھی چاچی تائی مامی سب کو صرف آنٹی کہہ کے نمٹا دیا جاتا ہے اسی طرح ان کی تذکیر صرف ایک ہی لفظ انکل میں سمٹ جاتی ہے ۔ یہی حال بزرگ رشتوں کا کہ دادا نانا کے لئے الگ الگ نام نہیں دونوں ہی گرانڈ فادر اور ان کی تانیث گرانڈ مدر ۔ گرانڈ چائلڈ بولنے میں واضح نہیں ہوتا کہ پوتے کی بات ہو رہی ہے یا نواسے کی؟ سسٹر ان لاء بولو تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ سالی کی بات ہو رہی ہے یا سلیج کی، بھابھی کی یا نند کی؟ ہاں ڈاٹر ان لاء کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے یعنی بہو ۔
بیٹے کی بیوی بہو کہلاتی ہے اسے بیٹی جیسا سمجھنا اور بیٹی ہی کہہ کے بلانا اچھی بات ہے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ بہو سے اپنے التفات کے اظہار میں اتنی افراط کرتے ہیں کہ اس رشتے کی شناخت ہی ختم کر دیتے ہیں ۔ بہو کو بہو ہی کہہ کر متعارف نہ کرانا غائبانہ طور پر ذکر کرتے ہوئے بھی بیٹی بیٹی کا غلو کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ رشتہ اتنا بُرا ہے اتنا مذموم ہے کہ اسے اس کے درست نام سے پکارنا گویا کہ کوئی بڑی شرم کی بات ہے ۔ بہو کو بہو ہی بلانے میں آخر قباحت کیا ہے؟ اپنے بیٹے کے نکاح میں آئی ہوئی عورت کو بہو نہ کہنا محبت نہیں نری بناوٹ دکھاوا اور مبالغہ ہے اور ایک رشتے کی شناخت چھیننے کے مترادف ہے ۔ لفظ بہو کوئی عیب نہیں ہے کہ اسے بیٹی کے لبادے میں لپیٹ کر اس کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ جس کے ساتھ جو رشتہ ہے اسے تسلیم کیا جائے اور کسی پر بھی اپنی بےجا توقعات کا بوجھ نہ ڈالا جائے ذمہ داریوں کا تعین ہونا چاہیئے اور درست تقسیم بھی، پھر ایسے دکھاووں بلکہ مغالطوں کو لاگو کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔ بہت سی خرابیوں کی تو جڑ ہی رشتوں کی اصل کو ان کی جگہ پر نہ رکھنے کی وجہ ہے ۔ لڑکی کی شادی ہو جائے تو شوہر کے ماں باپ اس کے ساس سسر ہوتے ہیں پھر کیوں اس کے کان میں انڈیلا جاتا ہے کہ ان کو اپنے ماں باپ سمجھو ۔ ہر لڑکی اپنے باپ کی راج دلاری ہوتی ہے کوئی بہو اپنے سسر کی راج دلاری ہوتی ہے کیا؟ کیا وہ اس سے ویسے ہی اپنے لاڈ اٹھوا سکتی ہے جیسے اس کا باپ اٹھایا کرتا تھا؟ کیوں اس کے دماغ میں ٹھونسا جاتا ہے کہ ساس کو ماں سمجھو جب سمجھے گی تو ماں کے گھر کی طرح صبح دن چڑھے تک پڑی سوتی رہے گی پھر ہو جائے گا برداشت؟ عام طور پر ساس کیا اپنی بہو کو وہ ساری رعایتیں اور سہولتیں دیتی ہے جو اس کی بیٹی کو حاصل ہوتی ہیں؟ تو ہر رشتے کو اس کی جگہ پر رکھ کر اس سے منسلک نزاکتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے ان سے نظریں چُرانے کی آخر ضرورت کیا ہے؟

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1853677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.