علم اور مطالعہ کے بغیر دینی
مسائل پر طبع آزمائی کرنا جتنا نامناسب ہے ‘ عام مسلمانوں کے دینی شبہات کا
تسلی بخش حل فراہم کرنے کی بجائے ‘ان کے دینی اشکالات کو الحاد اور بے دینی
پر محمول کرکے انہیں گم راہ ڈکلیئر کردینا بھی اتنا ہی غلط ہے ۔ ہردور کا
ایک اپنا سیاق وسباق اور اس کے تناظر میں اس کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ ہمارے
جدید تعلیم یافتہ مسلمان بھائی خدانخواستہ اسلام سے برگشتہ نہیں ‘ اپنے دین
سے ان کے خلوص اور وابستگی کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ قصور اس مادی اور
غیر روحانی نظام ِ تعلیم کا ہے جس میں آٹھ دس سال تک منہمک رہنے کے بعد ‘
انسانی ذہن کی ساخت ہی کچھ اس طرح ہوجاتی ہے کہ معدہ میں اترنے والی ڈسپرین
کی گولی سے تو دردِ سر کو افاقہ ہونا سمجھ میں آجاتا ہے ‘ مگر غریب کے پاس
جانے والے صدقہ اور خیرات سے بیماری کا دور ہوجانا(جو مخبرِ صادق کا فرمان
ہے ) ان کے لیے معمہ بن جاتا ہے ۔ اپنے سوالات سے ان کا مقصود دین کا انکار
نہیں ‘ اس کی وضاحت ہوتی ہے ۔ بارہا دیکھا گیا کہ جب صبر ‘ حکمت او
رفکرمندی کے ساتھ مدلل اور منطقی انداز میں ان کے اشکالات کا حل پیش کردیا
جائے تو وہ تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ اگر جواب دینے والا یہ چاہتا ہے
کہ اس کے منہ سے نکلنے والے ہر جملہ کو دین کا حر فِ آخر سمجھا جائے اور اس
پر مزید کسی سوال وجواب سے گریز کیا جائے تو پھر معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے
اور سوال کرنے والے کی ذہنی گرہیں کھلنے کی بجائے ‘ان میں مزید بند پڑنے
لگتے ہیں۔
وطنِ عزیز ایک عرصہ سے مختلف زمینی اور آسمانی آفات ‘ مصائب اور بلاؤں میں
گھرا ہوا ہے جن میں زلزلے ‘سیلاب اور وباؤں جیسی ”قدرتی آفات “ بھی شامل
ہیں۔ ان قدرتی آفات کی قیامت خیزی اور ان کے شرعی اسباب پر آج اسی تعلیم
یافتہ طبقہ کی طرف سے شدت کے ساتھ ایک سوال اٹھایا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ
اگر قدرتی آفات وبلیات اہلِ زمین کے گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں تو پھر
بے گناہ اور پارسا لوگ کیوں ان کا شکار ہوجاتے ہیں؟کیاخدا قادر نہیں کہ ان
آفات کی لپیٹ میں صرف مجرم اور گنہ گار آئیں اور بے گناہ لوگ صاف بچ جائیں؟
اس سوال کے جواب کی طرف جانے سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے کہ قرآن وسنت کی
رو سے ‘ زمین وآسمان کے تمام امور کی تدبیرو تنظیم خداوندِ عظیم خودفرمارہا
ہے۔ صرف زلزلے ‘سیلاب اور وبائیں ہی اس کی محکوم نہیں ‘ بلکہ دنیا کے تمام
”رنگ “ اور خیر وشر کی تمام شکلیں اسی کی صورت گری کا کرشمہ ہیں۔اگر کسی
راہ چلتے اجنبی کے مسکراہٹ بھرے سلام سے مجھے فرحت پہنچتی ہے یا پھر پیروں
میں کوئی معمولی کانٹا ساچبھ جانے سے خراش آجاتی ہے تو اتنا قدر بھی اسی کے
فیصلہ اور امر سے ہوتا ہے ۔ قرآن ِ مجید نے ایک جگہ بہت ہی جامع لفطوں میں
اس پوری داستان و ایک جملہ میں سمو دیا ہے ۔ ارشاد فرمایاکہ ” وہی ہے جو
ہنساتا ہے اور رلاتا ہے“(سورة النجم ‘آیت 43)یوں صرف اجتماعی سطح پر نازل
ہونے والی ”قدرتی آفات “ میں دستِ قدرت تلاش نہیں کرنا چاہئے ‘ بلکہ
انفرادی زندگی میں آنے والے دکھ درد ‘ غم اور مصیبت کو بھی اسی کے نظامِ
قدرت کا حصہ سمجھنا چاہئے ۔
اسلام کے اسی تصور توحید کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسلام کا پیروکار اپنی زندگی
میں آنے والی ہر خوشی کو خدا کی طرف منسوب کرتا اور اس کا شکر بجا لاتا ہے
‘ جبکہ اپنے دکھڑوں کو بھی اسی کے پُر حکمت فیصلوں کے تناظر میں دیکھتا اور
صبر سے کام لیتا ہے۔ قرآن وسنت کی رو سے انسان پر نازل ہونے والی کوئی بھی
مصیبت اور پریشانی تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا حصہ ہوتی ہے۔(۱)اگر
پریشانی میں مبتلا انسان کوئی برگزیدہ شخص ہے اور وہ اس پر صبر کررہا ہے تو
یہ پریشانی اور تکلیف خداکی طرف سے اس کے درجات میں بلندی اور نیکیوں میں
اضافہ کے لیے وارد ہوئی ہے ۔ صوفی اعظم پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر
جیلانی ؒاپنے دور کے بارہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ”موجودہ زمانہ میں اس
صورت کا مصداق مل جاناقریب قریب ناممکن ہے۔“ (۲)اگر پریشانی میں مبتلا
انسان کوئی گنہ گار مسلمان ہے اور اس پر یشانی پر خدا کی طرف متوجہ ہوکر
اپنے گناہوں کی معافی طلب کررہا ہے تو تو یہ پریشانی اس کے لیے ”کفارہ
سیئات “ یعنی گناہوں کی تلافی بن کر آئی ہے ۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے گناہوں
کی اخروی سزا سے بچ جائے گاجو دنیا کی معمولی پریشانی سے کئی گنا زیادہ ہول
ناک ہے۔ پیرِ پیراں ؒ اپنے دور کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ ”اس زمانہ میں
اکر کوئی آدمی اِس صورت کا مصداق بن جائے تو یہ اس کے لیے بڑے اعزاز کی بات
ہے۔ (۳) اگر پریشانی میں مبتلا انسان گنہ گار مسلمان ہے اور وہ پریشانی پر
صبرکرنے کی بجائے واویلا مچارہا ہے اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے
اپنی ساری صلاحیتیں اس پر یشانی کے ظاہر ی اسباب کو تلاش کرنے میں صرف
کررہا ہے تویہ پریشانی اس پر خدا کی طرف سے ناراضگی کا کوڑا بن کر نازل
ہوئی ہے جس سے اظہارِ غضب مقصود ہے۔ پیرانِ پیرؒ کے بقول ہمارے دورمیں اکثر
لوگ اسی صورت کا مصداق ہوتے ہیں۔
آپ نے تینوں صورتیں پڑھ لیں اور صوفی اعظم کے اپنے دور کے بارہ میں ارشادات
بھی۔ اب تصور کیجئے ذرا اپنے دور کا کہ ہمارا کیا حال ہوگا؟ ہم میں سے کتنے
لوگ ہیں جو تکلیف آنے پرفورا ً خدا کی طرف متوجہ ہوتے اوراسے اپنے گناہوں
کا نتیجہ سمجھ کر اللہ کے سامنے گڑگڑاتے اور استغفار کرتے ہیں اور ایسے لوگ
کتنے ہیں جو شب وروز میں پیش آنے والی اکثر پریشانیوں کو ظاہری اسباب کے
تناظر میں دیکھتے اور صرف ایک آدھ پریشانی پر خدا کو یاد کرکے اپنی بزرگی
کے زعم میں مبتلا ہوجاتے ہیں؟دوسرے کے بارہ میں تو درکنار ‘ کیا کوئی اپنے
بارہ میں بھی پارسائی کا دعوی کرسکتا ہے ؟ یہ دعوی بذاتِ خود ناپارسائی کی
دلیل ہے۔ ”کرو اور ڈرو“ یہ دین کی تعلیم ہے ۔ قرآنِ مجید نے عالی مرتبت
مومنین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ رات بھر عبادت کرتے اور پھر رات کے
آخری پہر رورو کر خدا سے معافیاں مانگتے ہیں۔(سورة الذاریات ‘آیت 18) حقیقت
یہ ہے کہ خداوندِ برتر کی بارگاہ کی عظمت وتقدیس اور اس کے نازک تقاضوں کو
سامنے رکھا جائے تو کوئی بھی اپنے بارہ میں پارسائی کا دعوی نہیں کرسکتا۔
جہاں ابوبکر وعمرؓ جیسی سربلند ہستیاں روتے اور لرزتے ہوئے گزرگئی ہوں ‘
وہاں کون اپنی ”بے گناہی “ کا دعویٰ کرے؟اسی طرح کسی دوسرے انسان کے بارہ
میںقطعیت کے ساتھ نہ تو فاسق وملعون ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی
خدا کے منظور ِ نظر ہونے کا۔ ایسا کرنا اپنی حدود سے تجاوز ہے ۔ ہم صرف اس
کی ظاہری زندگی کی ہی شہادت دے سکتے ہیں۔(مشکاة المصابیح‘باب التقدیر)اس
لیے وثوق کے ساتھ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ آفات سے گناہ گاروں کے
ساتھ ”بے گناہ “ بھی متاثر ہورہے ہیں؟یہاں پر متذکرہ بالا سوال کا پہلا
جواب مکمل ہوا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ انبیائِ کرام اور آسمانی صحائف نے خالق ِ کائنات کاجو
تعارف کرایا ہے ‘ اس کے مطابق اس کی ایک صفت ”ستار“ یعنی گناہوں اور عیبوں
کا پردہ رکھنے والا ہے ۔ اگر اس کی علانیہ کڑک کی لپیٹ میں صرف گنہ گار
آئیں اور نیک لوگ صاف بچ رہیں تو یہ گنہ گاروں کی پردہ دری کے مترادف
ہے۔ایسا بعض پچھلی امتوں میں ہوا یا پھر روزِ قیامت ہوگا کہ نیکو کاروں اور
بدکاروں کے درمیان واضح تفریق قائم کردی جائے گی اور ارشاد ہوگا کہ”اے
مجرمو! آج تم سب سے الگ تھلگ ہوجاؤ۔“(سورة یس ‘آیت 59)
تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ عالم اسرار کا عالم ہے ۔ اس میں تدبر کرنے والوں کے
لیے ہدایت کے راستے کھلے ہیں ‘ مگر جو ہدایت کے طلب گار ہی نہیں‘ ان کے لیے
خدا ایسی کوئی نشانی اتارنے کے حق میں نہیں جوانہیں گردنیں جھکانے پر مجبور
کردے۔ ارشاد ہے کہ ” اگر ہم چاہیں تومنکرین کے لیے آسمان سے ایسی نشانی
اتار سکتے ہیں جس کے سامنے ان کی گردنیں جھک جائیں“(سورة الشعرائ‘آیت 4)بے
شک وہ اپنے مخلص بندوں کی مدد کرتا ہے اور کھلے عام کرتا ہے مگر اس ”کھلے
عام “ کو پڑھنا بھی غور کرنے والوں کا کام ہے ۔ جنہوں نے گم راہی کی دہلیز
پر مرنے کی قسم کھا رکھی ہے ‘ بدرو حنین کے معرکوں میں اور عصائے موسی ویدِ
بیضا میں ان کے لیے ہدایت کا کوئی سامان نہیں۔ اگر خدا آفات اور بلائیں
دنیا پر اس طرح نازل کرے کہ کوئی فرماں بردار سرے سے اس کی لپیٹ میں نہ آئے
تو موجودہ گلوبلائزیشن کے دور میں یہ یقینا ایک ”گردنوں کو جھکا دینے والی
نشانی“ ہوگی۔خدا اس دنیا میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان ایسا کوئی تکوینی
امتیاز قائم کرنا پسند نہیں کرتا کہ جس سے یہ دو الگ الگ بنی نوع محسوس
ہوں۔ (سورة الزخرف‘ آیت ۳۳)قرآنی ضابطہ کی روسے ایسی مبہوت کردینے والی
نشانیاں قربِ قیامت یا پھرموت کے قریب اس وقت ظاہر ہوں گی جب توبہ کا
دروازہ بند ہوچکا ہوگا۔ ارشادہوا”جس دن تیرے رب کی بعض نشانیاں آجائیں گی
تو کسی کو اس کا اسلام لے آنا یا نیا عمل کرنا فائدہ نہ دے گا“(سورة
الانعام ‘ آیت 158) یہی وجہ ہے کہ گذشتہ اقوام میں جب انبیاءکے نافرمانوں
پر عذاب نازل ہوا تو اس کی گرفت میں صرف نافرمان آئے اور اسی وجہ سے اگر ان
میں سے کسی نے عذاب دیکھ لینے کے بعد اسلام قبول کرلیاتو اسے
ردکردیاگیا۔ماسوائے قومِ یونس ؑ کے ‘ان کی توبہ دورانِ عذاب قبول کرلی گئی
جس کے کچھ خاص اسباب تھے ۔(سورة یونس‘ آیت 98) |