" میری بستی میں نیند کا موسم جاری ہے ۔ یہاں کے لوگ آنکھ ، کان ،
ہاتھ پیر، دل، دماغ اور روح سےلذت کے پجاری بن کر اپنے اپنے من پسند نشے میں
بدمست ہیں ۔ جذبات کی شدت نے انہیں غلام بنا کر ہمیشہ کے لیے مسمرائز کر دیا ہے۔ اب
میری بستی میں کوئی جنجوڑے سے بھی نہیں اُٹھتا۔ کبھی یہاں کے لوگ بھی زندہ تھے ۔
ایسے تھے کہ زندگی کی رگوں میں زندگی بن کر بہتے تھےمگر پھر ایک اکلوتا آلہ موبائل
سہولت کے نام پر زندگی میں آیا اور آہستہ آہستہ اس نے ذہنوں کومسمرائز کرنا شروع
کیا اور گرم جوشیوں کی رگوں میں خون جمنے لگا ۔
"سب سوتے سوتے سو گئے ۔ "
بلند آواز میں صدا کرتا وہ شخص جانتا تھا کہ اسکی صدائیں بے اثر ہوں گی کہ سننے
والے اپنی من پسند دنیا کا حسین خواب دیکھنے میں مگن ہیں ۔ جب کوئی اُسکی صدا نہ
سُن پایا تو اس نے شدید احساس تنہائی کو محسوس کیا اتنا کہ وہ اُٹھ کہ چلتے چلتے
چورا ہے مین جا کھڑا ہوا کہ شاید وہاں کوئی صدا سن لے۔
" میں جانتا ہوں کہ تم لوگ حسین خواب بن رہے ہو۔ مگر مجھے تمھاری حالت تمھارا درد
اس قدر محسوس ہوتا ہے کہ میں حقیقی نیند بھی سو نہیں پاتا ہوں ۔ خُدارا میری نتہائی
کو دور کر دو اور واپس لوٹ آؤ۔ کہ میں بہت تنتہا ہوں تم لوگوں کی محفل کے بغیر۔ “۔
جب کوئی بھی متوجہ نہ ہو پایا تو اُس نے ڈھول اُٹھا کر گلی گلی ڈھول پیٹنا شروع
کردیا۔
وہ چلتے چلتے سبزہ زاروں سے گزرتا اپنی پوری بستی کا طواف کرتا ایک جگہ بیٹھ گیا۔
اور سوچنے لگا : " کیوں
نہ میں بھی سو جاؤں؟ پھر میرا خواب تو میرے ساتھ ہو گا مگر نہیں ۔ ۔ کبھی نہیں ۔ ۔
میں ایک مسافر ہوں ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ زندگی کا یہ سفر کٹھن ہی ہو گا۔ اور مجھے
تنہا، ننگے پیر یہ سفر طے کرنا ہوگا مگر اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں خود کو
دھوکا دوں اور فریب کی دکان سجا لوں ۔ اور جب وقت رخصت آئے تو میرا یہ خواب ٹوٹ
جائے اور میں ساری زندگی ضائع کرنے کا سارا درد سود سمیت چند لمحوں میں محسوس کر
کےمرجاؤں۔ ایسا سوچتے اُس نے دل میں اُمید کی کرنیں چلانا شروع کیں اور خواب بنتا
چلا گیا: " ان سب کے برعکس میں اپنے جذبات پہ قابو رکھوں گا اور ان لوگوں کی طرح
خود کو بہکا کر فریب نظر زندگی ہرگز نہ گزاروں گا ۔ میں اپنی بستی کے لوگوں کو
صداقت سے جگانے کی کوشش کروں گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ بہار کا موسم آئے گا۔ اور سب
اُٹھیں گے ، مل کر ناچیں گے ، مل کر خوشیاں منائیں گے "۔
دل بہک کر صدا و منا جا : کرنے لگا
اس نیند کی بستی میں میں تنہا جگا رہتا ہوں
میں جب بھی سونے جاتا ہوں تو نیند میں باتیں کرتا ہوں
آج گاہ کا موسم آیا ہے تو آہ کی میں نے تھانی ہے
فریاد سُنانا چاہتا ہوں ،آہ منے کوئی میری
میری پرانی بستی میں، کوئی آہموسم دھر جائے ،
کوئی شعلہ دکھا دے لوں کوانگارے بدن میں بھر جائے،
جن رگوں میں سردی بہتی ہے، کوئی آگ کا دریا دھر جائے
کسی میں طرف جانے کو ، اخلاق کا مادہ بھرجائے
میری آہ کے دینے سے پہلے، یہ نیند کا موسم چھٹ جائے
یہ نیند کا موسم جائے ، یہ نیند کا موسم گزر جائے
اس نئے خواب نے ہمت کی نئی لہر بھر دی تھی۔ وہ بے چین ہو کراٹھا اور شہر کی اوڑھ
چلا چلا۔ اور صدائیں بلند کیں : " یہ دنیا مصنوعی ہے جو ٹوٹ جائے گی اک خواب کی
طرح۔ وہ کام نقلی ہے اور تباہ ہو جائے گا ایک بے بنیاد عمارت کی طرح۔ وہ ہنسی جو
دوسروں سے ادھار لے کر ہستے ہو، بے ذائقہ ہے مگر وہ جو تم آپس میں مل بانٹ کر نہتے
تھے وہ دلسوز تھی۔ وہ غم جو آپس میں بانٹا جاتا تھا اُسے پوری دنیا کو بتانے سے تو
وہ غم ختم نہیں ہو گا مگر کوشش کرنے سے ضرور ختم ہو جائے گا۔ تم پوری دنیا میں
گھومنے کے متمنی ہو مگر اسکی قیمت اپنوں سے جُدائی ہے ۔ اور جس دنیا میں گھومتے ہو
کیا وہ سب اجنبی اور مطالب پرمت نہیں؟ کیا وہ اپنا غم تم سے اور تم اپنا غم ان سے
چھپاتے نہیں? کیا تمھارے مسائل صرف تمھارے نہیں" کچھ گردنیں مڑ کر اُسے دیکھ رہیں
تھیں ۔ اُسے مزید حوصلہ ملا ۔ تو اُس نےجذبات کو مزید بھڑکانے کی کوشش کی۔
تم نے اپنے حقیقی جذبات کی آگ پر خواب کا پانی چڑھا کر انھیں اس طرح سلا دیا ہے کہ
میری صدا تلک نہیں سُن پاتے۔ اس نیند کا توڑ تمھارے اپنے اندر ہے۔ اپنے دلوں کو
محبت کی آنچ پر پگھلنے دو، یہ نیند کا توڑ ہے۔ تڑپنا، سسکنا اور دوسروں کی فکر میں
گھلنا تمھیں صحت مند بنادے گا۔ آؤ! اپنے ہمدرد کی صدا سنو ! خدارا جاگ جاؤ"۔
کوئی فسوں تحلیل ہوا اور ساری گرد نیں واپس اپنے موبائل پہ جھک گئیں۔ کوئی لیٹ کر
موبائل استعمال کرنے لگا، کوئی کھڑا ہو کر ۔ مگر بس اتنی سی آزادی تھی کہ اپنی مرضی
سے جسے چاہیں بیٹھ کر موبائل استعمال کریں۔ اور جو عرضی دیکھیں مگر انکی سماعت اور
بصارت مصروف رہنی چاہیے۔ سو کوئی ویڈیوز دیکھتا ہنستا چلا جاتا ، تو کسی نے سامنے
آلات کی دکان سجائی اور کیمرے میں دیکھتا بولتا جاتا اس اُمید پر کہ لاکھوں لوگ
اُسکی آوازئیں سنیں گے ۔ اور کوئی امید کرتا کہ لاکھوں لوگ اُسکی حرکات گے تو وہ
اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا جاتا مگر جب کام ختم ہوتا تب بھی وہ سکرین کا غلام بنا اس
فکر میں گلتا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک کیسے پہنچوں ؟ اور کیسے پیسہ ملے تو ساری
دنیا اپنے قدموں میں جھکا دوں ۔ یا تھوڑی دیر انجوائے کر لیتا ہوں اور بس پھر گم
۔۔۔۔
۔”سنو! تم اس بات سے مکمل بے خبر ہو کہ گندم کو پیدا کرے والے ہاتھ موبائل سکرین
پرگھر مجھے پیسہ کمانے لگے ہیں سو اب سے تم میسہ ہی کھاؤگے ۔ اور ہاں تم چاہو تو
پریڈ بھی کھا سکتے ہو مگر گندم کے بغیر"۔ آخر یہ اُس نے طنز کیا تھا۔
غرض اس خواب میں جذبات کے تمام رنگ رنگین ہو کر ہر طرف بکھر جاتے اور آنکھیں ان
رنگوں سے پارا خدھیرا دیکھنے سے ڈرتی اور کھوئی رہتیں۔ ہر چیز بڑھ چڑھ کر نظر آتی
اس سے بے نیاز کے مسافر کو تو اندرونی وبیرونی منزلوں کی فتح کے حصول میں سفر کرنا
ہوتا ہے, چلنا ہوتا ہے, تھکنا ہوتا ہے۔ مگر اس نیند کی لہتی میں لوگ راستے میں پڑے
موبائل پہ پیسہ کما کر اپنے سامنے سامان کا ڈھیر لگا رہے تھے حتی کہ بوڑھے ہو کر مر
جاتے۔
سوچوں کے جال نے جکڑ کر نیند کی وادی میں پٹخ دیا تو ماضی کے نظارے وارد ہونے لگے
:" یہ ایک حسین گاؤں تھا- خوب چہل پہل تھی۔ گاؤں کے چوپال میں سات آٹھ بزرگ بیٹھے
معاملات سلجھا رہے تھے ۔ تھوڑا آگے جو شوخ و چنچل لڑکیوں کا ایک ٹولا کھڑا تھا۔ اُن
میں سے کوئی ایک کوئی بات کرتی تو باقی سب کا ایک مشتر کہ قہقہ بلند ہوتا ۔ وہ اُن
قہقہوں میں ڈوب کر نیند میں باتیں کرنے لگا ۔ حتی کہ خواب و حقیقت آپس میں گڈ مڈ
ہوئے اور اتنی بے چینی بڑھی کہ یک دم وہ آنکھیں کھول کر بیٹھ گیا۔ اس نے سامنے
دیکھا تو ایک نوعمر نوجوان لڑکا سامنے کھڑا تھا۔
صافر اُ سے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ "اے آدم کی اولاد ! اے میرے بھائ ! اے میرے
تنہائی کے احساس کو توڑ کے مجھے آ ملنے والے! اے فرحت بخش انسان ! کیا تم اپنے حواس
میں ہو ؟ کیا تم نے اپنی نیند توڑکی? کیا تم خواب غفلت کی قید سے آزاد ہو چکے ہو؟"
اُسکی حالت حیرت و خوشی سے دیوانی ہوئی جاتی تھی ۔
نوجوان بھی خوشی و مسرت سے لبریز ہوا جاتا تھا ۔ اُس نے عبرت آمیز آواز میں یوں
جواب دینا شروع کیا: ’’ہاں میرے محسن ! میں وہ ابن آدم ہوں جو ایک حسین خواب میں
قید کر دیا گیا تھا ۔ تب مجھے لگا کہ یہ خواب میں خود اپنی مرضی و خوشی سے بن رہا
ہوں ۔ سو میں پُر جوشی سے اُسکی دیواریں کھڑی کرتا رہا ۔ حتی کہ وہ دیواریں میں نے
تب تک تعمیر کیں کہ اُسکو ایک بند قلعے میں تبدیل ہوتے پایا۔ اس قلعے میں کوئی
کھڑکی ، کوئی دروازہ تک نہ تعمیر کر سکا ۔ کیونکہ روزن رکھنے کا فن نہیں جانتا تھا۔
سو میں پوری طرح سے موبائل کے سحر میں جکڑا گیا۔ اور دیواروں نے میرے باہر نکلے کا
راستہ مہر بند کر کے مجھے رہن رکھ لیا۔ اور میں اپنے من پسند قلعے میں قید ہو
کرباہر کی د نیا سے کتا گیا ۔
میرا خون آہستہ آہستہ سرد پڑنے لگا۔ میرے جذبات ماند پڑنے لگے- مجھے ہنسا رونا
بھولنے لگا ۔ مجھے بات کرنا یاد نہ رہا۔ بس یاد تھا۔ تو سننا اور دیکھنا ۔ میں
موبائل کی سکرین چلا کر اپنے اور ڈھیر سارے اجنبی لوگوں کو باتیں کرتے ہوئے دیکھتا
اور سوچتا کہ میرے قلعے کی دیواروں پار ایک وسیع دنیا ہے جس میں بر پل کچھ نہ کچھ
ہو رہا ہے اور صرف اک میں ہی اکیلا ہوں ۔۔۔ جو بے کار ہے ناکارہ پرزہ
وہ رونے لگا۔
"پھر ایسا کیا ہوا کہ تم جاگ گئے ؟ "
میری بے چینی بڑھنے لگی تھی ۔ مجھے اپنے جسم کو حرکت دینی تھی مگر بے دلی اور سنتی
ہے میں ہلنے جلنے سے قاصر تھا۔ ایسے مانتوتو جیسے زنجیروں میں جکڑا گیا مجھے مدد کی
ضرورت تھی جو آخر کار آج مجھے مل گئی ۔ ایک صدا جو انسانی اور حقیقی معلوم ہوئی
غالباً تمھاری آواز --- اُس آواز نے باور کروایا کہ کوشش سے یہ قید خواب توڑی جا
سکتی ہے ۔ پھر آزادی میں شاید یہ عیش و آرام نہ ملے مگر آزادی میں " حرکت " ملے گی
، "درد" ملے گا، جذبات " کا اصلی مزہ ملے گا۔ "جذبات " کی اصلی گرمی کیا ہوتی ہے،
لہو گرم ہو تو کیسا لگتا ہے، زنا کیا ہے ، سکتا کیا ہے، یہ معلوم پڑے گا۔ تمھاری
آواز کے درد اور جوش نے مجھے پر جوش کرنا شروع کر دیا۔ سو میری بے چینی اور احساس
زیاں پڑھتا گیا ، بڑھتا گیا ۔۔۔ یہاں تک کہ میں نے ایک اور خواب دیکھنا شروع کر
دیا۔ " آزادی کا خواب اور یہ خواب میرے پہلے خواب پر غالب آگیا اور میں آزاد ہوتا
چلا گیا ۔ میرے جسم میں حرکت ہونے لگی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے دیواروں شکستگی آتی
گئی ۔ جیسے جیسے حرکت بڑھی دیواریں گرتی گئیں ... اور میں آزاد ہو گیا " خوشی سے
نعرہ لگاتے ہوئے ہوں
”کیونکہ تم وہ واحد شخص تھے جو یہاں موجود باقی لوگوں کے برعکس جاگتی آنکھوں سے
نہیں بلکہ آنکھیں موندے سو رہے تھے پھر تم بڑبڑا بھی رہے تھے، سو میں تمھارے پاس
آیا
۔”میری ریاضت کا صلہ ہو۔ پہلے مجھے لگتا تھا کہ میری صدائیں بے مقصد اور بے سود ہیں
مگر تم میرے تڑپتے دل پر بارش کی طرح ہو۔۔۔ اب مجھے چکی ہے۔۔۔ اب میں تیار ہوں اک
عزم سے ان سب کو جگاؤں گا۔۔۔ میں جاگتی آنکھوں سے ان سب کے ہوش میں آنے کا خواب میں
تیار ہوں۔
میرا بھی اب یہی مقصد ہے ۔ مجھے بھی ساتھ بخش دلا دیں۔ ہم مل کر جگائیں گے " "ٹھیک
ہے چلو شہر چلیں ۔ دونوں نے پُر عزم اور پردرد صدائیں دینا شروع کیں اور حیرت انگیز
طور پر بہت سارے لوگوں نے مدد کے لیے بڑھائے گئے اس ہاتھ کو تھاما۔ خوشی، جذبے اور
اطمینان نے قدم رکھ دئیے تھے۔ کڑی سے کڑی ملتی گئی اور لوگ سکرین کی غلامی سے آزاد
ہوتے گئے۔
پھر ایک دن دونوں میدان میں جا بیھٹے۔ ''مجھے خوشی ہے کہ لوگ جاگ رہے ہیں۔ یہ اس
خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بھی جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا مگر يہ حقیقی بنیادوں،
چزبوں کی شدت اور درد دل سے دیکھا گیا خواب تھا۔ اس نے مجھ میں خرکت بھردی۔ میری
نیندیں مجھ سے چین لیں۔ میں گلی گلی پھرا، نگر نگر صدا کی توتم میری ذندگی میں آۓ۔
اور سب بدلنے لگا۔ شکر ہے کہ ہم دلوں کو گرمانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔''
اب لوگوں کو بتانا ہے کہ وہ سکرین کو کیسے استعمال کریں۔
ایک اجلاس شہر کے درمیان منعقد ہوا ۔ جہاں جاگے ہوئےسب سن سکتے تھے۔’’ سکرین مسئلہ
نہیں کہ تم لوگ سکرین کی طرف مائل اس لیے ہوئے کیونکہ تمھیں لگتا تھا کہ تم اس سے
پیسے کما پاؤ گے جو تمھیں خواہشات و آسائشات حاصل کرنے میں مدد کرے گا ۔ مگر مجھے
اس اس بات پہ اعتراض ہے کہ تم نے اپنی ہنسی ، اپنی خوشی ، اپنا سوچنا سمجھا سمجھنا
سب اسی ایک چیز سے وابستہ کر لیا۔ تم اپنے خالص جذبات کو بھی اس ایک بے جان چیز پہ
لٹانے لگےجا نداریت تک کھوتے چلے گئے ۔ جان کو تو جان کے لیے جاندار کی ضرورت ہوتی
ہے ۔ تم سوائے پیسے کہ اپنی ہر چیز اپنی جانداریت تک کھوتے چلے گئے ۔ مگر اب
اب تم واپس لوٹ آئے ہو تو میں کہنا چاہوں گا کہ ان چیزوں کو چھوڑ مت مگر اپنی زندگی
کو بھی برقرار رکھو۔ تم صرف کچھ حصہ حیات سکرین
کو دے کر باتی زندگی اپنے رہتے بنانے اور انھیں سنبھالنے میں صرف کرد - میانہ روی
تمھیں تمھاری کھوئی ہوئی زندگی لوٹا دے گی۔حرکت کو بڑھاؤ کہ مسافر ہو تم اور مسافر
کا کام خود کو ہلکا رکھ کر اپنی رفتار کو دیکھ کر چلتا ہے اور بس۔ چلتے رہو ، نئی
خوشیوں , لوگوں اور نئے جذبات سے جڑتے رہو ۔۔۔ اور ہر اس چیز سے بھا کو جو تم کو اس
حد تک جوڑ لینا چاہے کہ تم رک کر وہاں، اُسی کے ہو ر ہو ۔ اسے یاد رکھو ۔ اور سب کو
یاد کروانے کی کوشش کرو….تمھارا بھلا ہو۔
میدان میں ہر طرف زندگی اور خوشی دوڑ گئی ۔ ہر طرف لوگ گلے مل رہے تھے ۔ کہ اچانک
آس پاس عجیب سی حرکات ہونے لگیں۔
وہ تمام لوگ جو اپنے خواب میں مگن تھے اور اسے مزید بڑھتے ہی جا رہے تھے وہ غائب
ہونے لگے ۔ وہ جو پیچھے بچے تھے ۔ وہ عجیب و غریب حرکات کرنے لگے۔
ہر طرف کہرام مچ گیا۔ اجلاس میں شامل زندہ دل لوگ رونے لگے ، سینہ کوبی کرنے لگے۔
اور اچانک مسافر کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی چیخ کی مانند منائی دی
میں چلے جا رہے ہیں meta-verseوہ سب
اور بس مسافر کا خواب ---
مسافر کی محنت چکنا چور ہوگئی ۔ مگر مسافر زندہ رہا۔ کیا اب وہ اُنھیں انھیں بچائے۔
میری بستی میں آدھی بستی رہتی ہے
آہ--- مسافر کا خواب
|