انسان کے شوق ا ُسے بہت کچھ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ خوب کہا
ہے کسی نے "شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا" میرا بھی کچھ ایسا شوق ہے جو مجھے سویرے
میٹھی نیند سے جاگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہاں! میرا باغبانی کا شوق مجھے صبح
کی نیند سے بیدار کر کے ہریالی کی اس دنیا میں لے جاتا تھا جہاں کا رخ میں نے
ابھی کیا ہوا ہے۔ ابھی میں اپنے باغ کے سرے پر ہی تھا کہ میں خود کو گہرے سانس
لینے سے روک نہ سکا۔ ہلکی گیلی مٹی، گھاس اور کچھ رنگین پھولوں کی مہک سے میں
باغ میں داخل ہونے سے پہلے ہی تروتازہ ہو گیا۔ باغ کے اندر کے مناظر ہر صبح
دیکھنے کے باوجود مجھے ایسے خوش کر دیتے جیسے میں نے پہلی دفعہ باغ دیکھا ہو۔
نرم اور ہری گھاس پر چلنے سے مجھے کافی اچھا محسوس ہوتا اور اس کے ساتھ ایک
کنارے پر لگے لمبے گھنے درخت اور دوسرے کنارے پر خوبصورت اور رنگین پھولوں کی
کیاریاں ذہن کے ساتھ ساتھ روح کو بھی تر و تازہ کر دیتی ہیں۔ میں نے جلدی سے
اپنی باغبانی کا تمام کام سرانجام دیا اور پھولوں کی کیاریوں کے قریب بیٹھ گیا۔
انسان اور پھول پودے دونوں ہی جاندار ہیں اور یہ ایک دوسرے سے کسی قدر مختلف
اور کسی قدر ملتے جلتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے میری نظر قریبی لگے لال گلاب کی طرف
اٹھی۔ اس کے بڑے بڑے اور لال پھول دیکھنے والے کو انہیں چھونے پر مجبور کر دیتے
ہیں لیکن اگر احتیاط نہ بڑھتی جائے تو پھول پکڑنے والے کہ ہاتھ زخمی ہو جاتے
ہیں۔ کانٹوں کے بیچ و بیچ لگے یہ سرخ پھول ہماری ان خواہشات کی طرح ہیں جنہیں
پانے کے لیے ہم اپنی ضروریات کو پس پشت ڈالتے ہوئے نقصان اٹھاتے ہیں۔ پہلے گلاب
کو کسی ایسی جگہ سے پکڑنا چاہیے جہاں کانٹے نہ لگے ہوں تاکہ ہمارے ہاتھ زخمی نہ
ہوں... بالکل اسی طرح، پہلے ضرورت پھر خواہش۔ اس کے بعد میری نظر کیاری میں لگے
ان پھولوں پر پڑی جو انتہائی نازک تھے۔ یہ ہوا کی تیزی کو برداشت نہیں کر پاتے
اور ہوا کے تیز جھونکے کی وجہ سے نیچے گر جاتے ہیں۔ بالکل حساس لوگوں کی طرح جو
دوسروں کے تلخ رویے برداشت نہیں کر پاتے۔
پھر میری نظروں نے ایک ایسے پودے کا رخ کیا جس کا ایک پھول ٹہنی سے جدا ہو کر
گرنے کے قریب تھا۔ کچھ ہی دیر میں پول ٹہنی سے الگ ہو گیا۔ اسے زمین پر گرنے سے
روکنے کی کوشش ہر پتے، ہر ٹہنی، ہر شاخ نے کی لیکن وہ سب کے سہارے کے باوجود
زمین پر آ گرا۔ جانے والے کو کون روک سکتا ہے بھلا...؟
نازک پھولوں کے علاوہ کچھ ایسے پھول بھی کیاری میں موجود تھے جو کسی حد تک
مضبوطی سے ٹہنی سے جڑے ہوئے تھے۔ انہیں ٹہنی سے الگ کرنے کے لیے اچھی خاصی مشقت
کرنی پڑتی ہے۔ البتہ میں نے اپنے باغ سے پھولوں کو توڑنا غیر قانونی سمجھا ہوا
ہے۔ سوائے ایک دفعہ کے میں نے اپنے باغ سے کبھی پھول نہ توڑا اور ایک دفعہ بھی
توڑنے کی مجبوری تھی۔ دراصل میری والدہ محترمہ کی طبیعت ناساز تھی۔ میں ان کی
تیمارداری کے لیے جانے سے پہلے باغ آیا تو سرخ گلاب دیکھ کر میرے ذہن میں آیا
کہ والدہ محترمہ کو یہ پھول بے حد پسند ہے۔ وہ بھی میری طرح قدرت سے خاصی
دلچسپی رکھتی ہیں۔ میں گلاب کے اس پودے کے قریب جا کر بیٹھا، والدہ محترمہ کا
حال بتایا اور گلاب سے کہا کہ مجھے اسے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے توڑنا پڑے گا۔
گلاب نے میری بات کا جواب تو نہیں دیا البتہ مجھے ایسا لگا جیسے وہ مزید کھل
گیا ہو۔ میں نے آہستگی سے اسے ٹہنی سے جدا کیا اور والدہ محترمہ کی خدمت میں
پیش کیا۔ انہیں میرا یوں بلا وجہ پھول توڑ کر لانا پسند نہ آیا اور ان کے کہنے
پر میں نے اس پھول کو پانی کے مٹکے میں ڈبو دیا۔ گلاب مسکرانے لگا۔ زندگی میں
سرخ گلاب جیسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کی خاطر اپنی قربانی دے دیتے ہیں۔
یقیناً میرا باغبانی کا یہ شوق مجھ پر انتہائی مثبت اثر ڈالتا ہے اور مجھے روز
صبح کوئی نہ کوئی نیا سبق دے دیتا ہے۔ اپنے ہر شوق ہر پیشے کی قدر کرنی چاہیے
اور اس سے زندگی کے کچھ نہ کچھ اصول ضرور سیکھنے چاہیے۔
|