65کی جنگ میں فوج کے ساتھ عوام بھی اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر انڈین ٹیینکوں کے سامنے سینہ سپر ہوئے۔مقررین طلبہ
گلگت(خصوصی رپورٹ: امیرجان حقانی) گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت میں '' یوم دفاع و شہداء پاکستان'' کے عنوان سے ایک تقریب سابق ڈائریکٹر ایجوکیشن کالجز پروفیسر میر احمد خان کی صدارت میں منعقد ہوئی۔اس تقریب میں کالج کے طلبہ نے یوم دفاع و شہداء پاکستان کے عنوان پر، تقریری اور ملی نغموں کے مقابلے میں حصہ لیا۔تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر میراحمد خان نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا دشمن پر قابو پانے کے لیے بہترین علم کے ساتھ اعلی اخلاق و عمل کی بھی ضرورت ہے۔معاشی مستحکم قوموں کو کوئی زیر نہیں کرسکتا۔دشمن کے عزائم یہ ہیں کہ آپ کو علم سے، عمل سے، معاشی استحکام اور سیاسی شعور و بیداراری سے محروم رکھے لہذا علم کی ساتھ اخلاقیات کو بھی ملحوظ خاطر رکھ کر آگے بڑھیں۔سابق ڈائریکٹر کالجز پروفیسر تہذیب الحسن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ستمبر کا یہ ولولہ انگیز اور بابرکت مہینہ اہل پاکستان کے لیے نئے ولولے، عہد تجدید وفا اور ایثار و قربانی کا درس لے کر آتا ہے۔اگر ہمارے اندر قومی یکجہتی، وطن سے محبت، نظریہ پاکستان سے لگاؤ ہو تو ہم ہر ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔جذبہ عشق و ہ عظیم جذبہ جو کسی قوم کے اندر پیدا ہوتو وہ قوم ورطہ حیرت میں مبتلا کردینے والے کارنامے انجام دیتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کے جوانوں کی قربانی اور جذبہ کی مثال جدید کلاسیکل جنگوں میں ملنا مشکل ہے۔آج کا دور ہم سے تقاضہ کرتا ہے کہ اس جذبہ، اس شوق اور اس عشق شہادت کو اپنے دلوں میں منور کریں۔آج علمی تجلیات کا دور ہے۔ہمیں اپنی سوچ اور فرقہ سے نکل کر قومی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے
1965ء میں پوری قوم بیدار تھی، قوم کے اندر پاکستانیت بیدار تھی ، آج بھی اسی جذبے کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور طلبہ کرام کی ذمہ داری تعلیمی محاذ کے سچے سپاہی بننا ہے۔ پروفیسر محمد عالم، پرنسپل پوسٹ گریجویٹ کالج نے اپنے اختتامی خطبہ میں طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یوم دفاع سے زیادہ یوم شہدا کہلانا بہتر ہے۔پاکستان کی فوج نے کئی بڑی جنگیں لڑی، ان جنگوں میں فوج کیساتھ پاکستانی قوم کے بہت سارے رضاکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔اور مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبہ کو مبارکباد پیش کی اور معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ کالج کے لیکچرار فدا حسین نے کہاطلبہ کو اپنا اصل دشمن پہچان کر اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ صرف تعلیم کے ذریعے ممکن ہے۔ ان تمام امور کو سمجھنا ضروری ہے جن کو بنیاد بناکر مغرب نے ہم پر یلغار کیا ہے اسی یلغار کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہے۔یوم دفاع کے پروگرام کی ترتیب و تزئین میں پروفیسر اشتیاق احمد یاد کی خصوصی معاونت رہی ۔ انہوں نے مختلف اوقات میں طلبہ ،لٹریری کمیٹی اور دیگرذمہ اران کے ساتھ کوارڈینشن کی اور طلبہ سے اپنے خصوصی خطاب میں کہاہماری کالج کی تاریخ بہت شاندار ہے۔ہم کالج میں تقریبات کا انعقاد اس لیے کرتے ہیں تاکہ قومی ایام اور مختلف تہواروں کے حوالے سے طلبہ کی فکری رہنمائی کیساتھ طلبہ میں چھپے ٹیلنٹ کو ڈسکور کیا جاسکے۔بہت جلد ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کاانعقاد بھی کیا جائے گا جس میں طلبہ کے ہر قسم کا ٹیلنٹ ڈسکور ہوسکے گا۔احمد سلیم سلیمی نےتمہیدی کلمات میں کہا چھ ستمبر کو یوم دفاع کے نام سے پوری قوم پاک فوج سے اظہار یکجہتی کرتی ہے۔یوم دفاع مملکت خداداد پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈر اپنے اپنے انداز میں مناتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں بھی اس دن تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ زندہ قومیں ملک و ملت کی دفاع کے لیے جان نچھاور کرنے والوں کو سلام عقیدت پیش کرتی ہیں اور ان سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہیں۔پاکستانی قوم انتہائی احسن انداز میں یوم دفاع کے موقع پر فوج کی قربانیوں کا اعلان کرتی ہے۔ ہم نے بھی اپنے طلبہ میں تقاریر اور ملی نغموں کے ذریعے اس بیداری میں حصہ لینے کی شعوری کوشش کی ہے۔تقریب یوم دفاع سے پروفیسر نجم الدین اور امیرجان حقانی نے بھی گفتگو کی اور نتائج کا اعلان کیا۔کالج کے طلبہ کے درمیان یوم دفاع و شہداء پاکستان کے عنوان سے تقریری مقابلہ ہوا۔ طلبہ کی تقاریر کا خلاصہ یہ ہے
6 ستمبر 1965 کو جب انڈین فوج نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے لاہور پر قبضہ کرنا چاہا تو پاکستان آرمی کے ڈیڑھ سو نوجوانوں نے انڈیا کے ڈیڑھ ہزار فوجیوں کو روکے رکھا۔انڈیا کے مذموم ارادوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب ہر محاذ میں ان کے فوجیوں کو پسپائی ہوئی۔سیالکوٹ کے علاقہ چونڈہ میں بھارت کے 45ٹینک تباہ کردیے گئے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی۔لاہور کے محاذ پر مسلسل پانچ دن تک میجرعزیز بھٹی اور ان کے ساتھیوں نے ان کا مقابلہ کیا اور بالآخر جام شہادت نوش کرگئے۔ستمبر 1965کی جنگ میں بھارتی فوج نے 17 دن میں 12حملے کیے لیکن پاکستان آرمی کے نوجوان مسلسل انہیں لاہور داخل ہونے سے روکتے رہے۔طلبہ کرام نے ولولہ انگیز انداز میں مزید کہا، جب تک پوری قوم،سیاسی، اخلاقی،نظریاتی اور جانی ومالی اعتبار سے فوج کیساتھ کھڑی نہیں ہوگی تب تک فوج کو ملک و ملت کا دفاع مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ قومیں سروخرو ہوتی ہیں جن کی عوام اور شعبہ ہائے زندگی کے تمام لوگ اپنی فوج کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور مشکل وقت میں ہر فرد فوجی سپاہی کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس خصوصی تقریب میں طلبہ نے تلاوت، نعت، ملی نغمے، تقاریراور فنکاری کے ذریعے اپنے ٹیلنٹ کا اظہار کیا۔طالب علم محمد علی حیدری نے تلاوت کلام، طالب علم یاسرحمید نے نعتیہ کلام اور طالب علم خلیل احمد نے ستار کے ذریعہ قومی ترانہ پیش کیا۔تقریری مقابلوں میں پہلی پوزیشن طالب علم الطاف حیدر، دوسری پوزیشن حسن احمد اور تیسری پوزیشن طالب علم وجاہت اعظم نے حاصل کی جبکہ ملی نغموں میں پہلی پوزیشن طالب علم وجاہت اعظم، دوسری ساجد علی اور تیسری شایان علی شان نے حاصل کرکے انعام اپنے نام کر دیا۔طالب علم محمد ادریس، طالب علم خادم حسین اور ثاقب خان نے بھی مقابلوں میں حصہ لیا اور سرٹیفیکیٹس لیے۔ اس تقریب کی خصوصی بات یہ تھی کہ کالج انتظامیہ کی طرف سے پروفیسر براداری کے سینئر رفقاءپروفیسروں کو مدعو کیا گیا تھا جن میں پروفیسر میراحمد خان، پروفیسر محبوب علی خان، پروفیسر اسلم عبداللہ، پروفیسر تہذیب الحسن،پروفیسر اویس احمد اور پروفیسر ڈاکٹر خالد اشرف نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔اور پوزیشن ہولڈر طلبہ میں سرٹیفکیٹ اور نقد انعام تقسیم کیے۔تقریری مقابلوں میں ججز کے فرائض پروفیسر نجم الدین، پروفیسر اشتیاق احمد یاد اور پروفیسر محمد رفیع نے جبکہ ملی نغموں کے مقابلوں میں منصفین کے فرائض پروفیسر جٹوری، پروفیسرلقمان رسول اور امیرجان حقانی نے انجام دیے۔
|