نزیر الحق دشتی نقشبندی ایک عظیم مصنف تھے جو کہ ضلع رحیم یار خان کے علاقے بھونگ جو کہ بھونگ مسجد کی وجہ سے مشہور ہے وہاں کے رہنے والے تھے ، انکا اپنا مدرسہ ، بھی ہے جہاں سیکڑوں کی تعداد میں بچے حفظ کر چکے ہیں اور کئی کر رہے ہیں دینی خدمات میں آج بھی انکو یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی مطبوعہ کتابیں پچاس سے بھی زیادہ ہیں جن میں ، سرائیکی پنجابی اور سرائیکستان ، تاریخ دشتی بلوچ، سرائیکیون، دیہات میں جمعہ نماز، اور ، ظہور احمد دھریجہ کا بھیانک چہرہ، ہیں ان کتابوں کو انٹرنیشنل لیول پر بڑی پزیرائی حاصل ہے، تاریخ دشتی بلوچ میں انہوں نے بلوچوں کی معرکہ آرائیوں کے ساتھ انکی بہادری جو بھی بیان کیا ہے ، انھون نے ہمیشہ بلوچوں لیے لکھا ، اس کے علاؤہ مولانا صاحب نے نوے سال کی عمر میں قلمی قرآن یعنی اپنے ہاتھوں سے قرآن مجید لکھا جو کہ ایک عظیم کارنامہ ہے نوے سال کی عمر میں قلمی قرآن لکھنا ۔ اس کے علاؤہ مولانا نزیرالحق دشتی نے قرآن مجید کا بلوچی ترجمہ بھی لکھا جو کہ اس عمر میں اور بلوچی میں لکھنا مشکل کام تھا لیکن مولانا صاحب کی ہمت ہے کہ انھوں نے نوے سال کی عمر میں یہ سب کام کیے۔ مولانا نزیرالحق دشتی نقشبندی صاحب ایوارڈ یافتہ ہے جو کہ 2010 میں گورنمنٹ کی طرف دیا گیا ، مولانا صاحب کا اپنا لائبریری جو کہ مدرسہ احسن العلوم نزیر آباد میں موجود ہے اس لائیبریری میں سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں ہیں اور اس مدرسہ میں کافی تعداد میں بچوں نے حفظ کیا اور اب بھی کررہے ہیں یہ مدرسہ ساٹھ سال پرانی ہے اور یہ مدرسہ پہلا مدرسہ ہے جو تحصیل روجھان میں قائم ہوا جس علاقے کو ڈاکو کا گڑ کہا جاتا ہے نزیرالحق دشتی ایک شریف ، ہنس مکھ ، ہر وقت ہنسنے والے انسان تھے صبح اٹھ کر اپنے لائیبریری میں بیٹھتے اور رات عشاہ تک لائیبریری میں کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے انکو دور دراز سے دوستوں کے خطوط آتے رہتے تھے، بلوچستان ، سمیت تمام صوبوں سے انکے دوست ان سے ملنے آتے تھے ۔ وہ علاقے کے ایک معزز شخصیت تھے ۔ اب انکا لائیبریری ، انکے فرزند مولانا ظہیر الحق نقشبندی نے سنبھالا ہوا ہے وہ بھی عالم اسلام ہیں اور اس مدرسے کو قائم کیے ہوئے ہیں اور بچوں کو پڑھا رہے ہیں یہ مدرسہ بھونگ کے قریب ، کچہ راضی میں ہے ۔
|