آج کیا ہوا تمہیں فراز کیوں سوچ
سوچ کر ہوئے جاتے ہو ہلکان پر لکھنے کے لئے مل نہیں پارہا نہ ہی کوئی موضوع نہ
کوئی عنوان کیوں ہوتے ہو پریشان سنو مہربان جب نہ ملے کوئی عنوان تو آج یہ کرو
میری جان چند سطروں میں لکھ ڈالو اپنی داستان آج کرو نیا یہ کام کہ اپنی زبانی
لکھ ڈالو اپنی ہی داستان کسی کو بھائے نہ بھائے پسند آئے نہ آئے کچھ تو دل کا
نکل جائے ارمان ممکن ہے اس طرح تھم جائے اندر کا طوفان
|
Ok I will try to explore myself please pray for success because self criticism
and self knowledge is very difficult I think for any person but necessary for all of us but first should try to start from 1st person then 2nd and then 3rd so I am going to start myself for myself
|
جی میں فراز تنویر یاد نہیں جہان میں کب وارد کیا گیا اور کب خود سے آشنائی
ہوئی ہئیت کیا ہے جنس کیا ہے کچھ پتہ نہیں بس ایک نام ہے اتنی خبر ہے ایک مسافر
ہے جو بےنام ونشان کارواں کی جانب گامزن ہے جس سمت دھول نظر آتی ہے اسی سمت
رواں دواں شاید یہیں سے ملے اپنی منزل کا نشاں مگر جب دھول چھٹتی ہے پھر وہی
تنہائی پھر وہی دشت و بیاباں پھر انہی بے آب وگیاہ وادیوں میں گم بے نام و نشاں
پھر کسی روشنی کا انتظار وہ سامنے سے بلند ہوتی ابھرتی ہوئی روشنی جو نظر سے
ہوتی دل کے نہاں خانوں کو روشن کرتی اور پھر کسی فراز تنویر کو جنم دے کر آگے
بڑھتی ابھرتی اور سفر کرتی ہے نہ ابتدا کی خبر نی انتہا کا پتہ بس ایک ابھرتی
روشنی ہے آتی ہے راستے کی سمت بتاتی ہے منزل کا نشاں سمجھاتی ہے اور پھر خود
بھی کسی اگلے سفر پر گامزن ہو جاتی ہے بس یہی ہے فراز تنویر ۔۔۔ |