تمام دوستوں کو سلام عرض ہے۔
پچھلے دنوں انہی صفحات پر فتنہ نجد کے بارے میں پڑھا تھا ۔ ہمارا المیہ یہ
ہے کہ ہم صرف ایک فریق کا نقطہ نظر دیکھتے ہیں اور اسی پر یقین کرتے ہیں۔
کیا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا بھی یہ فرض نہیں ہے کہ ہم خود بھی ایسے
معاملات پر غور و فکر اور تحقیق کریں جن میں مختلف علماء کی آراء میں تضاد
ہے۔
فتنہ نجد کے بارے میں ایک مختلف رائے اور تحقیق بھی پائی جاتی ہے جو کہ میں
یہاں پیش کر رہا ہو۔ اور میں یہ درخواست کروں گا کہ اس پڑھیں اور اگر
اختلاف ہو تو دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کریں۔
تعداد نجود!۔
ملک عرب میں کے نام سے جو علاقہ جات معروف ہیں اُنکی مختصر فہرست علامہ
زبیدی نے تاج العروس شرح قاموس کی دوسری جلد کے صفحہ ٥١١ میں اور علامکہ
حموی نے معجم البلدان صفحہ ٢٦٥ جلد ١٩ میں دی ہے جو کہ حسب ذیل ہے۔۔۔
١۔ نجد الوز، ٢۔ نجد اجا، ٣۔ نجد برق، ٤۔ نجد خال، ٥۔ نجد الشری، ٦۔ نجد
عضر، ٧۔ نجد العقاب، ٨۔ نجد کبکب، ٩۔ نجد مریع۔ ١٠۔ نجد الیمن، ١١۔ نجد
العراق، ١٢۔ نجد الحجاز۔۔۔
جب نجد نام کے متعدد مقامات ہیں اور عراق ویمن دونوں علاقوں میں پائے جاتے
ہیں تو ضروری ہے کہ اس نجد کی تلاش کی جائے جس کو زبان رسالت صلی اللہ علیہ
وسلم نے (قرن الشیطان) کہا ہے تاکہ پیشنگوئی کا ظہور پورے طور پر سمجھ میں
آسکے جب ہم اس حدیث پر غور کرتے ہیں تو نظر آتاہے کہ نجد عراق ہی وہ سرزمین
ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مراد لیا ہے آئیے غور کرتے ہیں کہ نجد
عراق ہی وہ سرزمین ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مراد لیا ہے آئیے اس
دعوے کا ثبوت بھی دیکھیں۔۔۔
قرن الشیطان کونسا نجد ہے؟۔
اس سوال کے جواب کیلئے سب سے اول ہم حدیث نبوی کو ہی لیتے ہیں چنانچہ حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روای ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا
فرمائی کہ!۔
اللھم بارک لنا فی اللھم بارک لنا فی یمننا قالوا یارسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم فی نجد قال اللھم بارک لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا
قالوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفی نجدنا فاظنہ قال فی اللثالثۃ
ھناک الزلازل والفتین و بھا تطلع قرن الشیطان (بخاری صفحہ ١٥١ جلد ٢)۔۔۔
یعنی اے اللہ ہمارے لئے شام میں برکت دے، اے اللہ ہمارے لئے یمن میں برکت
دے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم ہمارے نجد میں (بھی برکت کی دُعا کیجئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر
دُعا فرمائی اے اللہ ہمارے لئے شام میں برکت دے ہمارے لئے یمن میں برکت دے
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پھر فرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسل اورہمارے نجد میں (بھی برکت کی دعا کیجئے) راوی ابن عمر۔۔۔ نے کہا میرا
خیال ہے کہ تیسری مرتبہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جواب میں) آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان
کا سینگ ظاہرہوگا۔۔۔
امام بخاری رحمۃ اللہ اس حدیث کو ‘ الفین قبل المشرق‘ کے عنوان کے تحت لاکر
حدیث میں موجود لفظ ‘وفی نجد‘ کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ نجد سے مراد اس
جگہ کونسی سرزمین ہے اس تشریح کیلئے امام بخاری ایک اور حدیث لائے ہیں کہ!۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ!۔
ان سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو مستقبل المشرق یقول الاان الفتنہ
ھھنا من حیث یطلع قرن الشیطان (بخاری صفحہ ١٠٥٠)۔۔۔
یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو مشرق کی طرف منہ کر کے یہ کہتے ہوئے سنا کہ خبردار بیشک فتنہ
یہاں سے نکلے گا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلتا ہے۔۔۔
اس حدیث نے بات صاف کردی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشنگوئی فرماتے
ہوئے مشرق کی طرف اشارہ کرتے فرمایا تھا کہ قرن شیطان اس طرف ہے اس سوال
پیدا ہوتا ہے کہ سید العرب والعجم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ نے کب اور کس
جگہ کھڑے ہوکر مشرق کی طرف اشارہ کیا تھا سو اس کی تشریح کیلئے امام بخاری
ایک تیسری حدیث امام سالم رحمۃ اللہ کے واسطے سے لاتے ہیں جس میں یہ الفاظ
ہیں کہ!۔
انہ قال الی جنب المنبر
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات منبر کی ایک جانب کھڑے ہوکر کہی تھی
(بخاری صفحہ ١٠٥٠ جلد ٢)۔۔۔
اس حدیث سے یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
مدینہ طیبہ میں مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرن الشیطان اس طرف
سے نکلے گا اور مدینہ طیبہ سے عین مشرق کی طرف نجد عراق ہے جو کہ اہل
الرائے کا مرکز ہے چنانچہ علامہ محمد طاہر فتنی حنفی اس حدیث کا معنٰی بیان
کرتے ہوئے نجد شیطان کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ!۔
ھو اسم خاص لمادون الحجاز ممایلی العراق
یعنی یہ ایک خاص جگہ کا نام ہے جو حجاز کے علاوہ عراق کے ساتھ ملتی ہے (
مجمع بحار الانوار صفحہ ٦٨٠ جلد ٤)۔۔۔
مزید وضاحت!۔
١۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ راوی ہیں کہ!۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم بارک لنا فی مدینتنا اللھم بارک
لنا فی شامنا اللھم بارک لنا فی یمننا فقال لہ رجل یارسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم فالعراق۔۔۔ فان فیھا میرتنا وفیھا حاجتنا فسکت، ثم اعاد علیہ
فسکت، فقال بھا یطلع قرنا الشیطان و ھنالک الزلازل والفتن (کنزالعمال صفحہ
٧٧ جلد ١٤ رقم الحدیث ٣٨٢٧٣)۔۔۔
یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کی اے اللہ ہمارے مدینہ کو
ہمارے لئے برکت والا بنا اے اللہ ہمارے شام میں برکت عطاء فرما اے اللہ
ہمارے یمن کو ہمارے لئے بابرکت بناء ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم عراق کیلئے بھی دُعا فرمائیے کیونکہ وہاں سے ہمارے لئے
گندم اور دیگر ضروریات کا سامان مہیا ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش
رہے اس نے یہ دیکھ کر پھر گزارش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھر خاموش رہے
پھر فرمایا کہ وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا وہاں زلزلے اور فتنے برپا ہوں
گے (یعنی میں اس کے لئے کیسے دُعا کروں وہ تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین
ہے)۔۔۔
٢۔ حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ!۔
صلی رسول اللہ صلاۃ الفجر ثم انفتل فاقبل علی القوم فقال، اللھم بارک لنا
فی مدینتنا و بارک لنا فی مدنا و صاعناء اللھم بارک لنا فی حرمنا و بارک
لنا فی شامنا و یمننا فقال رجل والعراق یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!
فسکت ثم اعاد فقال اللھم بارک لنا فی مدینتنا وبارک لنا فی مدنا و صاعنا
اللھم بارک لنا فی حرمنا وبارک لنا فی شامنا ویمننا فقال رجل والعراق یا
رسول اللہ فسکت ثم اعاد فقال اللھم بارک لنا فی مدینتنا وبارک لنا فی مدنا
و صاعنا اللھم بارک فی حرمنا وبارک لنا فی شامنا و یمننا فقال رجل والعراق
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ثم یطلع قرن الشیطان و تھیج الفتن (
ایضاء صفحہ ٧١ جلد ١٤ رقم الحدیث ٣٨٢٢٨)۔۔۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا فرمانے کے بعد متقدیوں کی طرف
منہ کر کے دُعا فرمائی اے اللہ ہمارے واسطے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے
واسطے مد اور صاع میں برکت دے اے اللہ حرم میں ہمارے لئے برکت دے شام اور
یمن میں برکت دے ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
عراق (کیلئے بھی برکت کی دُعا کیجئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر
فرمایا اے اللہ ہمارے واسطے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے واسطے مد اور صاع
میں برکت دے اے اللہ حرم میں ہمارے لئے برکت دے شام اور یمن میں برکت دے
(اس پر) ایک آدمی نے گزارش کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عراق
(کیلئے بھی برکت کی دُعا کیجئے) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر
دُعا فرمائی اے اللہ ہمارے واسطے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے واسطے مد اور
صاع میں برکت دے اے اللہ حرم میں ہمارے لئے برکت دے شام اور یمن میں برکت
دے (اس پر پھر) ایک آدمی نے گزارش کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم عراق (کیلئے بھی برکت کی دُعا کیجئے) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا (میں وہاں کیلئے کیسے دُعا کروں) جبکہ وہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا
اور فتنے فساد جوش ماریں گے۔۔۔
اس حدیث کو مکرر ملاحظہ کیجئے یہ کسی حاشیہ آرائی کی محتاج نہیں بلکہ اپنی
تفسیر آپ بیان کر رہی ہے کیونکہ یہاں نجد کی بجائے صاف عراق کا لفظ موجود
ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ بخاری کی روایت میں جو نجد کا لفظ آیا ہے اس سے
مراد نجد عراق ہے نجد یمن جس کو آج کل نجد سعودیہ کہتے ہیں وہ مراد نہیں
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کو باب الفتین قبل المشرق کے تحت لاکر
اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ یہاں نجد سے وہ نجد مراد ہے جو مدینہ سے جانب
مشرق ہے اور سب جانتے ہیں کہ مدینہ سے مشرق کی جانب عراق ہے جس میں بصرہ و
کوفہ جیسے شہر آباد ہیں جو کہ اہل الرائے کے مراکز اور فتنوں کی سرزمین
ہے۔۔۔
تاریخ کی شہادت!۔
١۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والا عجمی تھا۔۔۔
٢۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد کا فتنہ عراق ہی سے اُٹھ کر مصر تک
پھیلا۔۔۔
٣۔ جنگ جمل اور صفین اس سرزمین عراق پر ہوئی جس کے نتیجے میں وہ قیمتی خون
بہا جس کی تلافی رہتی دنیا تک نہ ہوسکے گی اور وہ پاک نفوس ان جنگوں میں
کام آئے جن کی مثال دنیا کبھی پیش نہیں کر سکتے گی۔۔۔
٤۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہیں شہید ہوئے۔۔۔
٥۔ خوارج، اسلام کا پہلا گروہ جہمیہ کا فتنہ جس کا موجد جہم بن صفوان تھا
عراق سے نکلا معتزلہ نے بھی یہیں سے سر نکالا جس کی وجہ سے بے شمار فقہاء
محدثین کو ناقابل برداشت اذیتیں سہنا پڑیں اعتزال کے بانی مبانی واصل بن
عطاء اور عمرو بن عبید بھی عراقی تھے۔۔۔
٦۔ جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ یہیں
فرات کے کنارے لٹا۔۔۔
٧۔ شیعیت جس نے اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کیا یہیں عراق کی پیداوار
ہیں۔۔۔
٨۔ حجاج کی سفاکیاں اسی سرزمین پر ہوئی۔۔۔
٩۔ مختار بن ابوعبید نے دعویٰ نبوت عراق سے ہی کیا۔۔۔
١٠۔ ترک وتاتار کی غارت گریوں کے نتائج (جنہوں نے اسلام کی رہی سہی طاقت
اور عرب و خلافت عربی کا تارتار الگ کردیا) یہیں رونما ہوئے۔۔۔
١١۔ حتی کہ جنگ عظیم میں واحد اسلامی طاقت کیساتھ غداری کے نتائج بھی اولا
یہیں ظاہر ہوئے اور اسی کے اثرات بعد کوفہ اور اطرار میں بھی رونما ہوئے۔۔۔
١٢۔ ماضی قریب میں عبدالکریم قاسم کا فتنہ بھی عراق سے نکلا۔۔
١٣۔ ماضی قریب میں بہایت اور بابیت نے یہیں سے جنم لیا اور اسی کی بگڑی
ہوئی صورت قادیانیت ہمارے سامنے ہے۔۔۔
١٤۔ عراق ایران جنگ جس نے تمام مسلمانوں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا
ہے جس کے دور رس نتائج نکل رہے ہیں اور صدام حسین کا تازہ فتنہ جس نے عالم
اسلام کو تباہ کردیا ہے یہ تمام فتنے عراق سے ہی نکلے ہیں۔۔۔
١٥۔ اور آخر میں دجال بھی اس ہی سرزمین سے نکلے گا۔۔۔(مستفاد از سیرت النبی
جلد سوم صفحہ ٣٨٩ وتاریخ اسلام مؤلفہ معین الدین ندوی)۔۔۔
ان تمام تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ عراق ہی قرن
الشیطان اور زلازل وفتن کی سرزمین ہے۔۔۔
حدیث نبوی کے مطابق مشرق سے دس سے زیادہ بڑے بڑے فتنے کھڑے ہونگے تفصیل
آپکے سامنے ہے آپ نے ملاحظہ کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم برحق
کی یہ پیشنگوئی کس قدر حقیقت و سچائی پر مبنی ہے اس کے برعکس نجد سعود سے
آج تک کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوا بلکہ بنو تمیم کے ایک مومن کامل نے فتنہ
پروروں اور ملت فروشوں کا قلع قمع کرتے ہوئے توحید و سنت کے پیغام سے قبر
پرستوں کو ننگا کر دیا ولایت کے نام پر قبروں کو مال تجارت بننے سے منع
کردیا طریقیت کے نام سے ملت فروشی کو ختم کردیا جب مشرکین کے کاروبار ماند
پڑھ گئے تو اس مرد حق کو اس قدر بدنام کیا گیا الامان والحفیط مگر دنیا نے
دیکھا کہ اس کی دعوت نجد سے نکل کر حجاز و تہامہ یمن و شام تک عام ہوگئی
اور اسی کی دعوت وجہاد ہی کے نتیجئے میں حرمین شریفین کو انکاپرانا وقار مل
سکا اور ان کی حقیقی حرمت وعزت بحال ہوسکی۔۔۔
اصل مضمون کا مطالعہ یہاں کیا جاسکتا ہے۔
https://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=1301&highlight=%D9%86%D8%AC%D8%AF+%D8%B4%DB%8C%D8%B7%D8%A7%D9%86+%D8%B3%DB%8C%D9%86%DA%AF |