دس عظیم فوائد....غزوہ بنی المصطلق کی روشنی میں

”لوگوں کا یہ فرض ہے کہ خداوند قدوس نے جن برگزیدہ حضرات پرکفر کی نجاست منکشف فرمائی ان کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور خوب سمجھ لیں کہ کسی بے حس اور مزکوم کا گلاب اورپیشاب کی خوشبو اور بدبو کو نہ محسوس کرنا صحیح الحواس پر حجت نہیں کلمات طیبہ کی طیب اور خوشبو کو اور کلمات خبیثہ کی خبث اور رائحہ کریہہ کو کیا محسوس کریں“۔

یہ الفاظ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے ہیںجو انہوں نے سیرت پرا پنی مایہ ناز کتاب سیرت المصطفیٰﷺ میں غزوہ بنی المصطلق اور ا س میں پیش آنے والے ایک خاص واقعے سے متعلق تحریر فرمائے ہیں۔ ان الفاظ میں چھپے پیغام کی ضرورت و اہمیت کی یاددہانی اس لئے ضروری ہو گئی ہے کہ ابھی دو ایک روز قبل ہی قوم جشن آزادی کی تقریبات و احوال سے فارغ ہوئی ہے، تو اس موقع پر یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ اصل آزادی کفر اور کفریہ طاقتوں سے آزادی ہے اور یہ آزادی اس وقت تک ممکن نہیں جب کفر و جاہلیت کی نجاست و خباثت آشکارانہ ہو اور آج امت اسلامیہ کی ایک بڑی اکثریت، خاص کرعمومی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایمان خالص کی حلاوت و لذت اور کفر و جاہلیت کی متعفن نجاست و خباثت محسوس کرنے سے محروم ہے جس کی وجہ سے ان کے معاملات میں اسلام اور کفر و جاہلیت کا نازک فرق اٹھ چکا ہے۔ زیر نظر تحریر میں پہلے غزوہ بنی المصطلق اور اس میں پیش آمدہ ایک خاص واقعے کی مختصر تفصیلات اور ایک فائدہ جلیلہ نقل کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں ان سے حاصل ہونے والی چند اہم اور ضروری ہدایات و اسباق نمبر وار بیان ہوں گے شاید سیرت نبوی کے اس آئینے میں ہمیں اپنی حالت سدھارنے کی توفیق مل جائے۔
رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں

غزوہ بنی المصطلق :رسول اﷲﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ حارث بن ابی ضرار سردار بنی المصطلق نے بہت سی فوج جمع کی ہے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری میں ہے آپﷺ نے بریدہ بن حصیب اسلمیؓ کو خبر لینے کے لئے روانہ فرمایا۔ بریدہؓ نے آکر بیان کیا کہ خبر صحیح ہے۔ آپﷺ نے صحابہ کو خروج کا حکم دیا۔
صحابہؓ فوراً تیار ہو گئے تیس گھوڑے ہمراہ لئے جس میں سے دس مہاجرین کے اور بیس انصار کے تھے اس مرتبہ مال غنیمت کی طمع میں منافقین کا بھی ایک کثیر گروہ ہمراہ ہو لیا جو اس سے پہلے کبھی کسی غزوہ میں شریک نہ ہوا تھا۔ مدینہ میں زید بن حارثہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا اور ازواج مطہرات میں سے ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اور ام المومنین ام سلمہؓ کو ساتھ لیا اور ۲ شعبان یوم دو شنبہ کو مریسیع کی طرف خروج کیا۔

تیز رفتاری کے ساتھ چل کر ناگہاں اورا چانک ان پرحملہ کر دیا اس وقت وہ لوگ اپنے مویشیوں کو پانی پلارہے تھے حملہ کی تاب نہ لا سکے دس آدمی ان کے قتل ہوئے باقی مرد و عورت بچے اور بوڑھے سب گرفتار کر لئے گئے مال اسباب لوٹ لیا گیا۔ دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں ہاتھ آئیں اور دو سو گھرانے قید ہوئے۔

اس سفر میں چونکہ منافقین کا ایک گروہ شریک تھا ہر موقع پر اپنی فتنہ پردازی اور شر انگیزی کو ظاہر کرتے تھے۔ چنانچہ ایک پانی کے چشمہ پر ایک مہاجری اور ایک انصاری میں جھگڑا ہوگیا مہاجر نے انصاری کے ایک لات ماری۔ مہاجری صحابی نے یا للمہاجرین کہہ کر مہاجرین کو، انصاری نے یا للانصار کہہ کر انصار کو اپنی اپنی مدد کے لئے آواز دی۔ رسول اﷲﷺ نے جب یہ آوازیں سنیں تو ارشاد فرمایا کہ جاہلیت کی سی آوازیں کیسی ، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ ایک مہاجری نے ایک انصاری کو لات ماردی آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
” ان باتوں کو چھوڑو البتہ تحقیق یہ باتیں گندی اور بدبودار ہیں۔“

فائدہ جلیلہ :رسول اﷲﷺکا یہ ارشاد کہ ان باتوں کو چھوڑو البتہ تحقیق یہ باتیں گندی اور بدبودار ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اچھی باتیں پاکیزہ اور خوشبودار ہیں۔ اور بری باتیں گندی اور بدبودار ہیں جن کی خوشبو اور بدبو کا احساس ظاہری اور حسی طورپر حضرات انبیاءعلیہم الف الف صلوات اﷲیا ان کے وراثین کو ہوتا ہے۔

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اﷲﷺ کے ساتھ تھے کہ سخت بدبو اٹھی رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا کہ تم کومعلوم ہے کہ یہ کس چیز کی بدبو ہے یہ بدبو ان لوگوں کے منہ سے آرہی ہے جو اس وقت مسلمانوں کی غیبت(بدگوئی) کر رہے ہیں اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔ امام احمد کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

اس حدیث سے یہ ظاہر ہے کہ آپﷺ نے اورجو حضرات آپﷺ کے ساتھ تھے سب نے غیبت کی بدبو کو محسوس کیا لیکن یہ امر کہ یہ کس چیز کی بدبو ہے یہ آپﷺ کے بتلانے سے معلوم ہوا۔

حافظ سیوطی نے خصائص کبری کے باب ماوقع فی غزوة بنی المصطلق من الآیات کے تحت میں اسی حدیث کو بحوالہ ابی نعیم ان الفاظ میں روایت کیا ہے:حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اﷲﷺ کے ساتھ تھے کہ یکایک ایک سخت بدبو اٹھی کہ جو غالباً ا سے پہلے کبھی دیکھنے اور سننے میں نہیں آئی تھی آنحضرتﷺ نے فرمایا تم اس عجیب و غریب بدبو سے تعجب مت کرو۔ اس وقت چند منافقین نے اہل ایمان کی غیبت اور بدگوئی کی ہے پس اس لئے یہ بدبو نمودار ہوئی ہے یعنی یہ اہل ایمان کی غیبت کی عفونت ہے اس لئے اس میں یہ شدت اورغرابت ہے کہ حافظ سیوطی کے اس کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کی بدبو کاواقعہ غزوہ بنی المصطلق ہی میں پیش آیا۔

اور اسی قسم کا ایک اور واقعہ مدینہ کے قریب پہنچ کر پیش آیا جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ جب ہم اس سفر یعنی غزوہ بنی المصلطق سے واپس ہو کر مدینہ کے قریب پہنچے تو دفعتہً ایک نہایت متعفن اور بدبودار ہواچلی آپﷺ نے اردشاد فرمایا یہ بدبودار ہوا کسی منافق کے مرنے کی وجہ سے چلی ہے جب ہم مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایک بڑا منافق مراہے۔ (خصائص کبریٰ)

غالباً اس منافق کی خبیث اورگندی روح کی وجہ سے اس صحرا کا تمام علاقہ متعفن ہو گیا جس کو نبی اکرمﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرامؓ نے محسوس فرمایا۔

جامع ترمذی میں عبداﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے یہ ارشاد فرمایا: ”جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔“

جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس سے بغیر اﷲ کا ذکر کئے اٹھ کھڑے ہوئے تو گویا وہ لوگ جیفہ حمار(مردار گدھے) کے پاس اٹھے۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث قدسی میں ہے کہ بندہ جب کسی عمل نیک کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے عمل کرنے سے پیشترہی محض اس کے ارادہ ہی پر ایک نیکی لکھ لیتے ہیں اور کرنے کے بعد دس گونہ سے سات سو گونہ تک لکھتے ہیں اور بندہ جب بدی کا ارادہ کرتا ہے تو جب تک نہ کرلے اس وقت تک بدی نہیں لکھتے۔

سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ جب بندہ کسی نیکی کا ارادہ کرتاہے تو اس کے اندر سے ایک رائحہ طیبہ پاکیزہ خوشبو مہکنے لگتی ہے فرشتے سمجھ لیتے ہیں کہ اس نے نیکی کا ارادہ کیا ہے اور جب بدی کا ارادہ کرتا ہے تو اس میں سے رائحہ خبیثہ بدبواٹھتی ہے فرشتے سمجھ لیتے ہیں کہ اس نے بدی کا ارادہ کیا ہے۔

جس طرح ہر عطر کی جداگانہ خوشبوہوتی ہے عجب نہیں کہ اسی طرح ہر حسنہ(نیکی) کی جداگانہ خوشبو ہوتی ہو جس طرح عطر ساز اور عطر فروش خوشبو سونگھتے ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ فلاں عطر کی خوشبو ہے ممکن ہے کہ فرشتے بھی خوشبو سونگھتے ہی پہچان لیتے ہوں کہ یہ فلاں عمل صالح کی خوشبوہے۔

عارف ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ فرماتے ہیں: وہب بن منبہؒ فرمایا کرتے تھے کہ نہیں مرتا کوئی بندہ یہاں تک کہ مرنے سے پہلے کراماًکاتبین کودیکھ لیتا ہے پس اگر اس شخص نے کراماً کاتبین کے ساتھ نیکی سے زندگی بسر کی تھی تو اس وقت فرشتے یہ کہتے ہیں جزاک اﷲ خیرا اﷲ تجھ کو جزائے خیر دے تو بڑا اچھا ساتھی تھا کتنی ہی مرتبہ تو نے ہم کو خیر کی مجلسوں میں اپنے ساتھ شریک رکھا اورکتنی بار تیری مخلصانہ عبادت کے وقت ہم نے تجھ سے پاکیزہ خوشبوئیں سونگھی ہیں اور اگر اس شخص نے کراماً کاتبین کے ساتھ برائی کے ساتھ زندگی بسر کی تھی تو فرشتے اس وقت یہ کہتے ہیں خدا تجھ کو جزائے خیر نہ دے کتنی بار تیری وجہ سے گناہوں کی مجلسوں میں ہم کوتیرے ساتھ شریک ہونا پڑا اور کتنی بار تجھ میں بدبوسونگھنی پڑیں۔

ان تفصیلات سے درج ذیل چند نمایاں اسباق حاصل ہوتے ہیں:۔
(۱) مسلمانوں کے لئے قطعاً یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کافروں کو اپنے اوپر حملہ آور ہونے دیں۔
(۲)اگر کسی حملہ آور گروہ، قوم یا لشکر وغیرہ کی اطلاع ملے تو فی الفور ترجیحی بنیادوں پر اس سے نمٹنے کی ترتیب بنانا اور جہادی لشکر روانہ کرنا ضروری ہے۔
(۳) حملہ آور کافروں پر غلبہ پانے کے بعد انہیں اس قدر کمزور کرنا ضروری ہے جس سے وہ دوبارہ حملہ کر نے کے قابل نہ رہیں۔
(۴) کافروں کی تیاری کی اطلاع ملنے پر یہ انتظار نہ کیا جائے کہ جب وہ حملہ کریں گے توہم اپنا دفاع کر لیں گے یعنی صرف اپنے دفاع پر اکتفاءکافی نہیں بلکہ حسب موقع اطلاع پانے کے بعد خود پہل کر کے ان حملہ آوروں کی قوت کو کچل دینا چاہئے۔
(۵) اہم جہادی مہمات میں تو منافقین کو شریک نہ کیا جائے لیکن آسان مہمات میں انہیں شریک کرلینے میں مضائقہ نہیں۔
(۶) منافقین کی شرارتوں پرخاص کر تفریق پیدا کرنے والی حرکتوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور مخلص مسلمانوں کو ان سازشوں میں ملوث ہونے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
(۷) منافقین کے غلط افکار و نظریات کی ہر وقت پرزور تردید کی جائے۔
(۸) منافقین کو شرارتوں کے باوجود مسلم معاشرے سے یکسر نہ کاٹا جائے ورنہ مسلمانوں کا باہمی الجھاؤ زیادہ ہو کر کافروں کو تقویت ملے گی۔
(۹) مسلمانوں میں قومیت، لسانیت، حزبیت وغیرہ تعصبات کی آواز اٹھانے پر سخت پابندی ہو، ان عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس کی روک تھام کے لئے مؤثر تدابیر کی جائیں۔
(۰۱) اسلامی اعمال میں سے ہر عمل کی نہایت منفرد، عمدہ اور نفیس خوشبو ہے اور کفر و جاہلیت کے کرداروں میں سے ہر ایک میں خباثت اور متعفن بدبو ہوتی ہے۔ جسے اﷲ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں پرمنکشف فرماتے ہیں توجب یہ برگزیدہ حضرات ان امور میں مسلمانوں کی رہنمائی کریں تو مخلص اہل ایمان دل و جان سے ان کی اطاعت کرتے ہیں اور منافقین اپنی خباثت و نجاست میں بڑھ جاتے ہیں۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372706 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.