مومن کا دل ،حصول_ علم سے نہیں بھرتا ،یہی لگن لگی رہتی ہے کہ جتنا علم ہے ،اس سے آگے سیکھا جاۓ، یہ خواہش بہت مفید ہے جسےمل جاۓ ! حال ہی میں جسارت کی ایڈیٹر غزالہ عزیز کی کراچی سے لاہور آمد ہوئی تو صفیہ ناصر نے ان کے ساتھ نشست کے لئے مجھے قواریر سنٹر مدعو کیا جہاں وہ پہلے سے موجود تھیں۔اس مختصر ملاقات اور تبادلہ ء خیالات سے تشفی نہ ہوئی تو پھر ان کے ساتھ ایک زوم کلاس ارینج کرلی گئ جس میں منتخب لکھاری خواتین نے شرکت کی."عصر_ حاضر میں پرنٹ میڈیا کی اہمیت " کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے غزالہ عزیز نے کہا کہ ◾میڈیا پر بولنے والا بھی لکھی ہوئی تحریر پڑھتا ہے ،اس سے لکھنے کی اہمیت کا پتا چلتا ہے ۔◾معیاری تحریر لکھنے کے لئے مطالعہ ،محنت اور لگن ضروری ہے ،بالکل جیسے کھانا پکاتے ہوۓ مصالحے ڈال کر پکانے بھی ہوتے ہیں ۔
◾لکھاری کی حوصلہ افزائی ضروری ہے ،حوصلہ افزائی کسی ناکام شخص کو بھی کامیاب بنا سکتی ہے ۔ ◾وقت کے ساتھ اپنی اسکلز کو بہتر کرتے رہنا چاہئیے ،پرانی کتابوں کے ساتھ نئ کتابوں کو پڑھنا بھی ضروری ہے۔ ◾مختلف اصناف کا علم ہونا چاہئیے ،میں خواتین لکھاریوں کو " کہانی " لکھنے کا مشورہ دوں گی ،خصوصا" بچوں کے لئے کہانی لکھنے کو اپنی صلاحیت کی " زکوٰۃ " سمجھیں کہ یہ ہر عمر کے بچوں کی ضرورت ہے۔ ◾بچے فطرت سے قریب ہوتے ہیں اس لئے آپ بچوں کی کہانیوں میں درختوں ،جانوروں حتیٰ کہ چیونٹی کے کردار کے ذریعے بھی کہانی لکھ سکتے ہیں۔بچوں کا تخیل زرخیز ہوتا ہے اس میں اخذیت اور متاثر ہونے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔موجودہ دور میں موبائل گیمز اور کارٹونز نے بچوں کے تخیل کو متاثر کیا ہے۔
◾نیٹ پر لکھنے سے پہلے پرنٹ میڈیا پر لکھئیے اس سے آپ کی تحریر معتبر ہوجاتی ہے ۔ ◾اگر آپ بلاگ لکھتے ہیں تو یہ مختصر ،دو ٹوک اور مدلل لکھیں ،انداز دوستانہ ہو ،تنقید اور طنز کا انداز نہ ہو ،اعدادوشمار تحقیق کر کے درست درج کریں۔ ◾پڑھنے والے کی ذہنی سطح کو سمجھ کر لکھیں ،یہ نہ ہوکہ آپ کا چھوڑا ہوا تیر لوٹ کے واپس آپ کی طرف آجاۓ۔ اس کے بعد لکھاری خواتین نے غزالہ عزیز سے سوالات کئے اور انھیں جوابات دئیے گئے ،دعا سے اس خوب صورت نشست کا اختتام ہوا ۔ لکھاری خواتین نے اپنے فیڈ بیک میں کہا کہ ایسی نشستیں لکھاریوں کے لئے بہت مفید ہیں اس لئے وقتاً فوقتاً ہوتی رہنی چاہئیں ۔
|