قلم شگوفیاں سیر سے سیر ہونے تک تحریر سبطین ضیاءرضوی اچھی طرح یاد ہے کہ تیسری سے چھٹی ساتویں تک اردو کے ہر پرچے میں صبح کی سیر پر مضمون لکھنا پڑتا تھا جس میں خصوصاً سحر خیزی اور نماز فجر سے لے کر صبح کے مناظر فطرت کی خوبصورتی، سورج کی کرنیں، باد صبا کے جھونکے ،پھولوں کی خوشبو اور ان کی پتیوں پر شبنم کے قطروں کے رقص اور دیہاتی ماحول کی صبح ،کہ جس میں ککڑ کی بانگ ، دہقانوں کا ہل جوتنا اور ان کے بیلوں کے گلے میں بجتی گھنٹی کی ٹن ٹن اوراپنی چہل قدمی کے ساتھ ہلکی پھلکی ورزش کا ذکر ضرور ہوتا تھا۔
اللہ معاف فرماۓ یہ ہمارا اس معصومیت کے دور کا وہ منظم جھوٹ ہوتا تھا جسے ہم درسی کتب اور استاد جی کی مدد سے گھڑ گھڑ کر لکھتے تھے ورنہ ہمارے تو فرشتے بھی نہ جانتے تھے کہ مرغ اذان گردن اٹھا کے دیتا ہے یا ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کے یا شبنم کا رقص ، باد صبا اور دماغ کی تراوٹ کیا بلا ہوتی ہے۔
ہاں اتنا یاد تھا کہ صبح جب سورج کو پسینہ آ چکا ہوتا اور اس کا غصہ کیکر کی ٹاویں ٹاویں چھاؤں کو روندتا ہوا ہمارے رخ ِ انور پر چنگی بھلی ٹکور کرتا تب اماں حضور ہمارے چہرے کو حالت نیند کے اندر ہی ایک گلاس پانی کے چھینٹوں سے دھو ڈالتیں تو ہم پاک سر زمین شاد باد کا ورد کرتے ہوۓ گھر میں موجودکسی بھی گیلے تولیے یا کپڑے سے منہ چمکا کر سرسوں کے تیل کی ایک پتلی سی مناسب تہہ جما کر روٹی لسی اور اچار بنام ناشتہ چلتے پھرتے کتابیں سنبھالتے ہوۓ ہی ڈکار لیتے اور اپنا بھاری بھر کم بستہ اٹھاۓ اسکول کی راہ لیتے۔پھر جب عقل و شعور میں سیر کی غرض و غایت اور فوائد کے عقدے کھلے تو اسے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد تک ملتوی کر دیاکہ یہ پہاڑ جیسی ذمہ داری اس وقت سر لیں گے جب ہم مکمل فراغت میں ہوں گے اور کہیں اور سینگ نہیں پھنسے ہوں گے۔ پھر جب بالغ ہوۓ، ذمہ داریاں بڑھیں ،غم روزگار اور غم جاناں کے چکر میں مصروفیات بھی بڑھیں تو یہ سارے جذبے ماند پڑ گئے بلکہ فریز ہی ہو گئے۔البتہ کبھی کبھار موقع مل بھی جایا کرتا۔ اور جس دن ہماری چڑھتے سورج کے ساتھ جبیں سائی اور ہیلو ہاۓہو جاتی تو بچپن کے لکھے ہوۓاس جھوٹ کے پلندے پر سچ کا گمان ہوتا۔اور جس دن ایک آدھ کلو میٹر کی واک اور تھوڑی سی ورزش ہو جاتی اس دن من میں جھارے پہلوان والی فیلنگز آ جاتیں۔
وقت چیل کے پر لگا کر اڑ گیا ، یوں سالوں پہ سال گزرے اور ہم عجیب حال سے گزرے۔ پیٹ اور ویٹ بڑھتا گیا۔ اس فیٹ میں گو کہ سارا چکر پلیٹ کا تھا اور اب ہم وہ دکھنے لگے جس کا کبھی سوچا بھی نہ تھا البتہ جنگ اخبار میں اس نوعیت کے کارٹون ہی دیکھے تھے۔۔ زندگی میں ایک ایسا موڑ آ چکا تھا جس میں دوستوں کے بجاۓ ڈاکٹروں اور حکیموں سے یارانے اور دوستانے کچھ زیادہ ہی ہو گئے تھے۔ نوکری ،پیشہ، مصروفیت اور اپنے سر کے بالوں کی طرف سے فارغ البال ہو چکے تھے۔ ایسے میں کسی نے صبح کی سیر اور ہلکی پھلکی ورزش اور چہل قدمی کا مشورہ دے ڈالا۔اور دبے دبے الفاظ میں کہ ڈالا کہ میاں محلے کے بچوں کو نہ ڈرایا جاۓ۔
چونکہ مشورہ مفت اور مناسب بھی تھا اور اس کے لیئے وقت بھی موزوں تھا۔ موبائل پر سوشل میڈیا اور نیند سےبچ جانے والے وقت کا بھر پور مصرف۔ پر مسئلہ ایک ہی تھا۔ فیس بک اور واٹس ایپ کے سارے دوستان کو سلاتے سلاتے رات کے دو بج جاتے چونکہ آخری نمبر ہمارا ہوا کرتا تھا۔ ہر چند ہم نماز صبح کے لیئے الارم لگانا کبھی نہ بھولے تھے۔ یہ الارم ہمیشہ سورج کے ہماری راجدھانی میں آنے سے پندرہ بیس منٹ قبل ہی بجتا تھا۔پر آپ بھی جانتے ہیں کہ نیند کے اصل نیوکلیس سے مستفید ہونے کا وقت تو الارم بچنے کے بعد ہی ہوتا ہے جب آنکھ کی کرواہٹ اور گلابی پن اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ جسےہم نماز کے فوراً بعدہی درک کرتے۔ یوں دوبارہ آنکھ اور روشنی کا ملاپ ہونے میں دس بج ہی جاتے نتیجہ یہ کہ ہم نے مارننگ واک کو ایوننگ واک بلکہ مارچ میں بدلا ہوا تھا ۔ اوراسی دوران گھر کی جملہ ضروریات جن میں آلو، گوبھی، پیاز، دودھ، دہی انڈے، ٹماٹر اور دیگر متفرقات کی ترسیل کو بھی یقینی بنایا جاتا۔
اب اس نئے مشورہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے مصمم اور مستحکم ارادہ کے ساتھ صبح سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ قبل کا ریپیٹ الارم اپنے دو عدد موبائیلوں پر لگا کر مکمل نیت اور یکسوئی کے ساتھ یقینی بنایا۔ اللہ توبہ کے بعد بوٹ کسے ویمبلے کےٹریک سوٹ میں ملبوس خالی پیٹ اس ارادہ سے گھر سے باہر قدم رکھا کہ یہ عمل اب روزانہ اور بلا ناغہ ہو گا اور جب تک موجودہ جسامت تیس پنتیس سال والی سابقہ حالت پر اور وزن کا ہندسہ85 سے 58 میں نہیں بدلتا، یہ پروگرام جاری اور ساری رہے گا اور ان شاء اللہ ایک دن تبدیلی آ کر رہے گی۔ اللہ اللہ کر کے خوشاب روڈ سٹی سٹاپ سے سرگودھا نہر کا پل اور پھر نہر کے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ کھیتوں کو دیکھتے سلانوالی روڈ سے نوری گیٹ اور واپس سٹی سٹاپ کا روٹ منتخب کیا جو میرے حساب میں 5 سے 6 کلومیٹر تھا اور پہلے دن کے لیئے کافی و شافی تھا۔ جھال چکیاں ہوئل کا عملہ اپنی برق رفتاری اور مستعدی سے صبح کے ناشتہ کے بندوبست میں مگن تھا۔ ان کے ناشتے کی تعریف سن چکا تھا۔ پراٹھے اور انڈے کی خوشبو بچپن کے اس مضمون میں لکھی باد صبا کی خوشبو پر حاوی ہونے لگی۔ جھال چکیاں کے اس ماحول نے تو جیسے جھلا کر دیا۔دماغ کے کسی کونے میں یہ پیغام بھی آیا کہ شوگر کا مریض اگر پہلے دن ہی چھ کلو میٹر کی واک کرے گا تو شوگر لیول کم ہونے کی وجہ سے نیم بےہوشی ، کمزوری اور خدا نخواستہ جان بھی جا سکتی ہے ابھی تو بڑی دنیا دیکھنی ہے اور بڑے معرکے کرنے ہیں ۔لٰہذا ایک تگڑا اور روائتی ناشتہ کرنے کے بعد ہی اس مہم کو سر کیا جاوے۔سارے معاملات تقدیر کے سپرد کر کے دو پراٹھے ، ایک فرائی انڈا ،ایک میڈیم پلیٹ چنے، ایک گلاس مکھن ڈلی والی لسی اور اوپر ایک گرما گرم سٹرانگ چاۓ کا آرڈر دیتے ہوۓ انور مسعود کی " چاہ تے لسی" والا مکالمہ ذہن میں تھا اس لیئے دونوں کو برابر رکھا۔
ناشتے کے بعد واک شروع ہو گئی ۔اگلا پڑاؤ نہر والا پل تھا جہاں پر گرم ریت میں دبے ہوۓ مکئی کے بھٹے صبح سویرے اپنی مخصوص خوشبو سے شائقین کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے ساتھ میگا فون پر گانا چل رہا تھا " کھا لے بھایا کھا لے چھلی بڑی مزیدار اے ۔لے دے اپنیاں بالاں نوں جے بالاں نال پیار اے "۔اب نور پیر کے ویلے ہی کفران نعمت کرنا مجھے تو گناہ کبیرہ لگا ۔ اس طرح تو اللہ کی نعمیتں روٹھ جاتی ہیں۔ دو عدد بھٹے لیئے اور دونوں کو ٹریک سوٹ کی جیب میں پناہ دی کہ گرم رہیں۔ نہر کے کنارے چہل قدمی صبح کی تازہ ہوا اور ساتھ میں گرما گرم مکئی کی چھلیاں کھانے یا چبانے سے لطف دوبالا ہو گیا۔ کوئی بیس بائیس منٹ چلنے کے بعد سڑک کی دوسری طرف سبزیوں کے کھیتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ کھیتوں کے کنارے جابجا پالک، میتھی ،پھول اور بند گوبھی، ساگ اور مولیوں کے بنڈل پڑے عجیب دعوت نظارا دے رہے تھے جن کو شاید سبزی منڈی لے جایا جا رہا تھا۔ ایک طرف ساری سبز پتوں والی سبزیاں اور اس کے کنارے قرینے سے جڑی مولیاں پرچم پاکستان کا نظارہ پیش کررہی تھیں۔ سفید چمکتی اور دھلی ہوئی مولیاں اپنی پوری آب و تاب اور چمک دمک کے ساتھ نگاہوں کو خیرا کر رہی تھیں۔ جن کو دیکھتے ہی یکے بعد دیگرے حکیموں کے ٹوٹکے اور طب کی دنیا میں مولیوں کے فوائد ایک ایک کر کے ذہن پر دستک دینے لگے۔
کتنا بد بخت ہو وہ شخص جس نے پیٹ بھر کر ناشتہ میں پراٹھے، دیگی چنے اور اوپر سے بھنے ہوۓ بھٹے بھی کھائے ہوں اور ان کی ہاضمے کی کوئی تدبیر نہ کی ہو۔ شہر سے دور اس جنگل بیاباں میں اگرپیٹ میں مروڑ پڑ جائیں تو بندہ کدھر جاۓ۔ اس وقت تو ہسپتال بند اور ڈاکٹر بھی سوۓ ہوۓ تھے۔ قسمت اچھی ہے جو ہر قسم کے ہاضمے کی درستی کے لیئے تازہ مولیاں بر لب کھیت دستیاب ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا ضروری تھا۔ اس بار دل و دماغ کا ووٹ بھی یہی تھا۔ چنانچہ جب تیس روپے دینے ہی تھے تو کیوں نہ مناسب قد کاٹھ کی مولی کا انتخاب کیا جاۓ جو کھانے میں زیادہ کڑوی بھی نہ لگے۔ مولی کے ساتھ اس کے دوچار پتے بھی کھاۓ جن کے ذمہ خود مولی کو ہضم کرنا تھا۔ صحت سے جڑے ان مسائل کو حل کرنے کے بعد پھر بے فکری سے چل پڑا۔ سلانوالی روذ پر ہلال احمر ہسپتال کے بالکل سامنے سلانوالی کی مشہور سوغات مکئی کی روٹیوں اور ساگ والی ریڑھی پر ایسے رش تھا جیسے مفت میں بٹ رہی ہوں۔اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ خالص دیسی ماحول میں چٹائی پر بیٹھ کر مٹی کے پیالے میں خالص گھر کا تیار کیا ہوا سرسوں کاساگ اور کھجی کی بنی چنگیر نما چھابے میں صبح سویرے پیلی مکئی کی روٹی جو کہ فقط ایک سو روپیہ میں دستیاب ہو۔اور بندہ اس وجہ سے محروم رہ جاۓ کہ آدھ پون گھنٹہ پہلے کیا ہوا ناشتہ جو کہ مولی کے فیص اور 3 کلو میٹر واک کی بدولت ہضم ہونے والا ہو اس سوغات کو ٹھکرانا کتنا غیر مناسب ہےجبکہ یہ سوغات کم کم ہی دستیاب ہو
بھلاکہاں کی عقلمندی ہے۔
اس ساگ مکئی اور اسلام آباد کے لوک ورثہ میں ملنے والی مہنگی ڈش میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کہا راجا بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔آج تو قسمت کچھ زیادہ ہی مہربان تھی جو یہ مزیدار بھوجن ملا۔ مزید ایک کلو میٹر چلنے پر نوری گیٹ کہ جہاں اب سورج اپنا ہلکا ہلکا نور برسا رہا تھا اور پورا ماحول صبح کی زرد کرنوں سے روشن تھا جس سے ریڑھیوں پر سلیقے سے سجے کیلے کچھ اور ہی خوشنما ہو گئے تھے۔ یہاں یہ فائدہ تھا کہ فریش فروٹ کا جوس بھی اپنی خالص ، اصل حالت اور ذائقے میں دستیاب تھا۔ ابھی تک سواۓ چاہ لسی کےکوئی اور لیکویڈ نہیں لیا تھا۔ مسلسل واک کی وجہ سے چند بوند پسینہ بھی نکل چکا تھا۔ چنانچہ پانی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیئے ایک گلاس قندھاری اناروں کا جوس انتہائی مناسب تھا کہ جس کے پینے پر گالوں اور ہونٹوں پر سرخی آ جاتی ہے اور دل کو تقویت ملتی ہے۔ البتہ اس کی خفیف سی ترشی دور کرنے کی غرض سےچلتے چلتے چھ عدد کیلے کھانے سے منہ کا ذائقہ درست اوردہن معطر ہو گیا۔ آپ کے علم میں ہو گا اس سے فاسفورس اور کیلشیم کی کمی بھی پوری ہوتی ہے۔ اگلے دس منٹ بھی ہی دوبارہ 1 گھنٹہ 12 منٹ کی واک کے بعد یہ 5 کلو میٹر کا سفر نتہائی خوش اسلوبی سے مکمل ہو چکا تھا۔جہاں سیر کے ساتھ سیر ہونے کا بھی خوب خوب موقع ملا۔ اب ہلکی پھلکی تھکاوٹ کے ساتھ گھر پر ناشتے کا انتظار بھی ہو رہا تھا چونکہ بار بار فون بج رہا تھا۔ سو گھر جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اور ہاں دلچسپ بات کہ اس سیر کی روداد سناتے ہوۓموصوف نے فقط ایک کپ چاۓ، نصف روٹی باجرہ ،دو کیلے اور چار املوک پر ہی اکتفا کیا اور یوں یہ روداد اپنے انجام تک پہنچی۔ |