پاکستان کے سابق چیف سلیکٹرز انضمام الحق اور بابر نے ورلڈکپ میں جس طرح کی ٹیم سلیکٹ کی اس کے رزلٹ تو اس طرح کے ہی آنے تھے. اور بورڈ کے چیف کی خاموشی نے یہ ہی ظاہر کیا کہ وہ بس نمائشی چیف ہیں اُنہیں بس اپنے مہینہ کا میٹر کا چلتا رے اور بورڈ کے دوسرے لوازمات سےاپنا فائدہ جو اُٹھانا ہے وہ میں سمیٹوں جب تک اس عہدے ہر ڈمی لوگوں کو لایا جائیگا پاکستان کرکٹ کا حال بھی ایک دن ہاکی کی طرح نہ ہوجائے. ان سلیکٹروں اور کپتان کو یہ نہیں معلوم کہ آج کل کی دنیائے کرکٹ کے ایک روزہ میچ میں جب تک نئے گیند پر پہلے پاور پلے کا فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا، تب تک انٹرنیشنل سطح کی کرکٹ کا مقابلہ ایک خام خیالی ہی رہے گی۔ جو کام بیٹنگ سائیڈ کو پہلے تیس اوورز میں کر گزرنا چاہیے، وہ کام ہمیشہ آخری بیس اوورز پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور رہی سہی کسر پاکستان کے بولرز جب نئی گیند پر آپ آؤٹ نہیں کریں گے تو مہنگے سے مہنگے باؤلر بنتے جائیں گے اور حارث رؤف کی طرح ریکارڈ قائم کیے جائینگے. یہ پاکستان کا کیا دنیائے کرکٹ کو جو بھی سمجھتا اور دیکھتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے بس جو جانتے نہیں وہ ہمارے نام نہاد سلیکٹرز و کپتان . پاکستان میں کرکٹ کے شائقین یہ سب جانتے ہیں کہ پلینگ الیون میں سلمان علی آغا کا کردار ایک آل راونڈر کا تو بالکل نہیں ہے کیونکہ جس میچ میں انہیں کھلایا گیا وہاں کپتان نے ان سے صرف دو اوورز کروائے کیا دنیا میں کوئی ایسا آل راونڈر ہے جو ضرورت کے وقت بھی صرف دو اوورز ہی کروائے۔ کیا ایسی سلیکشن کی حمایت کرنے اور اس پر قائم رہنے کے بعد آپ انٹرنیشنل کرکٹ میں دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کپتان بابر اعظم کو دینا چاہیے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب مکی آرتھر اور اس کے کوچنگ اسٹاف کو بھی دینا چاہیے، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق کو بھی دینا چاہیے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اپنے مسائل ہیں ذکا اشرف کو ہاتھ باندھ کر بٹھا دیا گیا ہے وہ کوئی اہم فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے حکومت نے انہیں تین ماہ کی توسیع تو دی ہے لیکن فیصلوں کا اختیار نہیں دیا کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ توسیع دینے والوں کو ذکا اشرف کی صلاحیت، قابلیت، ذہانت، فیصلہ سازی اور ایمانداری پر شک ہے اگر ایسا ہے تو پھر کیوں انہیں توسیع دی گئی ہے۔ پاکستان نے آئندہ برس ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کھیلنا ہے، پاکستان کرکٹ بورد نے اربوں روپے کے اہم معاہدے کرنے ہیں، عالمی کپ کے بعد ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کے حوالے سے سخت فیصلوں کی ضرورت پیش آئے گی اور اگر ذکا اشرف کوئی فیصلہ ہی نہیں کر سکتے تو پھر ان کا اس عہدے پر رہنے کا کیا جواز ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ان حالات میں ذکا اشرف کو توسیع دینے کے بجائے انہیں گھر بھیجا جائے۔ پاکستان کرکٹ کو پہلے ہی کافی نقصان ہو چکا ہے اور موجودہ حالات میں ایسی کمزور فیصلہ سازی سے ملک کے مقبول ترین کھیل کو بڑے نقصان کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس وقت تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سے بھی بری پرفارمنس پاکستان کرکٹ بورڈ کی ہے. سب سے پہلے کرکٹ بورڈ کو ٹھیک ہونا چاہیے جو عجیب و غریب فیصلے کررہے ہیں، آپ ایسے لوگوں کو کرکٹ بورڈ کا چارج نہیں دے سکتے۔جب تک چئیرمین کا انتیخاب کرکٹ کے علاقائی منتظمین کے بجائے کھیل سے یکسر نابلد لوگ کرتے رہیں گے, تب تک یہی کرب پاکستان کا مقدر رہے گا. اس وقت ٹیم مینجمنٹ میں ایسے لوگوں کو شامل کرنا چاہیے جنہیں کرکٹ کی سمجھ بوجھ ہو اور جب ایسا ہو جائے گا تو چاہے پھر کپتان کسی کو بھی بنایا جائے چیزیں خود بخود حل ہو جائیں گی اورکپتانی کا معاملہ ہی ختم ہو جائے گا کہ کوئی کھلاڑی یہ سوچے کہ میں کپتان ہوں کیونکہ اسی معاملے پر مسائل پیدا ہوتے ہیں. جب تک کرکٹ کے ساتھ عشق اور جذبہ نہیں ہے، پاکستان کرکٹ کی ایک انچ ٹھیک نہیں ہوسکتی.
|