ہم جس راستے پر چل رہے ہیں یہ انسانوں کا بنایا ہوا ہے یا یہ
راستہ کسی گدھے نے دریافت کیا ہے کہ اتنا طویل ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے
رہا اور ہم اپنی منزل تک پہنچ ہی نہیں پا رہے ۔ اس تناظر میں ایک کہانی دوستوں کی
نذر۔
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ایک گاؤں شہر سے کافی دور تھا جہاں کوئی باہر سے کم ہی
جاتا تھا اس گاؤں اور شہر کے درمیان ایک گھنا جنگل تھا اج تک کوئی بھی اس جنگل کو
عبور کر کے شہر نہیں گیا تھا ایک دن اس گاؤں کا ایک گدھا اس جنگل میں چلا گیا اور
اس نے سوچا کہ کیوں نہ جنگل کے پار جا کر دیکھوں اس طرف کیا ہے جنگل بہت گھنا تھا
اور گدھا بہت بے وقوف تھا وہ کسی بھی سمت چلنا شروع کر دیتا اور مسلسل چلتا رہتا
خوش قسمتی سے وہ ادھر ادھر بھٹکتا ہوا جنگل پار کر گیا اور شہر پہنچ گیا پورے گاؤں
میں خبر پھیل گئی کہ گدھا شہر پہنچ گیا ہے سب لوگ گدھے کو بہت خوش قسمت سمجھ رہے
تھے کیونکہ وہ شہر پہنچ گیا تھا کتوں کا ایک گروہ لوگوں کی یہ باتیں سن رہا تھا
لہذا کتوں کے اس گروہ نے بھی جنگل پار کر کے شہر جانے کا فیصلہ کر لیا۔
چونکہ کتوں کے سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے وہ گدھے کی خوشبو سونگھتے ہوئے اور اس
کے راستے پر چل کر شہر پہنچ گئے پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا گاؤں کے کئی دوسرے جانور
بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے شہر پہنچنے لگے اس راستے پر بار بار چلنے سے ایک پگڈنڈی
بنتی گئی اور کچھ عرصے بعد انسان بھی اسی راستے پر چل کر جنگل عبور کرنے لگے۔
وقت گزرتا گیا اورآہستہ آہستہ گاوں کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہو گیا اور حکومت نے
شہر تک جانے کے لیے گاؤں میں سڑک بنانے کا فیصلہ کر لیا شہر سے انجینیئرز کی ایک
ٹیم ائی اور انہوں نے سڑک بنانے کے لیے علاقے کا جائزہ لینا شروع کر دیا انجینیئرز
کو بتایا گیا کہ شہر تک جانے کے لیے پہلے ہی ایک فٹ پاتھ موجود ہے اس پر سڑک بنا دی
جائے تو اچھا ہوگا یہ سن کر چیف انجینیئر مسکرایا اور بولا کیا میں جان سکتا ہوں یہ
پگڈنڈی کس نے بنائی ہے گاؤں کے سربراہ نے کہا جہاں تک میں جانتا ہوں یہ راستہ ایک
گدھے نے دریافت کیا ہے اور پھر اس نے سارا ماجرا چیف انجینیئر کو سنایا چیف انجنیر
نے واقعہ سن کر کہا مجھے آپ کی بات سن کر بالکل حیرانگی نہیں ہوئی کہ یہ راستہ گدھے
نے بنایا ہے کیونکہ یہ راستہ شہر تک پہنچنے کے لیے سب سے طویل اور مشکل ترین ہے۔
اور میں حیران ہوں کہ تم انسان ہو کر گدھے کے راستے پر مدتوں سے چل رہے ہو اور خود
سے راستہ تلاش کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہم نے ایک راستہ ڈھونڈ لیا ہے وہ مختصر
اور آسان ترین ہے اور آپ وہ راستہ استعمال کر کے بہت کم وقت میں شہر پہنچ جائیں گے
اب گاؤں کے لوگ پچھتا رہے تھے کہ خود سے راستہ تلاش کرتے تو مدتوں اس مشکل راستے پر
نہ چلتے اور ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے اب بھی اکثریت گدھوں کے
بنائے ہوئے راستے پر چل رہی ہے خود سے تحقیق کر کے صحیح راستے کا انتخاب نہیں کرتی۔
|