خطابت ایک فن ہے اور اس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ اس کے ذریعے آپ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرسکتے ہیں۔ دوسروں کے دلوں میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ جہاں اپنی گفتگو کے ذریعے پختہ دلائل دے کر اپنا موقف منوا سکتے ہیں وہیں کمزور و خستہ دلائل سے اپنا ہی مقدمہ کمزور کرسکتے ہیں۔ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کسی قبیلے کے خطیب کا بڑا مقام ہوتا تھا۔
اپنے قبیلے کے رجحانات اور میلانات کو خاص سمت دینا خطیب پر منحصر ہوتا تھا۔ دوسرے قبیلے کے بارے میں ہجو کر کے جذبات کو گرمانا یا مدح کر کے خیر سگالی کا پیغام دینا خطباء پر منحصر ہوتا تھا۔ اپنی قوم کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنے یا رزائل کی گرداب میں دھکیلنے میں خطباء کا بڑا کردار ہوتا تھا۔خطیب کی زبان سے دانش و حکمت آمیز اقوال سن کر کئی لوگ زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھتے تو کئی لوگ واہیات اور بازاری جملے سیکھ کر اپنے اخلاق کو بدبودار بنا لیتے۔ کچھ خطیب ایسے ہوتے کہ اپنے عمدہ انداز گفتگو، شیریں لسانی، خوش گفتاری، لہجے کے اتار چڑھاؤ، الفاظ کے عمدہ چناؤ، مقتضی حال کی رعایت کے سبب سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے تو کچھ ایسے بھی ہوتے جن کے الفاظ اتنے بے اثر ہوتے کہ منہ سے نکل کر ہوا میں تحلیل ہو جاتے اور سامع پر چنداں اثر نہ ہوتا۔
اہل مذہب،اہل علم، اہل سیاست الغرض مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ خطابت کو اپنے افکار اور بیانیے کی ترویج میں استعمال کرتے ہیں۔ اسلام کی ترویج و اشاعت میں اس کا بڑا اہم کردار ہے۔ کتب سیرت و حدیث میں خطبات نبوی کو بڑے اہتمام سے محفوظ کیا گیا ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علی صاحبہا والتسلیم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ متعدد صحابہ کرام خطابت میں مشہور تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ترویج اسلام کے لیے سب سے پہلے خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اس موقع پر آپ کو دشمن کی طرف سے شدید مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ خلفائے راشدین اپنے وقت کے بہترین خطیب بھی تھے۔ خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی خطبہ ارشاد فرماتے جس میں تقوی، اطاعت الہی، اطاعت رسول، اطاعت امیر کا ذکر کرتے ساتھ ہی اپنی سیاسی، سماجی، معاشرتی و عسکری ترجیحات کا اظہار کرتے۔ نیز اپنی رعایا کی اصلاح و تربیت اور مہمات کی تیاری کے لیے بھی خطابت کا سہارا لیتے۔ خطابت کی اہمیت کے پیش نظر ہر اہم مناسبت پر خطبات شامل کیے گئے ہیں۔ نماز جمعہ، نماز عیدین، نکاح، حج وغیرہ کے مواقع پر خطبات کو شرعی طور پر اہمیت دی گئی ہے۔
الغرض ہر دور میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں بیان اور خطابت نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ عصر حاضر میں بھی اسلام کی تفہیم و اشاعت میں خطابت ایک اہم ذریعہ ہے۔ خطابت میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے کئی مہارتیں استعمال ہوتی ہیں۔ اگر ان مہارتوں کو بروقت اور عمدہ طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس کی اثر آفرینی بڑھ جاتی ہے اور یہ خیالات و افکار کے ابلاغ میں اہم ہتھیار کے طور پر کام آتی ہے۔
خطابت کو مؤثر بنانے کے لیے خطباء کو محنت کی ضرورت ہے۔ اپنی گفتگو میں مقتضی حال کی رعایت کریں۔ سامعین کی علمی سطح کے مطابق گفتگو کریں۔ انکی ضرورت کو مد نظر رکھیں۔ الفاظ کے چناؤ اور لہجے کے اتار چڑھاؤ میں موقع محل کی رعایت کریں۔ گفتگو میں ربط کو قائم رکھیں۔ ترجیحات کا تعین کریں۔ جوش پر ہوش کو غالب رکھیں۔ بامقصد گفتگو کریں۔ اختصار اور جامعیت سے کام لیں۔ گفتگو کی مقدار کی بجائے معیار کو ترجیح دیں اپنے دعوی کو عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کریں۔ نیز دلائل کی پختگی بھی نہایت ضروری ہے۔ کمزور دلائل اور جوش سے پر گفتگو پڑھے لکھے اور لاجک پر یقین رکھنے والے طبقہ کو مذہب سے بیزار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
خطبہ کی تیاری اس انداز سے کریں کہ بعد میں اسکا دفاع کر سکیں۔ اپنی گفتگو کو حالات حاضرہ سے جوڑ کر با مقصد بنائیں۔اگر ان امور پر توجہ دی جائے تو امید ہے کہ خطابت جیسے اہم فن کو ترویج اسلام میں ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
|