آ ج جب میں بازار سے سودا لینے نکلی تو معمول کے مطابق ہشاش بشاش
تھی لیکن افسوس واپسی پر صورتحال مختلف تھی ۔دادی اور میں جو امی کی وفات کے بعد
ایک دوسرے کے اور بھی قریب ہو گئے تھے انہوں نے اس صورتحال کو جلد ہی بھانپ لیا ۔
کیا بات ہے ایسا بھی کیا دیکھ آ ئیں بازار میں جو ذہن سے نکل ہی نہیں رہا
دادی کیا بتاؤں کوئی چیز نہیں اک چہرہ ہے جو ذہن کے پردے سے ہٹ نہیں رہا
ائے کونسا چہرہ ہے کسی بچے کا ہی ہوگا آ خر اک حساس استاد جو ٹھریں
صحیح پہنچیں آ پ آ خر دو حساس استادوں کی ماں جو ٹھریں اک میری اک میرے بھی ابو کی
صرف ماں ہی نہیں بلکہ بیٹی بھی اک استاد کی ہوں ایک روشن اور باضمیر استاد
چلیے یوں تو استادی ہمارا نسلی پیشہ ہوگیا
بیٹا استادی پیشہ سے زیادہ اک فریضہ ہے ہر اک اس منصب کا اہل نہیں ہے ۔لو باتوں
باتوں میں چہرہ کا تذکرہ رہ گیا کس کے چہرے کا ذکر کر رہیں تھیں تم
ارے ہاں دادی فراست یاد ہے آ پکو ہمارے محلے کا بچہ جو تقریباً ڈیڑھ دو سال پہلے
مجھ سے پڑھائی میں مدد لینے ہمارے گھر آیا کرتا تھا
ہاں ہاں یاد ہے مجھے گول مٹول پیارا سا چہرہ تھا لگ بھگ دس گیارہ سال کا پانچویں یا
چھٹی جماعت میں تھا غالباً اسوقت
بالکل وہی آ ج اسکے چہرے پر نظر پڑی تو لگا بہت کچھ بدل گیا ہے اسکے چہرے کی وحشت
عجیب سی تھی مخبوط الحواس لگ رہا تھا بالکل
یہ زندگی ہے بیٹا بدلتی رہتی ہے یہی اسکا حسن اور یہی اسکا غم ہے تمہارے باوا سے
کہتی ہوں معلوم کریں کیا معاملہ ہے آ خر محلے داری ہے خیر خبر تو رکھنی چاہیے
رات کھانے پر ابو کے سامنے ذکر ہوا انکی سارے دن کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں کہنے
لگے فراست کا والد نماز میں اکثر ملتا ہے اسی سے معلوم کروں گا کہ کیا معاملہ ہے۔دو
تین دن بعد ابو نے بتایا کہ اس بچے کا والد بتا رہا ہے کہ بچے کو اثرات ہیں آ سیب
ہے یا کوئی جن۔ بہت طاقتور اثرات ہیں دم درود کروارہے ہیں ۔ابو بتانے لگے کہ کچھ
عجیب سا رویہ تھا اسکا جان چھڑانے والا محلے میں بھی کسی سے زیادہ میل جول نہیں ہے
اس گھرانے کا کوشش کرتا ہوں کہ بچے سے خود بات کروں پھر دیکھتے ہیں کہ کیا معاملہ
ہے ۔
یہ تفصیل سن کر میں بے چین سی ہوگئی دادی کا ردعمل جانچا تو وہ کچھ خاموش سی ہوگئی
تھیں میں نے سوال کیا
کیا آ ج کے دور میں بھی جن انسان پر حاوی ہوتے ہیں یہ توجیہ آ ج بھی کام آ تی ہے
کیا
معلوم نہیں ،میری توجیہ تو یہ ہے کہ جن بھوت ہمارے اردگرد ہی نہیں ہمارے اندر بھی
رہتے بستے ہیں جب چاہے انہیں طاقت دےدو جب چاہے لے لو آ ج کے دور کے مطابق میں کم
علم ہوں مگر بیٹا جانتی ہوں کہ جن مسلمان بھی ہوتے ہیں اور کافر بھی اور کچھ کافر
اسلام بھی لے آ تے ہیں بیٹا انسان کے اختیار میں سب کچھ نہ سہی بہت کچھ ہے۔
ادھر ابو کو پہلی کوشش میں ناکامی کا سامنا ہوا ابو نے فراست کے والد سے کہا کہ وہ
بھی دم درود کرتے ہیں اور جن اتارنے کا مجرب وظیفہ بھی ہے انکے پاس مگر اسکا والد
راضی نہیں ہوا کہنے لگا کہ جن آ نے پر بچہ بہت طاقتور ہو جاتا ہے خود کو بھی نقصان
پہنچاتا ہے اور آ پکو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے ہم اپنے طور پر دم درود کروارہے ہیں
۔
میری بے چینی اب پریشانی میں ڈھل گئی ۔اگلی بار ابو محلے کے ایک سمجھدار بزرگ کے
ساتھ گئے اب کی بار وہ صفا چٹ انکار نہ کرسکا اور یوں ابو کو فراست تک رسائی حاصل
ہوگئی ۔دو تین ملاقاتوں میں ابو نے فراست کو ذہن پر سکون رکھنے کی مشقیں کروائیں
اور خود وظیفہ پڑھنے میں مشغول رہے ۔زیادہ کچھ نہیں لیکن اک اطمینان تھا کہ ہم
فراست کے کچھ قریب آ گئے ہیں ۔اک دن فراست نے ہمت دکھائی اور موقع پا کر ہمارے گھر
آ گیا ہم چاروں، میں دادی ابو اور فراست دائرہ بنا کر بیٹھ گئے ایک دوسرے ہاتھ تھام
لئے جیسے بچے کھیل میں دائرہ بنا کر بیٹھتے ہیں ۔
پھر ابو نے پوچھا فراست آ پ کیا محسوس کرتے ہو جن تمہارے ساتھ کیا کرتا ہے وہ کچھ
دیر خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھا رہا پھر جیسے اچانک کوئی بٹن دب گیا ہو یا جیسے
جن چڑھ گیا ہو ہم تینوں دم سادھے بیٹھے رہے جب تھک ہار کے بیٹھا تو بولا وہ ابو ہیں
مجھے نشانہ بناتے ہیں امی کہتی ہیں خاموش رہو ہمارا کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے۔کچھ
دیر بعد ابو بولے،بیٹا مسئلہ کا حل مسئلہ پیدا کرنے والے کے پاس ہے اسے طاقت دینا
بند کردو وہ تمہاری زندگی میں صفر کی مانند ہوجائے گا ہیلپ لائن پر بات کرکے اپنی
شکایت درج کرائو جو لائحہ عمل وہ تمہیں بتاتے ہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو انشاء
اللہ اس مسئلے سے آ ہستہ آ ہستہ باہر نکل آئو گے اپنے بہترین مددگار تم خود ہی ہو۔
کچھ دیر کے بعد فراست کا باپ اسے ڈھونڈتا ہوا آ پہنچا ہمیں دائرہ میں بیٹھا دیکھ کر
کچھ حیران سا ہوگیا پھر سمجھا یہ کوئی وظیفہ ہو رہا ہے فراست کو لے کر چلا گیا اور
ہم تادیر ہاتھوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے رہے گویا اس واقعے کی بدصورتی سے خود کو نکھار
رہے ہوں یا یوں کہیے کہ بدصورتی سے خوبصورتی کو کشید کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ۔
|