ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق
موسمیاتی تبدیلی سے 2050 تک دنیا بھر میں مزید 14.5 ملین اموات اور 12.5 ٹریلین
ڈالر کے معاشی نقصانات کا خدشہ ہے۔ڈبلیو ای ایف کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا
گیا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم اور مشاورتی فرم اولیور وائیمین کی جانب سے مشترکہ طور
پر مرتب کی گئی یہ رپورٹ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل کی جانب سے
تیار کردہ منظرنامے پر مبنی ہے جو سیارے کے بڑھتے ہوئے اوسط درجہ حرارت پر مسلسل
نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ امر باعث تشویش ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کا تناسب صنعتی دور سے پہلے کی سطح
سے 2.5 سے 2.9 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی سے وابستہ چھ بڑے امور
کا تجزیہ کیا گیا ہے جن میں سیلاب، خشک سالی، گرمی کی لہریں، ٹراپیکل طوفان، جنگل
کی آگ اور سمندر کی سطح میں اضافہ ،شامل ہیں۔
تحقیق کے مطابق صرف سیلاب سے 2050 تک 85 لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں ، یوں سیلاب
کے باعث آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی اموات کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ خشک سالی کو،
آب و ہوا سے متعلق اموات کی دوسری بڑی وجہ کے طور پربیان کیا گیا ہے جس سے 3.2 ملین
افراد ہلاک ہو سکتے ہیں.اسی طرح گرمی کی لہروں کی وجہ سے 2050 تک سب سے زیادہ 7.1
ٹریلین ڈالر کا معاشی نقصان متوقع ہے۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ موسمیاتی بحران عالمی سطح پر صحت کی عدم مساوات کو
مزید بڑھائے گا اور کمزور طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ افریقہ اور جنوبی ایشیا
جیسے خطے اپنے محدود وسائل مثلاً بنیادی ڈھانچے اور ضروری طبی سازوسامان کی کمی کی
وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لئے خاص طور پر غیر محفوظ رہیں گے۔ڈبلیو ای ایف
نے اپنی رپورٹ میں عالمی اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا ہے کہ وہ کاربن اخراج کو کم کرنے
اور موسمیاتی تبدیلی کے صحت پر منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے فیصلہ کن اور تزویراتی
اقدامات کریں۔
ماہرین کے نزدیک حالیہ پیش رفت اس وقت تک موئثر ثابت نہیں ہو گی جب تک کاربن اخراج
میں کمی اور تخفیف کے اہم اقدامات کو بہتر نہیں بنایا جاتا اور آب و ہوا کے لچکدار
اور قابل قبول صحت کے نظام کی تعمیر کے لیے فیصلہ کن عالمی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
دوسری جانب، چین عالمی موسمیاتی نظم و نسق کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا
ہے۔چین نے ایک کامیاب "کاپ 28" کو فروغ دینے اور پیرس معاہدے کے جامع اور موثر نفاذ
کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھا ہے۔
ایک ذمہ دار ترقی پذیر ملک کے طور پر، چین نے پائیدار ترقی کے حصول میں ماحولیاتی
مسائل بالخصوص موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے میں فعال کردار کیا ہے اور عالمی
آب و ہوا کی حکمرانی میں اپنی حکمت اور طاقت کا حصہ ڈالا ہے۔
چین اس وقت بھی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی پر عمل پیرا
ہے، کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل کے اہداف کا اعلان کیا گیا ہے، اور پالیسی فریم ورک
قائم کیا ہے۔ملک نے صنعت، توانائی، اور نقل و حمل کی ساختی ایڈجسٹمنٹ کو فروغ دیا
ہے، توانائی کی بچت اور کارکردگی کو بہتر بنانے والے اقدامات کو اپنایا ہے، مارکیٹ
ضابطہ تشکیل دیا ہے اور جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔اس ضمن میں چین تخفیف اور
موافقت کو یکساں بنیادوں پر اہمیت دے رہا ہے ، جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں
مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ ہے۔
چین موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جنوب جنوب تعاون میں سرگرم عمل رہا ہے اور ایک بڑے
ملک کی حیثیت سے نمایاں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے
کثیرالجہتی عمل میں فعال طور پر حصہ لیا ہے۔
ستمبر 2023 تک، چین نے درجنوں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے
جنوب جنوب تعاون پر 48 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ملک نے چار کم کاربن
ڈیمونسٹریشن زونز کی تعمیر میں تعاون کیا ہے اور موسمیاتی تبدیلی پر تخفیف اور
موافقت سے متعلق 75 منصوبوں کو نافذ کیا ہے۔
مزید برآں، چین نے 120 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے شعبے
میں 2300 سے زیادہ حکام اور تکنیکی عملے کو تربیت دی ہے۔ان کوششوں نے عالمی
موسمیاتی حکمرانی پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد کی ہے اور دنیا بھر میں موسمیاتی
تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اعتماد کو بڑھایا ہے۔
|