Column Taraqi ka safar e makoos by Prof Riffat Mazhar.
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ترقی کا سفرِ معکوس (پروفیسررفعت مظہر)
لاکھوں جانوں اور سینکڑوں عصمتوں کی قربانی دے کر زمین کا یہ ٹکڑا رِبِ لم یزل سے اِس عہد کے ساتھ حاصل کیاگیا کہ ہم اِسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ جب تک ہم اِس عہد پر قائم رہے تائیدونصرتِ ربی بھی ہمارے ساتھ رہی اور ہم ترقی کی منازل طے کرتے رہے۔ یہ ساٹھ کی دہائی کا وہ دَور تھا جب جنوبی کوریا جیسے ترقی پذیر ملک نے اپناوفد یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجا کہ پاکستان ترقی کے سفر پر بگٹٹ کیسے ہے۔ آج وہی جنوبی کوریا ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل اور ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر۔ صورتِ حال یہ کہ ہمارے ریلوے اور سٹیل مل جیسے منافع بخش ادارے شدید خسارے میں اور پی آئی اے بسترِ مرگ پر۔ یوں تویہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ یہ سب کچھ مارشل لاؤں کا کیا دھرا ہے۔ تلخ حقیقت مگر یہ کہ صرف آمریتوں ہی نے نہیں، جمہوری آمریتوں نے بھی اِس بربادی میں حصہ بقدرِ جُثہ ڈالا۔
ہمارے خیال میں ترقیئ معکوس کا سفر اُس وقت شروع ہواجب ستّر کی دہائی میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رَہنماؤں نے صنعتی اور تجارتی منافع بخش منصوبے قومی ملکیت میں لینے کے لیے ذوالفقارعلی بھٹو پر دباؤ ڈالا۔ پھر ایک دن جب ہم سوکر اُٹھے تو پتہ چلا کہ ارضِ وطن کی ہرشے قومی ملکیت میں لے لی گئی ہے جس میں تمام کارخانے، فیکٹریاں، تعلیمی ادارے، بینکس، کارپوریشنز، حتیٰ کہ چاول چھڑنے کی چھوٹی چھوٹی چکیاں تک شامل تھیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ طُرفہ تماشہ دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے پرائمری سکولوں کے مالکان نے ریکارڈ میں گَڑبڑ کرکے اپنے آپ کو 18ویں اور 19ویں گریڈز کا پرنسیپل بنا لیا۔ ”کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا“ کے مصداق پیپلزپارٹی کے سوشلسٹ بزرجمہروں نے سویت یونین اور چین جیسی سوشلسٹ حکومتوں کی پیروی میں یہ سب کچھ بھٹو سے کروایا۔ باوجود اِس کے کہ قومیائی گئی یہ پالیسی بُری طرح ناکام ہوئی اور ہم ”ڈی نیشنلائیزیشن“ کی طرف پلٹ گئے لیکن ا ملک سنبھل نہ سکااور آج یہ حالت کہ ہر شے رُو بہ زوال۔
وہ پی آئی اے جس کا نعرہ ”باکمال لوگ، لاجواب سروس“ تھاآج ایڑیاں رگڑ رہی ہے۔ یہ وہی سروس ہے جس نے 1960ء میں ایئرمارشل نورخاں کی قیادت میں بوئنگ 707 خریدا اور یہ جِٹ طیارہ استعمال کرنے والی ایشیاء کی پہلی ایئرلائن قرار پائی۔ یہی وہ ایئرلائن ہے جس کی کراچی کی تربیت گاہ میں سنگاپور، ایمرٹس، مالٹا اور جارڈینین ایئرلائنز کے پائلٹس تربیت حاصل کرنے آیا کرتے تھے۔ یہ PIA ہی تھی جو اپنے عروج کے زمانے میں اپنے طیارے غیرملکی فضائی کمپنیوں کو لیزپر دیا کرتی تھی۔ یہ پہلی ایشیائی غیرکیمونسٹ ایئرلائن تھی جس نے 1964ء میں کیمونسٹ چائنا کے لیے اُڑان بھری اور امریکہ، یورپ کے لیے براہِ راست پروازیں شروع کیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ وہی ایئرلائن ہے جس نے دنیاکی بہترین ایئرلائن ایمرٹس کو کھڑا کیا۔ جب 1985ء میں ایمرٹس ایئرلائن نے دبئی سے کراچی تک پہلی اُڑان بھری تواُس کے دونوں پائلٹ اور فضائی میزبان پاکستانی تھے۔ اِس پرواز کا کوڈنیم EK تھا جس میں E سے مراد امارات اور K سے مراد کراچی تھا۔ آج بھی ایمرٹس کے جہازوں پر لکھا EK ہمیں ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ غیرملکی ایئرلائنز کے پائلٹس کو تربیت دینے والی اِس ایئرلائن پر ماضی قریب میں وہ دردناک لمحہ بھی آیا جب پوری دنیا نے ہمارے پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا۔ قصور غیرملکیوں کا نہیں ہماری اپنی جمہوری حکومت کا تھا۔ ہمارے وزیرِ ہوابازی نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہ بیان دیا کہ ہمارے پائلٹس کے پاس جعلی ڈگریاں ہیں تو دنیانے اُنہیں گراؤنڈ تو کرنا ہی تھا۔ آج دنیا کو لیزپر جہاز دینے والی اِس ایئرلائن کے پاس اتنے جہاز ہیں نہ لیزپر جہاز لینے کے لیے اتنا پیسہ جس سے وہ اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔
PIA کی بربادیوں میں سب سے بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے۔ اِس کی انتظامیہ ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کی جاتی رہی اور ایسے مَن پسند افراد بھی بھرتی کیے گئے جن میں اتنی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ اِس ایئر لائن کو منافع بخش بنا سکیں۔ PIA میں سیاسی بنیادوں پر ہزاروں افراد بھرتی کیے گئے جو آج بھی اُس پر بوجھ ہیں۔ یہی حال کراچی سٹیل مِل کابھی ہوا۔ اُس کی طرف توجہ تو کسی نے نہیں دی البتہ بیشمار سیاسی بھرتیاں کرکے اُسے تباہی کے دہانے پرلا کھڑا کیا۔ 1956ء میں پہلی بار روسی حکومت نے پاکستان میں سٹیل مِل لگانے کی پیشکش کی۔ 1968ء میں ایوب خاں کی حکومت نے پاکستان سٹیل مِل کو بطور نجی کمپنی رجسٹرڈکیا اور 1973ء میں ذوالفقارعلی بھٹو نے اِس کا افتتاح کیا۔ 1981ء میں سٹیل مِل میں پیداوار کا آغاز ہوا۔ یہ منصوبہ 27 ارب 77 کروڑ کی لاگت سے تیار ہوا۔ اپنے قیام سے 2004ء تک سٹیل مل خسارے میں چلتی رہی جس کی واحد وجہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور ذاتی مفاد تھی۔ اِس دوران 2004ء ہی میں جنرل (ر) عبدالقیوم کو سٹیل ملزکا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ جنرل عبدالقیوم چونکہ 5 سال تک آرڈیننس فیکٹریز کے سربراہ رہ چکے تھے اِس لیے اُن کے پاس تجربہ بھی تھا اور صلاحیت بھی۔ صرف اُنہی کے دَورمیں سٹیل مِل اپنے تمام قرضے اُتارنے کے بعد 10 ارب منافعے میں تھی۔ جب پرویز مشرف نے اِس کی نجکاری کا فیصلہ کیا اُس وقت سٹیل ملز کے پاس 6 ارب روپے کی تیار مصنوعات، اِسی مالیت کا خام مال اور 10 ارب روپے کے اکاؤنٹ موجود تھے۔ آمرپرویز مشرف نے 22 ارب روپے مالیت کی سٹیل ملز کو 21 ارب 68 کروڑ روپے میں فروخت کردیا۔ قیمتِ فروخت میں صرف پلانٹ ہی شامل نہیں تھا بلکہ 22ارب کے اثاثوں کے علاوہ ساڑھے 4 ہزار ایکڑ زمین، 18 ریلوے انجن، 72 کلومیٹر ریلوے ٹریک، 110 کلومیٹر سڑکیں اور رہائشی کالونی سٹیل ٹاؤن شپ بھی شامل تھی۔ یہ سب دیکھتے ہوئے جنرل عبدالقیوم نے استعفیٰ دے دیا۔ اِس نجکاری کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر ہوااور اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے نجکاری کو کالعدم قرار دے دیاجس پر پرویزمشرف نے چیف جسٹس کو معزول کردیا۔ اِس معزولی کے خلاف وکلاء تحریک چلی، باقی تاریخ ہے۔
جو حال PIA اور سٹیل ملز کا ہوا وہی پاکستان ریلوے کا بھی ہوا۔ وہاں بھی سیاسی بھرتیوں اور ذاتی مفاد نے ریلوے کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ کالم کا دامن تنگ اِس لیے ریلوے کا نوحہ پھر کبھی۔ بجاطور پر کہا جا سکتاہے کہ اِن اداروں کی بربادی میں صرف مارشل لاؤں ہی نے نہیں، بَرسرِاقتدار سیاسی جماعتوں نے بھی بھرپور حصّہ ڈالا۔ آج اگرہمارا خزانہ خالی، معیشت کا پہیہ جام، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی کمیابی، مہنگائی کا عفریت اور ڈیفالٹ کے خوف سے لرزہ بَراندام معیشت کاسامنا ہے تواِس میں قصور اپناہی ہے۔ رَبِ کائینات نے تو ہمیں لہلہاتے کھیت، گنگناتی ندیاں، فلک بوس پہاڑ، سونا اُگلتی زمینیں اور زمین میں تہ درتہ چھُپے معدنی خزانے عطاکیے لیکن ہم اُس علیم وخبیرکی غلامی ترک کرکے درِغیر پہ سجدہ ریزہوگئے۔ نتیجہ یہ کہ اب ہمارے ہاتھ میں کاسہئ گدائی اور ہم دَردَر کے بھکاری۔