ملک میں انتخابات کے حوالے سے گو مگو کی کیفیت کے باوجود اب انتخابی مہم زور پکڑ رہی ہے. گو کہ ہر دوسرے تیسرے روز انتخابات کے التواء کی افواہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تردید کی خبروں کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے. مگر اب انتخابی جلسوں اور ریلیوں کو دیکھ کر کچھ کچھ احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں انتخابات ہونے جارہے ہیں. اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو واحد رہنماء تھے جو پچھلے پندرہ روز سے سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے تھے. اب پاکستان مسلم لیگ نواز نے بھی انتخابی جلسوں کا آغاز کر دیا ہے. اس حوالے سے گزشتہ روز ایک ریلی نکالی گئی جس کی قیادت نواز شریف اور مریم نواز نے کی. اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم، جمیعت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے بھی انتخابی جلسوں کا آغاز کر دیا ہے. جبکہ تحریک انصاف کے لیے جلسوں اور ریلیوں کے حوالے سے مشکلات بدستور بڑھتی چلی جارہی ہیں. مگر یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ اس بار جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کے حوالے سے عوام کے اندر وہ روایتی انتخابی جوش و خروش اور جذبہ دیکھنے کو نہیں مل رہا. جو ہمارے ہاں انتخابی ماحول کا خاصہ رہا ہے. اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ایسا بیانیہ، مستقبل کا کوئی ایجنڈا یا کوئی منشور ہی نہیں جس کی بنیاد پر وہ عوام کو متوجہ اور متحرک کر سکیں. کیونکہ سال ہا سال سے یہ جماعتیں اقتدار میں چلی آرہی ہیں. اور پھر پی ڈی ایم کے ڈیڑھ سالہ اقتدار میں بھی یہی جماعتیں ایک ساتھ کھڑی تھیں جو آج آمنے سامنے کھڑی ہیں. دوسری طرف سرکاری اداروں نے جو ماحول بنا دیا ہے اس سے بھی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے. یعنی ایک طرف تمام جماعتیں آزادی کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہیں. دوسری طرف ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیے مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں. 9 مئی میں براہ راست لوگوں کے خلاف کارروائی درست مگر یہاں سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے. اس تمام صوتحال میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں ووٹر سے کہیں زیادہ ان "سپورٹرز" سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرتی ہیں. جو حکومتیں بنانے اور گرانے میں مہارت رکھتے ہیں. البتہ پہلے یہ کام پردے میں کیے جاتے تھے مگر اب کچھ سوشل میڈیا کی مہربانی ہے اور کچھ ہماری جماعتیں اس حد رچ بس گئی ہیں کہ اعلانیہ کہتی ہیں کہ,, ہمارے معاملات طے ہوگئے ہیں. یہی وجہ ہے اب ہماری سیاسی جماعتیں کسی منشور وغیرہ کے جھنجھٹ میں بھی پڑنا گوارا نہیں کرتیں. کہ جس کی بنیاد پر وہ انتخابات میں حصہ لیں اور پھر اس پر پورا اترنا پڑے یا پھر عوام کو جواب دینا پڑے. ہاں البتہ دعوؤں، وعدوں، تقریروں، بیانات اور اعلانات کی روایت بہت پرانی ہے اور آج کل ایک بار پھر عروج پر ہے. 200 سے 300 یونٹ تک بجلی مفت دینے، تنخواہوں میں اضافے، مفت گھر دینے کے بڑے بڑے وعدے اور اعلانات کیے جارہے ہیں. مگر یہ سب ہوگا کیسے جب آج معاشی پالیسیوں سے لیکر بجٹ تک ہر چیز آئی ایم ایف کے مرہون منت ہے. ابھی چند روز پہلے نگران حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے. ایسی صورت میں آنے والی حکومت سے کچھ مفت ملنے کی امید تو نہیں بلکہ ڈر ہے کہیں خود کو گروی ہی نہ رکھنا پڑ جائے.
اس تمام صورتحال میں ایک اور پہلو جو خاصا اہم اور دلچسپ ہے. کہ سال ہا سال سے اقتدار میں رہنے والی جماعتوں کو آج اپنی سابقہ کارکردگی بتا کر ووٹ مانگنا چاہئے تھا. مگر سب کی سب جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ نواز پاکستان تحریک انصاف کے چئرمین کے خلاف تقریریں کرتے نظر آتے ہیں. جو کہ اس وقت جیل میں ہیں اور مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں. ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے ان کے پاس اپنے حوالے سے بتانے کے لیے کچھ نہیں. ان کی تقریر عمران سے شروع ہو کر تحریک انصاف پر ختم ہوتی ہے. حالانکہ کھیل کا مزہ اس وقت آتا ہے جب تمام کھلاڑی میدان میں ہوں اور سب کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جائے. مگر نہیں معلوم اندر کا خوف ہے یا کچھ اور کہ مد مقابل کو باندھ کر ہرانا چاہتے ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ساڑھے تین سال کی کارکردگی کوئی متاثر کن نہیں تھی اگر پی ٹی آئی اپنی مدت پوری کر لیتی تو صورتحال مختلف ہوتی. مگر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد، قیادت کے خلاف کیسز، گرفتاریوں، مختلف عہدیداروں کی جانب سے قیادت کے خلاف پریس کانفرنسز، الیکشن پراسسز میں پیدا کردہ مشکلات اور انتخابی نشان سے محرومی کے بعد لوگوں کی ہمدردیاں تحریک انصاف کے لیے بڑھ گئی ہیں. کیونکہ لوگ مزاحمت کی سیاست کو زیادہ پسند کرتے ہیں. ایسی صورتحال میں اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر ملک میں صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرا دئے جائیں تو نتائج مختلف ہو سکتے ہیں. ہاں اگر صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرا دئے جائیں.
|